Showing posts with label بےربط سوچیں. Show all posts
Showing posts with label بےربط سوچیں. Show all posts

Friday, 27 March 2020

COVID-19 Diaries - کرونا ڈائری۔ آج کی سچ 3

0 comments
کاش میرے ملک کے
 تمام شہری ایسے قرنطینہ کا وقت یوں بے فکری سے اور لطف
اندوز ہوتے گزار سکتے۔

   

Tuesday, 24 March 2020

COVID-19 Diaries - کرونا ڈائری۔ آج کی سوچ 2

0 comments
ایک تو ویسے ہی سارا گھر 'سماجی فاصلے' پرعمل پیرا ہوتے ہوئے گھر بیٹھا ہے۔ پھر بالآخر عثمان بزدار صاحب بھی جاگ گئے ہیں اور لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا ہے۔ لیکن ہمارے دفتر والوں کا ابھی کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ایسے میں دفتر بیٹھے میں یہی سوچ رہی ہوں کہ لوگوں کو حالات کی سنگینی کا احساس کیسے دلوایا جائے۔ کیا دو تین چھینکیں مارنے سے کوئی ڈرے گا؟

COVID-19 Diaries - کرونا ڈائری۔ آج کی سوچ 1

0 comments
سو ایک طویل عرصے کے بعد واپسی ہوئی بھی تو کس صورت میں۔ دنیا بھر میں اس وقت کرونا وائرس کی دہشت پھیلی ہوئی ہے۔ اور کیا ترقی یافتہ و ترقی پذیر، ہر ملک اس عفریت کا سامنا کرتے ہوئے یکساں مشکلات کا شکار ہے۔
بات پاکستان کی ہو تو معلوم نہیں اسے حالات کی ستم ظریفی کہنا چاہیے، ارباب اختیار کی نااہلی، عوام کی غیر سنجیدگی یا کچھ اور۔ اس وقت پوری قوم کا ذہن ماؤف ہے سو اس تحقیق کو کسی اور وقت کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں۔

میں یہاں ایک عام پاکستانی شہری کی روزمرہ کے احساسات شامل کرنے کی کوشش کروں گی۔

وزارتِ منصوبہ بندی، قومی منصوبہ بندی کمیشن اور نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ میں کتنے دنوں سے اس چیز کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ کاش کوئی سمجھا دے۔

 

Friday, 7 September 2018

بلاعنوان

0 comments
آج سے تقریبا ساڑھے سات برس پہلے یہ نظم دُکھے دل کے ساتھ  پوسٹ کی تھی۔ گزشتہ کل جب ساری قوم یومِ دفاع و شہدائے پاکستان منا رہی تھی، میرے ذہن میں پھر اسی کلام کےالفاظ گونج رہے تھے۔


فوجی بینڈ کی دھن ہر پاکستانی کے دل میں ایک خاص جوش و جذبہ جگاتی ہے اور انسان مزید پُرعزم ہو جاتا ہے لیکن اب میرے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔  بلکہ اس سال جس قدر جوش و جذبہ اور جگہ جگہ اشتہار، بِل بورڈ اور بینرز کی فراوانی دیکھنے کو مل رہی تھی مجھے اتنی ہی خاموشی اور دکھ محسوس ہو رہا تھا۔ نجانے کیوں؟  کیا یہ وطن سے لگاؤ اور محبت میں کمی ہونے کی نشانی ہے یا میں کچھ زیادہ ہی حقیقت پسند ہو گئی ہوں یا آخری بات یہ ہو سکتی ہے کہ یہ ایک بور انسان ہونے کی معراج ہے۔ 


Wednesday, 23 November 2016

سوچوں کا الجھا ریشم!

1 comments
بہت عرصہ ہو گیا دریچہ کھول کر بلاگنگ کی دنیا میں جھانکے ہوئے۔ ایک وقت تھا کہ بے ربط سوچوں کو بے ربط اندازمیں ہی سہی، لیکن الفاظ دینا ایسا مشکل نہیں لگتا تھا لیکن اب تو یہ حال ہے کہ الفاظ میں معمولی سا ربط بنانے میں ہی گھنٹوں گزر جاتے ہیں اور زندگی اس قدر تیز چلتی جاتی ہے کہ سوچوں کے اس ڈھیر کو چھوڑ فورا بھاگم بھاگ اگلے سٹاپ کی طرف بھاگنا پڑتا ہے۔ مجھے یاد ہے سکول کے دنوں میں کسی ڈرامے میں ایک شعر سنا تھا  جو فورا ذہن سے چپک گیا۔ 
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے سے جدا کس کو کریں
یہ وہی دن تھے جب اردو کی ٹیچر کی کوششوں سے ہم سب کا اردو زبان سے لگاؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ سو جہاں کچھ نیا دیکھنے یا پڑھنے کو ملتا فورا اردو کی کلاس میں ذکر کیا جاتا اوراس شعر کا مطلب  بھی انہی سے پوچھا۔ میری استاد نے بہت اچھا سمجھایا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ بیٹا اس شعر کی سمجھ آپ کو تب زیادہ اچھی آئے گی جب آپ عملی زندگی میں قدم رکھیں گی۔ اور اب مجھے یہ شعر اور اپنی اردو کی مس دونوں ہی اکثر یاد آتی ہیں۔ 

خیر۔ کبھی کبھی سوچوں کے الجھے ریشم کو سلجھانے کا موڈ بن ہی جاتا ہے۔ اسی موڈ کے زیرِ اثر آج بلاگ کھول کیا یہ سوچتے ہوئے کہ کچھ لکھا جائے۔ میرا خیال ہےابھی لیے اتنا سلجھاؤ کافی ہے۔ نیٹ پریکٹس ہو گئی۔ اب اگلی پوسٹ کی تیاری کرنی چاہیے۔  

Wednesday, 22 July 2015

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!

0 comments
جس ملک میں اسلام کے نام پر تجارتی بازار کھلا ہو وہاں رحمت کیسے آئے. 
ایک طرف ٹوپی پہنے باریش میزبان فصیح و بلیغ زبان میں سادگی اور قناعت پسندی کی تبلیغ کیے جا رہے ہیں اور دوسری طرف نیچے سلائیڈ چل رہی ہے کہ موصوف کا کرتا فلاں ڈیزائنر برانڈ کا ہے.
ایک طرف ایک چینل پر ایک خودساختہ خدائی فوجدار ایک دوسرے چینل پر نشر ہونے والے پروگرام میں اسلامی مقدس ہستیوں کی شان میں کی جانے والی گستاخی کی خبر دے کر اس کی میزبان کے خلاف کیا کیا نہیں کرتا اور اسے ملک سے فرار ہونے پر مجبور کرتا ہے تو دوسری طرف چند ہی مہینوں بعد وہی شخص اسی میزبان کے اعزاز میں کھانے کی دعوت کا اہتمام کرتا ہے.
ایک طرف برسہا برس بے گناہ جیلوں میں بند ناکردہ گناہوں کی سزا بهگتتے رہتے ہیں تو دوسری طرف ایک ماڈل غیر قانونی پیسہ باہر لے جاتے پکڑی جاتی ہے اور اس کو پکڑنے والے افسر کو دائمی نیند سلا کر ماڈل کو میڈیا پر وکٹری کا نشان بناتے ہوئے سوشل میڈیا پر سیلفیاں اپلوڈ کرنے کے لیے رہا کر دیا جاتا ہے. 
اور مجھ سمیت تمام عوام بےحس ہو کر 'جیتو پاکستان جیتو' دیکھ رہی ہے.  تو پهر میں کیسے نہ سوچوں کہ جو ہو رہا ہے ہماری کرنیوں کا پھل ہے. 

Sunday, 28 June 2015

فرائض اور ہم!

2 comments
 بعض اوقات کچھ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کچھ کہے بغیر  نہیں رہ سکتا. روزہ ایک فرض عبادت ہے اور فرض عبادت کیسی ہی کٹھن کیوں نہ محسوس ہو اسے خوشدلی سے ادا کرنا ہی اس کی کامیابی ہے لیکن ہم لوگ جو دنیاوی خداؤں کے سامنے کچھ کہنے سے پہلے دس بار اس کے ممکنہ اثرات و نتائج کے بارے میں سوچتے ہیں اور پهر انتہائی نپی تلی بات کرتے ہیں کہ کہیں انہیں ناگوار نہ گزرے ، اللہ تعالیٰ کے احکام کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے ایک بار بهی نہیں سوچتے کہ یہ بات اللہ کو ناگوار نہ گزرے.  سو ادهر رمضان شروع ہوا نہیں ادهر روزے کے بارے میں ایسے ایسے ٹیکسٹ میسج فارورڈ ہونا شروع ہو گئے کہ بعض اوقات افسوس کے ساتھ حیرت بهی ہوتی ہے ..کیا ہم اس عبادت کی فرضیت اور روح کے بارے میں لاعلم ہیں اور یہ حیرت اس وقت دو چند ہو جاتی ہے جب ایسی بات یا مذاق کسی باعلم و باعمل شخصیت کی جانب سے ہو.  آج دن میں مجهے ایسا ہی ایک ٹیکسٹ ملا جس میں روزے کی شدت کے بارے میں مذاق کے انداز میں بات کی گئی تهی اور یہ ٹیکسٹ جن کی طرف سے آیا وہ چاہے دنیاوی طور پر باعلم نہ ہوں لیکن عموماً ان کی باتوں اور پیغامات میں دین سے لگاؤ کافی نمایاں ہوتا ہے. اور ابهی ابهی مغرب کے بعد ایسا ہی ٹیکسٹ ایک ایسی شخصیت کی طرف سے ملا جو دنیاوی طور پر بهی انتہائی باعلم ہیں اور دینوی طور پر بهی. ماشاءاللہ حج اور عمرے ہی سعادت بهی حاصل کی ہوئی ہے لیکن ان کے ٹیکسٹ میں بهی بعینہ وہی بات تهی. وہی فارورڈڈ پیغام کلچر جہاں ہم ایک لمحہ بهی غور کیے بغیر پیغام آگے بھیجنا اپنا فرض سمجھتے ہیں.
نجانے مجهے کیوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں مار ہی اس لیے کها رہے ہیں کہ ہم ہر سطح پر اور ہر حیثیت میں 'فرائض' کو مذاق میں اڑانے کے عادی ہو گئے ہیں. 

Tuesday, 2 December 2014

دسمبر آ گیا ہے!!!

7 comments
صبح دفتر پہنچ کر سامنے میز پر رکھے کیلنڈر پر نظر پڑی تو یکم تاریخ کا صفحہ نظر آیا۔ سائیڈ پر رکھے ریک سے فائل اٹھانے لگی تو اس پر ابھی تیس تاریخ جگمگا رہی تھی۔ یہ سوچتے ہوئے کہ چاچا اس کیلنڈر کا صفحہ پلٹنا بھول گئے ہیں میں نے یکم تاریخ کا صفحہ سامنے کر دیا۔ اور پھر اپنے معمول کے کام شروع کر دیئے۔ تھوڑی دیر کے بعد کسی کام کے لیے فون اٹھایا تو گوگل پلس نے شور مچانا شروع کر دیا کہ 'تبدیلی آ چکی ہے۔ نئی پوسٹس پوسٹ ہو چکی ہیں۔ ان کو ملاحظہ فرما لو۔ ورنہ بے خبر رہ جاؤ گی۔' اور فی زمانہ بے خبری کا طعنہ اتنا ہی شدید ہوتا ہے جتنا کسی زیادہ پڑھے لکھے خاندان میں ایک معصوم سے نسبتا کم پڑھے لکھے مسکین کو ان پڑھ کا طعنہ ہوتا ہے۔ اس لیے گوگل پلس کا ڈھیروں شکریہ ادا کرتے ہوئے جلدی جلدی خود کو 'باخبر' کرنے کی کوشش کی۔ اسی کوشش میں پہلی پوسٹ ہی بریکنگ نیوز والی ملی۔
  'Last chapter of year started...' 
یہ 'وارننگ'پڑھتے ہی فوراؐ نظر سامنے پڑی ٹیبل ڈائری پر پڑی تو معلوم ہوا کہ آج تو 'دسمبر' کی یکم تاریخ ہے۔ تب معلوم ہوا کہ واقعی 'تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آ چکی ہے' یعنی 'دسمبر آ چکا ہے۔' پھر ان  با خبر صاحبِ پوسٹ اور ایک مشہور صاحبِ کلام سے دورانِ گفتگو ان کے بلاگز پر 'دسمبر کی بلاگ توڑ دھمال' کا ذکر پڑھنے کا اتفاق ہوا تو سوچا کہ ایسا نہ ہو کہ بعد میں 'دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا' سننے کی نوبت آ جائے۔ اس لیے میں بھی بطور سند دسمبر کے بارے میں پوسٹ لکھ رہی ہوں۔ اگرچہ زمانہ 24 گھنٹے آگے نکل چکا ہے کیونکہ میں نے سوچا کل تھا اور لکھ آج رہی ہوں۔ لیکن خیر کوئی بات نہیں۔ دیر آید درست آید۔
ہاں تو جی واقعی دسمبر کی ہماری زندگیوں میں بہت اہمیت ہے۔ دسمبر نہ ہوتا تو سال کبھی ختم ہی نہ ہوتا اور سال ختم نہ ہوتا تو پڑھنے والی اگلی جماعت میں نہ جا سکتے اور لکھنے والے یعنی تنخواہ دار طبقہ جنوری کی تنخواہ نہ لے سکتا۔ دسمبر نہ ہوتا تو سردیوں کی چھٹیاں نہ ہوتیں۔ ویسے تو اب اگر سردیوں کی چھٹیاں نہ بھی ہوا کریں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ ہم تو اب سکول کالج و یونیورسٹی جاتے نہیں۔ اس لیے ہمیں چھٹیوں کا کیا فائدہ بھلا۔ 
دسمبر نہ ہوتا تو ہم قائدِ اعظم کی سالگرہ کب اور کیسے مناتے اور اگر نہ مناتے تو دنیا کے طعنے کون سنتا۔ اب کم از کم ہم ہر سال کے اختتام پر ایک چھٹی کر کے پورا دن قائدِ اعظم کی سالگرہ پورے جوش و خروش کے ساتھ سو کر یا پڑوسی ملک کی فلمیں دیکھ کر مناتے ہیں۔ یا ٹی وی پر وطن کی محبت میں 'برپا' کیے جانے والے شو دیکھتے ہیں جن میں گانا و بجانا سب کچھ دوسروں سے مستعار لیا ہوتا ہے ۔اور یوں ہم تمام دنیا کو بتاتے ہیں کہ دیکھو ہم اپنے محسنوں کو نہیں بھولے۔
دسمبر نہ ہوتا تو ہم ہر سال 16 دسمبر کو سقوطِ ڈھاکہ کا ذکر کرتے ہوئے الزام تراشیاں کیسے کرتے۔ کم از کم قوم اس مہینے میں مصروف تو رہتی ہے۔ آدھی قوم مشرقی پاکستان و مکتی باہنی کو کوستی ہے اور باقی آدھی مغربی پاکستان کو۔ دنیا کو اب تو ہمارے انصاف پسند اور تصویر کے دونوں رخ دیکھنے کے عادی ہونے پر شبہ نہیں ہونا چاہئیے۔ 
 
شکر ہے کہ دسمبر ابھی 'ہے' اس لیے اب نہ ہونے کے خدشات و پریشانیاں ختم کر کے دسمبر کو منانے کے انداز و فیشن کا ذکر ہو جائے۔
یکم دسمبر بلکہ اس سے پہلے سے ہی بقول محمد احمد کے 'گوگل ہر سال عرس پر دھمال ڈالتے قلندر ہر اس جگہ بھیجتا ہے جہاں دسمبر کا بیاں ہوا ہو۔' سو اگر آپ پورا سال بھی بلاگ نہیں لکھتے تو دسمبر میں حتیٰ کہ جون جولائی میں بھی دسمبر کے بارے میں کوئی شعر، نظم، غزل، کہانی، یا صرف دسمبر دسمبر ہوتا ہے سردیوں میں آئے یا گرمیوں میں ہی لکھ دیں۔ آپ کے بلاگ پر یہ بلاگ توڑ ٹریفک کا مہینہ ہو گا۔
خیر اگرچہ ابھی دسمبر آیا ہے اور اس کے جانے میں پورے 29 دن باقی ہیں لیکن ہو گا یہ کہ شروع کے دو چار دن تو سب کو خبر دی جائے گی کہ ''دسمبر آ گیا ہے۔" اور ساتھ ہی دسمبر کی منتیں شروع ہو جائیں گی کہ پلیز نہ جاؤ۔۔اور ان درخواستوں کی شدت دسمبر کے آخری ہفتے میں اپنی  بلندیوں کو چھو رہی ہو گی۔ لیکن یہ 'نہ جانے کی ضد نہ کرو' والی درخواست صاحب ذوق لوگوں کی طرف سے ہو گی ۔ چند میرے جیسے بدذوق ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ پلیز ختم ہو جاؤ۔ نیا مہینہ شروع ہونے دو تا کہ پرس تو کچھ بھاری ہو۔
 مزید یہ ہو گا کہ دسمبر کے بارے میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر شعر پڑھے جائیں گے اور انہیں پڑھنے کا مقصد اچھی شاعری خود پڑھنے سے زیادہ دوسروں کو پڑھوانا ہو گا چنانچہ جہاں کسی شعر و کلام میں دسمبر کا لفظ نظر پڑا فورا کاپی پیسٹ کر کے اسے آگے فارورڈ یا پوسٹ کر دیا جائے گا۔ چاہے بعد میں معلوم ہو کہ یہ تو امسال دمسبر تک بل ادا نہ کرنے والے اشتہاری نادہندگان کی فہرست تھی۔
ہر دسمبر میں عوام کی ایک بڑی تعداد ایک اور سنڈروم کا شکار ہوتی ہے اور وہ ہے 'امجد اسلام امجد' صاحب کے 'آخری چند دن دسمبر کے'میں بیان کیے جانے والے خدشات۔ ہر دسمبر بہت سے لوگ اس غم و تشویش میں گُھلے جاتے ہیں کہ ان کا نام کسی کی ڈائری میں درج دوستوں کی فہرست سے کٹ گیا ہو گا۔ حالانکہ انہیں اچھی طرح معلوم بھی ہوتا ہے کہ اب ڈائری کا زمانہ ہے ہی نہیں۔ لوگ سیدھا سیدھا فون پر نام و نمبر محفوظ کرتے ہیں اور کسی کا نمبر ختم نہیں کرتے کیونکہ جب فون کا پیکج لیا ہو تو پھر فری ٹیکسٹ میسج بھی بھیجنے ہوتے ہیں نا۔ اس خدشے کے شکار لوگوں کو یہ بھی تسلی رکھنی چاہئیے کہ شاید ہی کوئی اتنا پابند ہو کہ ہر سال دسمبر میں اپنی ڈائری کو از سرِ نو مرتب کرتا ہو۔ جس نے نمبر ختم کرنا ہے وہ جنوری سے نومبر میں کسی بھی وقت ایسا کر سکتا ہے اب یہ کوئی ایسا کام تو ہے نہیں کہ کسی خاص مہینے میں کیا جائے۔ اس لیے بیچارے دسمبر کو اس بات کا الزام نہیں دینا چائیے۔

خیر کوئی کتنی ہی درخواست کرتا رہے۔ دسمبر نے جانا ہی ہے اور 31 دسمبر کو چلا ہی جاتا ہے۔ اور رُکے بھی تو کیوں۔۔ہر طرح کی اداسی و پریشانی کا الزام دسمبر کے سر جو منڈھ دیا جاتا ہے۔ اور پھر جن لوگوں کو بالآخر یقین آ جاتا ہے کہ دسمبر جا رہا ہے تو جاتے دسمبر کو 'دسمبر اب کے آؤ تو۔۔۔' کہتے ہوئے ایک طویل فرمائشی فہرست اس کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔ باذوق لوگ تو اس میں بھی بہت خوبصورت و دل نشیں الفاظ استعمال کرتے ہوئے جو درخواستیں کرتے ہیں اس کے لیے مجھے پہلے خود اس کی تشریح سمجھنی پڑے گی پھر یہاں لکھنا ہو گا۔ لیکن ان دنوں فیشن کے مطابق سیاست پر بات کرنا اِن ہے تو میں ایک دو لوگوں کی دسمبر سے درخواستوں کے بارے میں 'وکی لیکس' طرز پر کچھ خبر دیتی ہوں۔
موجودہ حکومت: دسمبر اب کے آؤ تو خان و پی ٹی آئی کو اسلام آباد مت لانا۔
خان صاحب: اؤے دسمبر اب کے آؤ تو نواز شریف کا استعفیٰ ساتھ لانا۔
عوام: دسمبر اب کے آؤ تو گیس کی بندش ختم کروانا۔
اور میں: بھائی لوگو دسمبر کو جانے تو دو۔ جائے گا تو آئے گا نا۔ 
 
 

Tuesday, 23 September 2014

اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم!!!!

2 comments
کُچھ اور چمک اے آتشِ جاں، کُچھ اور ٹپک اے دل کے لہُو
کُچھ اور فزوں اے سوزِ دروں، کُچھ اور تپاں اے ذوقِ نمو
بچھڑے یارو! ڈُوبے تارو!
دُکھیا ماؤں! اُجڑی بہنو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم


کلام: ضمیر جعفری
19 دسمبر 1971ء

Thursday, 14 August 2014

14اگست 14ء

5 comments




الحمد اللہ۔ آج پاکستان کا 68 واں یومِ آزادی ہے۔ مشکلات ، مصائب، پریشانیوں اور ناکامیوں کے باوجود یہ ملک اور اس کے باسی اپنے وجود کو برقرار بھی رکھ پائے ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اوران شاءاللہ ایک وقت آئے گا جب ہم بھی مثبت ترقی میں بہتوں سے آگے ہوں گے۔ 

ہر سال جب اگست کا مہینہ شروع ہوتا ہے، مجھے وہ دن شدت سے یاد آتے ہیں جب اگست کے شروع میں ابو سب بچوں کے لیے پاکستان کے بیج ، ٹوپیاں اور جھنڈیاں لایا کرتے تھے۔ ہم گھروں اور سکولوں کو جھنڈیوں سے سجاتے تھے۔ ہر گھر پر پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا ہوتا تھا۔ ٹیلی ویژن پر 14 اگست- 13 دن بعد، 12 دن بعد والا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو جاتا تھا اور ہم اپنے اپنے گھروں پر لگی جھنڈیاں شمار کرتے  اور 14 اگست کو صبح صبح سکول کو روانگی ہوتی تھی جہاں قومی ترانے کے بعد نظموں ، ملی نغموں اور تقریریں دل و جاں میں ایک نئی روح پھونکتے تھے۔ گھر واپس آ کر پورے خاندان کے ساتھ ٹی وی پر مارچ پاسٹ دیکھنا اور پھر سارا دن ایسے گزارنا جیسے عید کا سماں ہو۔ اپنے ملک سے محبت اور اس کی اہمیت کا احساس شاید انہی دنوں میں میرے اندر پختہ ہوئے تھے اور میں جہاں بھی گئی ، جہاں بھی رہی یہ محبت میرے ساتھ رہی اور بالآخر مجھے واپس اپنے پاس کھینچ لائی۔
مجھے اب بھی اگست کا مہینہ اسی کیفیت میں لے جاتا ہے۔ اب بھی سڑکوں سے گزرتے جب میں چھوٹے بڑے جھنڈوں سے سجے گھر و عمارتیں دیکھتی ہوں، رستوں کو روشیوں سے جگمگاتا دیکھتی ہوں تو میرا دل ویسے ہی بچپن کی طرح  پورے جوش سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے کو چاہتاہے۔  اس خواہش کو میں کسی نہ کسی طریقے سے اب بھی پوراکر لیتی ہوں۔ 
گزشتہ چند برسوں سے 14اگست کے موقع پر پاکستانی اپنے ملک میں جاری دہشت گردی ، سیاسی و لسانی جھگڑوں اور روزمرہ زندگی کی مشکلات سے پریشانی کے باجود اس دن کو امیدوں ، امنگوں و دعاؤں سے بھرپور دن کے طور پر مناتے رہے ہیں لیکن اس سال یہ مہینہ اور یہ دن شدید پریشانی میں گزر رہا ہے۔ بزعمِ خود قوم کے نجات دہندوں، جن کے ساتھ  بھیڑوں کا غول چل پڑے ہیں، نے اس مہینے اور دن کو ایسا بنا دیا ہے جس کے ساتھ  عوام کے لیے تکلیف دہ یادیں جڑی رہیں گی۔ جہاں ہر طرف صرف سبز ہلالی پاکستانی جھنڈا نظر آنا چاہیے تھا، آج وہاں رنگا رنگ گروہوں کے جھنڈے دیکھنے کو ملیں گے۔ جس مہینے میں صرف'پاکستان زندہ باد' کا نعرہ سننے کو ملنا چاہیے تھا ، نام نہاد انقلابیوں کے نعرے بج رہے ہیں۔ جہاں لوگوں کو  باہر نکل کر یومِ آزادی کی خوشیاں منانی چاہییں تھیں وہاں 'پائیڈ پائیپرز' کے باجوں پر آنکھیں، کان اور دماغ بند کیے ہجوم اپنی اور دوسروں کی زندگی مشکل کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔
کاش کوئی ان 'قائدِ اعظم' بننے کے شوقین رہنماؤں سے پوچھے کہ کیا انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی سوچا کہ وہ پاکستانیوں کی ایک واحد مشترکہ خوشی کو کس طرح برباد کرنے جا رہے ہیں۔ کیا انقلاب 14 اگست سے پہلے یا بعد میں نہیں لایا جا سکتا تھا۔ اور کیا وہ ایک قومی دن کو ایک گروہی سیاست کی یادگار نہیں بنا رہے؟
لیکن پوچھے کون؟ ہم جو صرف یہ کر سکتے ہیں کہ جو آواز اونچی کر کے دھمکی آمیز لہجے میں بولنا شروع کرے اسے نجات دہندہ مان کر ایک اونچے سنگھاسن پر بٹھا کر پوجنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر وہ ہماری آنکھوں پر کولہو کے بیل کی سی عینک چڑھا کر اپنے گرد پھیرے لگانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
اللہ میرے ملک کو اور میرے لوگوں کو ایسے عاقبت نااندیش رہنماؤں و حکمرانوں سے بچائیں اور اپنا دماغ اور آنکھیں کُھلی رکھنے کی ہدایت عطا فرمائیں۔ آمین
جیوے پاکستان۔
پاکستان زندہ باد!  

Friday, 10 January 2014

شہیدانِ وطن کے حوصلے!!!

7 comments
میں سوچتی تھی کہ نئے سال میں اپنے بلاگ پر پہلی پوسٹ کچھ مختلف ہی لکھوں گی۔ اسی سوچنے میں دس دن گزر گئے اور پھر کل شام کراچی میں ایس پی سی آئی ڈی چودھری محمد اسلم کی شہادت کے بعد مجھے لگا کہ شاید اب میں وہ پوسٹ نہیں لکھ سکوں گی۔ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ میرے ملک کے کتنے ہی لوگ ہر دوسرے روز ایسے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک اپنی ذاتی زندگی میں کسی نہ کسی حوالے سے ہیرو ہوتا ہے، کتنی آنکھوں کا تارہ ہوتا ہے اور کتنوں کی امید کا مرکز ہوتا ہے۔ میں ان کے نام نہیں جانتی لیکن وہ اور ان کے پیچھے رہ جانے والے میری دعاؤں میں شامل ہوتے ہیں۔ کتنا آسان ہوتا ہے خبر پڑھ کر یا سن کر ایک طرف رکھ دینا اور کتنا مشکل ہوتا ہے اس خاندان کا تصور کرنا جس کا کوئی پیارا ان سے اس طرح بچھڑ جائے کہ اس کا بے جان وجود بھی ٹکڑوں میں بٹا ہوا واپس ملے۔
میری یہ پوسٹ ان سب کے نام جنہوں نے پاکستانی ہونے کی قیمت ادا کی۔ جو اپنا فرض ادا کرنے کی پاداش میں دشمن کا نشانہ بنے یا جنہوں نے ایک عام پاکستانی ہونے کی قیمت ادا کی۔ 
ایس پی سی آئی ڈی بہت سوں کے لئے امن کی علامت تھے اور بہت سوں کے لئے دہشت کا نشان۔ چاہے ان کے فیصلے اور ایکشن کتنے ہی متنازع رہے ہوں  لیکن ایک بات پر سب متفق ہیں کہ وہ ایک کمٹڈ،  دلیر اور رسک لینے والے افسر تھے۔ اور ہماری فورسز میں ایسے افسروں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔
آج کے روزنامہ ڈان میں ان کے بارے میں ایک تفصیلی آرٹیکل آیا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

میری یہ پوسٹ اس 14 سالہ بچے کے نام بھی ہے جس نے گزشتہ پیر کو ہنگو میں ایک خودکش بمبار کو روک کر اپنے سکول میں موجود دو ہزار بچوں کی جان بچاتے ہوئے اپنی جان دے دی۔ اعتزاز حسن جو ہنگو آدم زئی میں رہتا اور پڑھتا تھا، کو سکول میں دیر سے پہنچنے پر بطور سزا گیٹ سے باہر نکال دیا گیا۔ اپنے جیسے دیگر بچوں کے ساتھ واپسی کے راستے پر جب ان لوگوں کا سامنا ایک مشکوک خود کش بمبار سے ہوا جس کی جیکٹ کا ایک کونا دیکھ کر انہیں اس کے ارادوں کا اندازہ ہوا تو اس بچے نے اس کا پیچھا کرتے ہوئے جب اسے پکڑا تو بمبار نے بچے سمیت خود کو دھماکے میں اڑا لیا۔ 

میرے لیے یہ بچہ بھی ہیرو ہے ، وہ ایس پی بھی ہیرو ، آئے روز خودکش دھماکوں کا شکار ہونے والا ایک ایک پاکستانی ہیرو ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور پیچھے رہ جانے والوں کو حوصلے قائم رکھے۔ آمین

شہیدانِ وطن کے حوصلے تھے دید کے قابل
وہاں پر شکر کرتے تھے جہاں پر صبر مشکل تھا 

Tuesday, 26 November 2013

سلام ٹیچر!

5 comments
پاکستان میں معیارِ تعلیم کی تنزلی کا رونا کوئی نئی بات نہیں۔ آج صبح بھی میں نے یہ خبر پڑھی کہ یونیسکو نے پاکستان کو معیاری تعلیم کے لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں 120 ممالک میں 113واں نمبر دیا ہے۔ اس خبر میں اگر کچھ مثبت ڈھونڈنا ہو تو وہ یہ ہے کہ ابھی بھی ہم سات ممالک سے بہتر تعلیم دے رہے ہیں :)۔
باقی رہی پریشانی کی بات تو گھوسٹ سکولوں ، جوابدہی کی روایت کا ناپید ہونے،  ہر کسی کو سکول کھولنے کی اجازت دینے اور روایتی سرکاری انداز میں کام کرنے جیسے عناصر اس پریشانی کی وجہ ہیں۔ جس پر بہت بحث اور بات ہوتی رہتی ہے لیکن چونکہ ہم گفتار کے غازی ہیں تو یہ سب کچھ مباحثوں تک ہی محدود رہتا ہے۔

آج کی پوسٹ ہمارے ماشاءاللہ اساتذہ کرام کے بارے میں ہے۔ جب اس شعبے کو اپنانے کا معیار یہ رہ جائے کہ جو کسی اور شعبہ میں کامیاب نہ ہو سکے ، وہ استاد بن جاتا ہے تو معیار کی بات کیسے کی جائے گئ۔ ویک اینڈ کی بات ہے کہ میں اپنے بھتیجے کو جو شہر بلکہ ملک کے ایک بہترین سمجھے جانے والے سکول سسٹم میں زیرِ تعلیم ہیں ، کو کلاس ٹیسٹ کی تیاری کروا رہی تھی۔ اردو کی  کاپی اور کتاب کھول کر ہر صفحے پر مجھے اتنے دھچکے لگے جیسے شہر کی نئی تعمیرشدہ ٹوٹی ہوئی سڑک پر سفر کرتے لگا کرتے ہیں۔ صرف ایک دو مثالیں لکھوں گی۔
سوال: حضرت محمد (ص) کا روضہ مبارک کس ملک میں واقع ہے؟
جواب: آپ (ص) کا روضہ مبارک 'مدینہ منورہ' میں واقع ہے۔
یہ سوال جواب اردو کی استاد نے خود لکھوائے ہیں۔

تخلیقی لکھائی:
میرا دوست
علی میرا دوست ہے۔
یہ میرا ہم جماعت ہے۔
یہ بہت اچھا لڑکا ہے۔
یہ لاہور میں رہتا ہے۔

بندہ پوچھے کہ لکھنے والا بچہ تو اسلام آباد میں پڑھ رہا ہے۔ اور اس کا ہم جماعت دوست لاہور میں رہ رہا ہے۔ یا تو کوئی جادو ہے یا پھر کہیں سکائپ کے ذریعے تو پڑھایا نہیں جاتا۔ 
پھر یہ کہ تخلیقی لکھائی تو بچے کی اپنی کاوش ہوتی ہے۔ ٹیچر خود کیسے لکھوا رہی ہیں اور جب لکھوا رہی ہیں تو کم از کم یہ تو دیکھ لیں کہ کیا لکھوا رہی ہیں۔
یہ تو دو مثالیں ہیں۔ مزید بھی ایسے ایسے شگوفے تھے کہ ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
   
مزید اتفاق یہ  ہوا کہ اگلے ہی دن مجھے ایک آفیسر کی ایک سکول وزٹ کی رپورٹ پڑھنے کو ملی۔ جنہوں نے بچوں کے سپوکن انگلش کمیونیکیشن سکلز پر تبصرہ کچھ ایسا لکھا تھا کہ انہیں ایک جماعت میں بچے اردو پڑھتے ملے۔ انہوں نے جب ایک بچے سے ہوچھا کہ اس سبق میں کیا ہے تو بچے نے پورے سبق کا خلاصہ 'انگریزی' میں بتایا۔ (جو کہ ان آفیسر کے خیال میں بہت خوشی کی بات تھی)۔ سو انہوں نے نہ صرف وہاں اس بچے کو شاباش دی بلکہ واپس آنے کے بعد اس بچے کو اس کی اچھی انگریزی پر بطور انعام ایک عدد کتاب بھی بھیجی۔ 

یہ کسی ایک استاد یا ایک ماہرِ تعلیم یا افسرِ تعلیم کی بات نہیں ہے۔ یہ ایک پورے شعبے کی نمائندگی ہو رہی ہے۔ ہمارے اساتذہ اور سکول صرف تعلیم کو ذریعہ آمدن سمجھ رہے ہیں۔ جب تعلیم کاروبار بن جائے تو پھر معیار گرنے کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اور یہی ہمارا ا المیہ ہے۔  

Sunday, 17 November 2013

میرے شہر کی سڑکوں پر جل رہے ہیں دیے خون کے!

1 comments
راولپنڈی اور اس کے باسیوں پر گزشتہ دو دنوں سے جو کچھ گزر رہی ہے اس میں مزید اضافہ ان نام نہاد رہنماؤں ، علمائے کرام اور تجزیہ نگاروں کے وہی گھسے پٹے انداز و بیانات کر رہے ہیں۔  ایک طرف ایک صاحب بھڑکیں لگا رہے ہیں کہ میں راولپنڈی کا منتخب نمائندہ ہوں۔ میں یہاں کے ہر شیعہ سنی کو پہچانتا ہوں۔ یہ سب باہر سے منگوائے گئے لوگ ہیں،۔ یہ حکومت کی ناکامی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور میرا دل چاہتا ہے کہ کاش کوئی ان موصوف کے منہ پر بڑی سی ٹیپ لگا کر ان کو ان کے سامنے ان کی اپنی اتنے سالوں کی کارکردگی اور ان کی عوام سے ہمدردی کے ثبوتوں پر مبنی فلم ہی چلا دے۔ تا کہ کچھ دیر کو ہی سہی ان کو یہ تو احساس ہو کہ سالہا سال سے انہوں نے بھی اپنے حلقے اور اپنے لوگوں کے لئے کیا کچھ کیا ہ یا کل سے اب تک لوگوں کے لئے کیا کیا ہے؟
دوسری طرف ہمارے علمائے کرام ایک کے بعد ایک آ کر اپنے گراں قدر خیالات سے عوام کو فیض یاب کئے جا رہے ہیں۔ انہیں اس سازش میں بیرونی ہاتھ دکھائی دے رہا ہے۔ انہیں خود اپنی تعلیمات رواداری اور حوصلے اور برداشت پر مبنی محسوس ہوتی ہیں اور جو کچھ ہوا اس میں سراسر حکومت اور پولیس کی کوتاہی نظر آ رہی ہے۔ اور میں سوچ رہی ہوں کہ کاش کوئی ان سے یہ پوچھ لے کہ وہ جو محرم کے دس دن اور عین 10 محرم کو بھی پورے ملک میں شام تک ملک بھر میں خیر خیریت سے تمام جلوس نکلے بھی اور ختم بھی ہوئے ، اس کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے؟ اور کوئی ان سے یہ بھی پوچھے کہ اگر سب کچھ ریاست کی ذمہ داری ہے تو وہ کیوں عوام کے جتھوں کے جتھے لیکر سڑکوں پر نکلتے ہیں؟ ان کو یہ حق کس نے دیا؟ 
اور یہ میڈیا والے جو ایک معمولی سی بات کو بریکنگ نیوز بنا بنا کر ساری قوم کے اعصاب پر سوار ہو جاتے ہیں، جو اپنی مرضی کی بات کو عوام کے ذہنوں میں ڈالنے کے لئے اس قدر مؤثر مارکیٹنگ کرتے ہیں کہ ہر پاکستانی 'پاکستان آئڈل' بننے کے لئے سڑکوں پر نکل آتا ہے ، کیا انہوں نے کبھی مروت، برداشت ، رواداری اور اخوت پسندی پر کوئی پروگرام چلایا؟ کیا انہوں نے کبھی یہ سوچا کہ ان کے اوپر کس قدر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
معلوم نہیں یہ کیسے مسلمان ہیں اور ان کا اسلام کس نے بنایا ہے؟
میرا اسلام تو مجھے دوسروں کے خیالات و عقائد کا احترام کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
میرا سلام تو مجھے کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے اس کے نتیجے کو سامنے رکھنے کی ہدایت کرتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو میری زبان ، ہاتھ یا عمل سے کسی کو نقصان پہنچے۔
میرا اسلام تو امن و سلامتی کا پیغام دیتا ہے۔ لیکن یہ کیا ہے کہ ایک مبارک مہینے کا مبارک دن ، 10 محرم الحرام جس کی اہمیت سانحہ کربلا کے علاوہ  بھی اس قدر زیادہ ہے کہ ہر مسلمان کے لئے اس کا احترام لازم ہے۔ پھر جمعۃ المبارک کا دن۔ سنی ہو شیعہ کیا دونوں کو یہ یاد دلانے کی ضرورت تھی کہ اس مہینے میں قتل و غارت گری ممنوع ہے۔ اور اس ممانعت کا احترام تو اسلام سے پہلے بھی کیا جاتا تھا۔ لیکن افسوس کہ خود کو مسلمان کہنے والوں نے اسی ماہ اور اس مبارک دن کیا کیا۔  اس دن جو ہوا اس میں جتنے لوگ مارے گئے ، ان کے تو خاندان اجڑ گئے ، پھر اس کے بعد جن کی املاک کو نقصان پہنچا ، ان کے خاندانوں کے لئے بربادی کا پیغام آ گیا، اور وہ جو دو دن سے دیہاڑی نہیں لگا سکے ، ان کے خاندان بھوک کا شکار ہو جائیں گے۔  فاقے ہوں گے یا کوئی بیمار گھر میں ایڑیاں رگڑتا رہے گا۔ فرق نہ تو کسی شیخ, خان ، شریف یا چودھری کو پڑے گا ، نہ کسی مفتی و مولانا کو پڑے گا اور نہ ہی کسی میر ، بخاری، لقمان ,شیرازی اور منہاس کو پڑے گا۔ فرق پڑے گا تو عوام کو پڑے گا ۔ اس عوام کو جسے فرقوں اور مسالک کے اختلافات کی الف بے کا بھی معلوم نہیں ہوتا لیکن وہ بھیڑ چال کا شکار ہو کر ان جلسوں کا حصہ بھی بنتے ہیں اور ان تفرقے بازیوں کا ایندھن بھی۔ تو پھر بھگتیں بیٹھ کر۔ 

Friday, 4 October 2013

منافقت!!!

4 comments
Felt like re-blogging an old post:
ہم لوگ بڑے بڑے مسائل پر بات کرتے ہیں۔ ملکی حالات سے لیکر بین الاقوامی معاملات کی تجزیہ نگاری میں ہم سے زیادہ کون ماہر ہو گا۔ اور ایسا کرتے ہوئے ہم اپنی ذات اور اس کے منسلک مسائل کا جائزہ لینا بھول جاتے ہیں یا شاید ہمارے پاس اس کا وقت نہیں ہوتا۔۔
'انصاف' کا راگ الاپ الاپ کر ہمارے گلا خشک ہو جاتا ہے لیکن اس رولے میں  یہ دیکھنا بھول جاتے ہیں کہ کہیں ہماری ذات بھی تو کسی کے لئے تکلیف کا باعث نہیں بن رہی۔۔کہیں کوئی ایسا مظلوم بھی تو نہیں ہے جو ہمیں ظالم کہتا ہو۔
'احتساب' ہماری دلپسند اصطلاح  ہے ۔۔لیکن اے کاش دوسروں سے پہلے ہم اپنا محاسبہ بھی کر لیں۔۔کہ ہم نے کہاں کہاں اصولوں سے روگردانی کی۔۔کب کب ہمارے لہجے اور عمل میں رعونت در آئی۔۔
  اکثر دوسروں کی 'غلط بیانی' اور 'خود غرضی' کے تمام ثبوت ہم انگلیوں پر گن سکتے ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ  سوچیں...ہمارے اپنے اندر کس حد تک 'بے غرضی' اور 'سچائی' موجود ہے۔

کہیں کسی پر ظلم ہو رہا ہو تو ہم تڑپ اٹھتے ہیں۔۔ اوراظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے لفظوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں لیکن اس طرف خیال نہیں جاتا کہ ہم خود بھی اپنی زبان، عمل اور رویے کی وجہ سے کسی دوسرے کے لئے تکلیف کی وجہ بن رہے ہیں۔

 نجانے قول و فعل کا یہ تضاد ہماری ذات کا ناگزیر حصہ کیوں  ہے؟

Wednesday, 11 September 2013

میرے قائدِ اعظم !

4 comments
میرے محترم قائدِ اعظم۔۔۔!
آپ سے بات کرنا اس قدر دشوار سا کیوں لگ رہا ہے۔ ایسامحسوس ہوتا ہے جیسے میں آپ کے سامنے کھڑی ہوں اور آپ کے کچھ بھی نہ کہنے کے باوجود میرا سر شرمندگی کے مارے جھکتا ہی جاتا ہے۔ 
ایک وقت تھا جب میں تمام سال اور خصوصاؐ  آپ کی سالگرہ اور برسی کے موقع پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ لہک لہک کر 'یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران۔۔اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے احسان' گایا کرتی تھی اور کبھی آپ کے تحفے کو ہمیشہ سنبھالے رکھنے کے دعوے یہ کہتے ہوئے کیا کرتی تھی کہ 'اے روحِ قائد! آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں۔۔'۔ اور ایسے موقعوں پر میں یہی سمجھتی تھی کہ میرے قائد وہیں سٹیج پر تشریف فرما ہیں اور ہماری باتیں اور وعدے سن کر خوش ہو رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ان کی آنکھوں کی چمک مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ آج اتنے برسوں بعد بھی ایسا ہی لگ رہا ہے کہ آپ میرے سامنے موجود ہیں لیکن آج میں کچھ کہہ نہیں پا رہی کہ آپ کے چہرے سے چھلکتا غم اور آپ کی آنکھوں سے جھانکتی اداسی مجھے میری نااہلی اور بے حسی کا احساس دلا رہی ہے۔ میں ایک بار پھر 'اے قائدِ اعظم! تیرا احسان ہے احسان' کہنا چاہ رہی ہوں لیکن میرے اندر گونجتی ایک آواز یہ کہہ کر کہ 'اگر تم واقعی اسے احسان سمجھتیں تو آج اپنے ہی ملک میں اپنی آنکھوں کے سامنے قائد کی نشانی کو تباہ نہ ہونے دیتیں۔' بہت مشکل سے اس آواز کو نظر انداز کر کے ایک بار پھر میں 'آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں۔' کہنے لگتی ہوں تو وہی آواز ایک بار پھر ایک نئے سوال کے ساتھ میرا راستہ روک لیتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ 'پہلے ان تمام وعدوں کا حساب دو جو ہوش سنبھالنے کے بعد روحِ قائد کے ساتھ کئے تھے۔' 
اور جب میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ 'قائدِ اعظم میں کیسے آپ کو بلکہ آپ سے زیادہ خود کو یقین دلاؤں کہ میں نے وہ وعدے صدقِ دل سے کئے تھے اور ان کو نبھانے کی بھی کوشش کی ہے۔ آپ کی میراث کی حفاظت نہ ہو سکی لیکن اس کے لئے میں اکیلی کیا کرتی۔ یہ تو ان ناعاقبت پسند حکمرانوں کی کرنی ہے جس کا نتیجہ ہر طرف پھیلی بے سکونی اور تباہی ہے' توپھر وہی آواز میری بات کاٹتے ہوئے کہتی ہے ۔ 'وعدے نبھانے کے لئے 'کوشش' نہیں 'عمل' کی ضرورت ہوتی ہے ، مستقل مزاجی اور جذبوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تمہارے جذبے صرف کسی قومی دن پر ہی جاگا کرتے ہیں اور وہ بھی زبان ہلانے کی حد تک۔ تمہیں لگتا ہے کہ تم ان حالات کی ذمہ دار نہیں ہو تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ تم تو اس قائد سے محبت کی دعویدار ہو جو کہا کرتا تھا کہ قوموں کی تقدیر و تعمیر افراد کے ہاتھ میں ہے اور جب قومی ذمہ داری کی بات آتی ہے تو تم خود کو صرف ایک اکائی سمجھ کر الگ ہونا چاہتی ہو۔ یاد رکھو وہ 'قائد' بھی ایک فرد ہی تھا جس نے تاریخ کا دھارا بدل ڈالا لیکن اگر تم یہ سمجھ سکتیں تو آج قائد کے سامنے سر جھکا کر نہیں سر اٹھا کر کھڑی ہوتیں'۔

شرمندگی سے میری زبان کُھل نہیں رہی لیکن میں آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ اپنی نااہلی پر معافی مانگ کر مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے آپ کی نصیحت سننا چاہتی ہوں۔ میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود میں آپ کے تحفے کو دل و جان سے عزیز رکھتی ہوں۔ میں اپنی غلطیوں کو سدھارنا چاہتی ہوں اور مجھے یہ احساس ہو گیا ہے کہ میں اگر اپنے حصے کا دیا جلا جاؤں گی تو اس کی لَو سے ایک اور دیا ضرور روشن ہو گا۔ اور مجھے امید ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب میں آپ کے سامنے شرمندگی سے گردن جھکا کر نہیں بلکہ خوشی سے سر اٹھا کر کھڑی ہوں گی تب مجھے کوئی آواز کچھ کہنے سے نہیں روکے گی۔ 
مجھے یاد آ رہے ہیں آپ کے وہ الفاظ جو آپ نے 1936ء میں کلکتہ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہے تھے۔ 
"آپ اچانک ایک نئی دنیا تخلیق نہیں کر سکتے۔ آپ کو ایک عمل سے گزرنا ہو گا۔ آپ کو آگ کے دریا، ابتلا اور قربانیوں کی راہ سے گزرنا پڑے گا۔ مایوس نہ ہوں۔ قومیں ایک دن میں نہیں بنا کرتیں لیکن جیسا کہ ہم رواں دواں ہیں ، ہمیں ایسے قدم اٹھانے چاہئیں جو ہمیں آگے کی طرف لے جائیں۔ آپ حقائق کا مطالعہ کریں ، ان کا تجزیہ کریں اور پھر اپنے فیصلوں کی تعمیر کریں۔" 

 آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ قومیں ایک دن میں نہیں بنا کرتیں۔ ہم ایک بار پھر ایک ایسے ہی مشکل دور سے گزر رہے ہیں جن کا آپ نے اس وقت تذکرہ کیا تھا لیکن ہم مایوس نہیں ہیں۔ ہم آپ کو اور آپ سے زیادہ خود کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے حصے کا فرض اور قرض ضرور ادا کرے گا ان شاءاللہ۔ اآئندہ سے وعدے نہیں ہوں گے صرف عمل ہو گا۔

اور اب مجھے لگ رہا ہے آپ مسکرا رہے ہیں اور میرا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں بھی اپنے چھ سالہ بھتیجے کی طرح بھرپور جوش اور جذبے سے نعرہ لگاؤں۔

!قائدِاعظم۔۔۔زندہ باد
!پاکستان۔۔۔پائندہ باد 


Tuesday, 13 August 2013

اظہارِ تشکر!

6 comments
آج صبح آج ٹی وی چینل پر ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک خاتون پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور ڈرامے 'عینک والا جن' میں زکوٹا جن کا کردار ادا کرنے والے اداکار کا انٹرویو کر رہی تھیں۔ پہلا ردِعمل تو نوسٹیلجیا کا فوری حملہ تھا کیونکہ میں بھی عینک والا جن کے متاثرین میں شامل رہی ہوں۔ وہ وقت یاد آیا جب ہم سب بے چینی سے شام 5 بجے کا اتنظار کرتے تھے اور پھر اگلے آدھے گھنٹے کے لئے یہ عالم ہوتا تھا کہ سب لوگ باجماعت بغیر پلک جھپکے ٹیلی ویژن سکرین پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں اور جب ڈرامہ کسی سنسنی خیز لمحے پر پہنچ کر ختم ہوا تو 'اوہ نو' کی صدائیں بلند ہونا شروع ہو جاتی۔ پھر وقت گزرا اور جیسے ہمارا بچپن غائب ہوا ویسے ہی ڈرامہ بھی کہیں ماضی کی دھول میں گم ہو گیا۔ حالانکہ یہ ڈرامہ ایک طویل مدت چلا تھا۔
خیر یادِ ماضی جو ہر گز عذاب نہیں تھی کی آمد کے بعد اگلا احساس منا لاہوری کی باتوں سے چھلکتی مایوسی اور تلخی کا تھا۔ شاید جب آپ کو مسلسل نظر انداز کیا جائے تو انسان ایسی ہی مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور تلخی مستقل اس کے لہجے میں شامل ہو جاتی ہے۔ میں نے بہت دن پہلے منا لاہوری کی علالت اور کسمپرسی میں بسر ہونے والی زندگی کے بارے میں کہیں  دیکھا تھا اور سوچا تھا کہ اور کچھ نہیں تو میں اپنے طور پر اس کردار کا شکریہ ضرور ادا کروں گی جس نے میرے بچپن کی یادوں میں ایک اور سنہرے رنگ کا اضافہ کیا لیکن وہی بات کہ ہم وقتی طور پر جذباتی ہو جاتے ہیں اور ہھر دنیاداری کے جھنجھٹ میں الجھ کر بہت سے اہم کام بھول جاتے ہیں۔ 

آج ایک بار پھر میں اسی احساس کا شکار ہوں۔ ہم کتنی آسانی سے اپنے ہیروز  اور ان لوگوں کو جو ہماری زندگی میں کسی نہ کسی طور خوشیاں لانے کا باعث بنتے ہیں کو فراموش کر دیتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اپنی باری آنے پر ہم بھی فراموش ہو جاتے ہیں۔ میرے بچپن میں ٹیلی ویژن کے تین چینل آیا کرتے تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن ، پی ٹی وی ورلڈ اور ایس ٹی این۔ اور پاکستان ٹیلی ویژن کا کردار ان میں سب سے اہم تھا کیونکہ اس نے بڑوں ، چھوٹوں، طلباء ، کسانوں،نوجوانوں، خواتین غرضیکہ ہر فرد کے لئے پروگرام بنائے اور انتہائی تعمیری پروگرام بنائے جن میں مقصدیت بھی تھی اور تفریح بھی۔ جو لوگ اس دور میں بڑے ہوئے ہیں وہ شاید میری اس بات سے اتفاق کریں کہ ہماری تربیت میں ایک بڑا حصہ پی ٹی وی کا بھی ہے چاہے وہ اقرا کی صورت میں درسِ قرآن ہو یا کوئز شوز کی صورت میں معلوماتِ عامہ یا دیس دیس کی کہانیوں کے ذریعے دیگر دنیا کے بارے میں جاننا۔ اخلاقی اقدار کا سبق ہو یا سائنسی معلومات، پی ٹی وی نے میری ہوم سکولنگ کی اور میں اس کے لئے خود کو موجودہ دور کے بچوں کی نسبت بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں جن کے لئے ٹیلی ویژن مثبت کے بجائے منفی تربیت لا رہا ہے اور حالت اب یہ ہے کہ آپ ایک تین سالہ بچے کے ساتھ بیٹھ کر بھی ٹی وی دیکھ رہے ہوں تو بھی آپ کا ہاتھ ریموٹ پر ہوتا ہے کہ نجانے کس وقت شرمندگی سے بچنے کے لئے چینل تبدیل کرنا پڑ جائے اور یہ اور بات ہے کہ جو اگلا چینل آئے اس پر اس سے بھی زیادہ شرمندہ کرنے والی چیز چل رہی ہو۔ 

ہمارے ٹی وی پر 125 چینل آتے ہیں۔ اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ 125 تو کیا 25 منٹ بھی مسلسل ٹی وی دیکھنا محال ہو جاتا ہے۔ جس چیز کا مقصد تفریح اور معلومات تھا وہ صرف پریشانی، ٹینشن اور اخلاقی بگاڑ کا باعث بن رہی ہے۔ خیر اس وقت میں نے اس پر تو بات نہیں کرنی۔ مجھے تمام نیوز چینلز سے یہ گلہ ہے کہ ان کو کشور کمار کی برسی تو دھوم دھام سے منانی یاد رہ جاتی ہے، اور انہیں غیر ملکی اداکاروں کی سالگرہ کی تاریخیں تو یاد رہتی ہیں ، لیکن اپنے لوگوں سے بے خبری کا یہ عالم ہے کہ جو خاتون منا لاہوری کا انٹرویو کر رہی تھیں، انہیں یہ تک نہیں معلوم تھا کہ جس ڈرامے کے بارے میں وہ پروگرام کر رہی ہیں اس کے مرکزی کردار کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اور جب انہیں معلوم ہوا تو ان کی حیرت کا ٹھکانا نہیں تھا۔ 

منا لاہوری نے ان کے سوال کے جواب میں کافی تلخ لہجے میں کہا کہ اگر آپ اس ڈرامے کی اتنی بات کر رہی ہیں تو کیا بڑے چینلز بچوں کے لئے ڈرامے نہیں بنا سکتے؟ جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ اداکار جو اپنے دورِ عروج میں ٹی وی، سٹیج اور دیگر تقریبات میں مدعو کیا جاتا تھا اب اسے کوئی چینل کام دینے کو تیار نہیں ہے۔ لیکن سب اس کی کسمپرسی اور مالی حالت پر پروگرامز کرنے کو آگے آگے ہیں۔ بقول منا لاہوری کے اب کبھی کبھار انہیں کسی سکول میں بچوں کے لئے شو کرنے کے لئے بلا لیا جاتا ہے لیکن وہ بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ 

کل 14 اگست ہے۔ پاکستان کا یومِ آزادی۔ پاکستان جس سے محبت میرے خمیر میں شامل ہے۔ پاکستان جو میرا پہلا اور آخری حوالہ ہے۔ جہاں سب میرے اپنے ہیں اور جس نے مجھے پہچان دی ہے۔ میں نے سوچا ہے کہ اس بار میں یومِ آزادی اس طرح مناؤں گی کہ ان سب کا شکریہ ادا کروں جنہوں نے اس ملک میں رہتے ہوئے مجھے اور مجھ جیسے بہت سوں کے لئے بہت کچھ کیا۔ ان ہیروز کا شکریہ ادا کروں گی جو میرے وطن کی شان ہیں۔ 
میرا پہلا شکریہ منا لاہوری اور ان سب فنکاروں کے لئے جو کسی بھی صورت لوگوں کو خوش کرنے کا باعث بنے، جنہوں نے اپنے کام کے ذریعے مثبت اور اچھی اقدار کا پیغام پھیلایا اور جو ایک جفاکش مزدور کی طرح محنت کر کے کاروبارِ زندگی چلا رہے ہیں۔ 

آج صبح گھر سے نکلتے ہی مجھے شدید بارش نے آن گھیرا۔ موسلا دھار بارش اور دریا کی صورت بہتی سڑکوں سے گزرتے ہوئے میں مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن وہ پولیس اور فوج کے جوان ضرور نظر آ رہے تھے جو صبح سے شام گرمی، سردی، طوفان، بارش ہر موسم میں بھاری بھرکم وردیاں پہنے موسم کی شدت سے بے نیاز اپنی جگہوں پر جمے رہتے ہیں اور ہم ان کو ویسے ہی دیکھتے ہیں جیسے سڑک کے کنارے نصب کھمبوں یا چوک میں لگی ٹریفک کی بتیوں کو جن کا اپنی جگہ پر موجود ہونا یقینی ہوتا ہے۔ ہم نے یا شاید میں نے کبھی رک کر ان کا شکریہ ادا کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اگر کبھی سگنل بند کر کے ٹریفک ڈائیورٹ کی جا رہی ہو یا غلط جگہ پر گاڑی روکنے پر کوئی مجھے کچھ بتانے کی کوشش کرے تو میں اس پر گویا احسانِ عظیم کرتے ہوئے اس کی ہدایت پر عمل کرتی ہوں۔میرا دوسرا شکریہ ان محفاظوں کے لئے جو تپتے دنوں ، سرد ہواؤں اور برستی بارشوں میں بھی سڑک کنارے کھڑے رہتے ہیں، میری حفاظت اور سہولت کے لئے۔  

اور سب سے آخر میں وہ واقعہ جس نے مجھے کتنے دنوں سے پریشان کر رکھا ہے۔ عید سے کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ہم لوگ جوتے خریدنے کے لئے ایک دوکان میں گئے۔ عید کے نزدیک ہونے کی وجہ سے کافی لوگ خریداری کی مہم پر نکلے نظر آ رہے تھے جس کی وجہ سے سیلزمین بھی کافی مصروف تھے اسی لئے ہمارا مطلوبہ جوتا آنے میں کافی وقت لگ گیا۔ اس دوران سب سے دلچسپ مشغلہ اردگرد لوگوں کو دیکھنا ہوتا ہے سو میں بھی یہی کام کر رہی تھی۔  ایک صاحب جن کے ساتھ ان کے تین بچے تھے ، اپنے بچوں کے لئے جوتے دیکھ رہے تھے۔ پہلے تو میں بچوں کا اشتیاق دیکھ  رہی تھی لیکن جس بات نے میری توجہ کھینچی وہ یہ کہ جب ان کے بچے کوئی جوتا اٹھا کر اپنے والد کو دکھاتے تو وہ کافی دیر اس جوتے کو دیکھتے رہتے، پھر واپس رکھ دیتے۔ کافی دیر کے بعد انہوں نے ایک سیلزمین سے جوتے کی قیمت پوچھی جو اس نے جوتے سے ہی دیکھ کر بتا دی۔ اور ان کے کہنے پر کہ اس کی قیمت تو کم نہیں تھی، سیلز مین نے کہا کہ جی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ خیر انہوں نے پھر جوتا رکھ دیا۔ اتنی دیر میں ہم اپنی چیزیں لیکر کاؤنٹر پر بل بنوانے چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ صاحب وہی جوتا اٹھائے ہوئے کاؤنٹر پر آئے اور دوکان کے مینیجر صاحب سے قیمت پوچھی۔ مینیجر نے جواب میں 430 روپے کہا۔ تو ان صاحب نے کہا کہ جوتے پر قیمت تو 399 روپے درج ہے۔ 430 روپے کی پرچی تو بعد میں لگی ہے حالانکہ آپ کے سٹور پر تو قیمت فکسڈ ہوتی ہے۔ جس ہر مینجر نے کہا کہ نہیں اب آپ کو نئی قیمت ہی دینی پڑے گی۔ پرانی قیمت پچھلے ہفتے تک تھی۔ وہ صاحب واپس پلٹ گئے۔ ہمارے استسفارپر کہ ایسا کیوں ہے، بتایا گیا کہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی وجہ سے قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ خیر ۔۔یہاں تک تو مجھے صرف اچانک قیمتیں بڑھنے اور وہ بھی عید سے کچھ دن پہلے پر اعتراض تھا۔ لیکن اصل جھٹکا تو مجھے اس وقت لگا جب باہر نکلتے ہوئے میں نے ان صاحب بچوں کا ہاتھ پکڑے خالی ہاتھ دوکان سے باہر آتے دیکھا۔ اور اس وقت مجھے احساس ہوا کہ شاید اپنے بچے کو 430 روپے کا جوتا خرید کر دینا بھی ان صاحب کے لئے ناممکن تھا۔ میرے اتنا سوچنے تک وہ صاحب کہیں بھیڑ میں گم ہو چکے تھے۔ نہ بھی ہوتے تو میں کیا کرتی۔ کیونکہ اپنے حلیے سے وہ ایسے نہیں لگ رہے تھے کہ ہم جا کر ان کے بچے کو جوتا تحفتاؐ خریدنے کی پیشکش کرتے تو وہ لے لیتے۔ میں ان کی جگہ ہوتی تو میں بھی کبھی کسی سے کچھ نہ لیتی۔ لیکن اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ہمیں خود سے نیچے والے کو دیکھنے کا کیوں کہا گیا ہے؟ تاکہ ہم رحمت ، شکر، صبر اور قناعت کا صحیح مطلب سمجھ سکیں۔ میرا تیسرا شکریہ اس اجنبی خاندان کے لئے جنہوں نے مالی تنگی پر واویلا مچانے کے بجائے اپنی پسندیدہ چیز نہ ملنے پر بھی چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھی۔ اور مجھے ایک ایسا سبق سکھایا جو کتابیں مجھے نہیں سکھا سکیں۔ میں ناشکری نہیں ہوں۔ الحمد اللہ میری خواہشات لامحدود نہیں ہیں۔ لیکن میں شاید اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے میں ڈنڈی مار جاتی ہوں اور شکر ادا نہ کرنا بھی تو ناشکری میں ہی آتا ہے۔ اور یہ احساس بھی مجھے اس چھوٹے سے خاندان نے دلایا جس کے بچے بھی اپنی خواہش پوری نہ ہونے پر اداس یا پریشان نہیں تھے بلکہ ان کے چہروں پر اس وقت بھی صرف معصومیت بھری مسکراہٹ تھی۔


Wednesday, 24 July 2013

اَج دا دن!

0 comments
سورج چڑھیا پچ تُوں تے پُورب آن کھلویا
اَج دا دن وی ایویں لنگیا، کوئی وی کم نہ ہویا

۔۔۔منیر نیازی

Friday, 18 January 2013

سرگم ٹائم!

2 comments
رولا: سر جی دھرنے کے انتظامات پر حکومت کے اخراجات کون پورے کرے گا؟

 انکل سرگم: ظاہر ہے میں ، تم یعنی ہم عوام۔

رولا: وہ کیسے سر جی؟

انکل سرگم: وہ تمھیں تب پتہ چلے گا جب بجلی اور گیس کا بِل 'ایڈیشنل سرچارج' کے ساتھ ملے گا۔

رولا: لیکن سر جی ہمارا کیا قصور ہے؟ ہم تو نہ میزبان تھے اور نہ مہمان؟

انکل سرگم: ارے نادان۔ تمھارا قصور یہ ہے کہ تم عوام ہو۔ اور تمھارے لئے تمھارے لیڈر اور حکومت نے اتنی تکلیفیں سہیں۔ 

رولا: پر سر جی۔ تبدیلی بھی تو آنی تھی۔ وہ کہاں ہے؟

انکل سرگم: رہے ناں چھوٹے پانڈے ، کوارٹر پلیٹ۔۔ مہنگائی میں مزید اضافہ کیا تبدیلی نہیں ہے۔ تمھیں اس سے بڑی 'تبدیلی' کیا

 !!چاہئے ؟ میرے بھولے رولے

Sunday, 4 September 2011

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئےمحمود و ایاز

4 comments
سب کو بہت بہت عید مبارک۔ میری عید آج ختم ہو رہی ہے کیونکہ آج آخری چھٹی تھی۔ کل سے پھر واپس کام کام اور کام :( ۔۔۔ بلاگ سے بہت دنوں سے رابطہ ٹوٹا ہوا ہے۔ حالانکہ اتنا کچھ ہے بولنے اور لکھنے کو۔ لیکن اس وقت تو اپنے انکل گیلانی کی شان میں کچھ کہنا ہے۔ شاہد ہمارے حمکرانوں کے نصیب میں عوام کی بدعائیں اور آہیں سننا ہی رہ گیا ہے اور یہ ان کا من پسند مشغلہ بھی ہے۔ تبھی تو وقتاً فوقتاً وہ عوام کو اس کا موقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔ جیسے کہ محترم وزیرِ اعظم صاحب نے کیا۔ سوچا ہو گا عوام بور نہ ہو گئے ہوں۔ تو چلو کچھ کرتے ہیں۔ نکل پڑے جمعتہ الوداع کی نماز ادا کرنے۔ اب پبلک کو یہ بھی بتانا مقصود تھا کہ دیکھو ہم بھی نماز پڑھنے جا رہے ہیں سو اپنے راستے پر ہٹو بچو کا نعرہ لگانے والوں کو مقرر کر دیا۔ پھر وزیرِ اعظم 'لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا' کے مصداق موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے جھرمٹ میں جانبِ مسجد روانہ ہوئے۔لوگ ذیرو پوائینٹ سے فیصل مسجد تک پیدل چلتے پہنچے تو معلوم ہوا کہ اندر جانے اور نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ انکل گیلانی اینڈ کو مسجد میں جلوہ افروز ہیں۔ اس دوران باقی سب عوام کی جمعے کی نماز مس کو گئی تو کیا ہوا۔ عوام کی زندگیوں سے پہلے بھی تو بہت کچھ مس ہے۔ ان کو کون سا کوئی فرق پڑتا ہے۔ ویسے بھی ہر اچھے موقعے سے فائدہ اٹھانے کا پہلا حق حکمرانوں کو ہوتا ہے تو جمعتہ الوداع کی نماز کا ثواب وہ بھی فیصل مسجد میں بھی تو صرف انہی کو حاصل کرنا ہے۔

اب اس انتہائی 'خاص' طبقے سے ذرا کم لیکن عوام سے خاص طبقے کی ایک اور آنکھوں دیکھی مثال۔ ہفتہ 28 اگست ، 26 رمضان کی بات ہے۔ راولپنڈی سے جی ٹی روڈ کی طرف سفر کرتے ہوئے مندرہ ٹول پلازہ کے پاس پہنچے تو لین میں آگے تین گاڑیاں تھیں۔ جن میں سے سب سے اگلی گاڑی کی نمبر پلیٹ پر سبز رنگ سے ایم این اے لکھا ہوا تھا۔ جب کافی دیر وہ گاڑی ٹول ٹیکس کیبن سے آگے نہیں چلی تو سب کو تشویش ہوئی۔ معلوم ہوا کہ گاڑی والے موصوف اس بنا پر ٹول ٹیکس دینے سے انکاری تھے کہ وہ کسی ایم این اے کے رشتہ دار ہیں۔ ۔ ٹول ٹیکس جمع کرنے والا بھی بضد تھا کہ ٹیکس ادا کرو ورنہ کھڑے رہو اور پچھلی گاڑیاب بھی کھڑی رہیں گی۔ جب اس سارے جھگڑے میں کافی وقت گزر گیا تو اس گاڑی سے پیچھے والی گاڑی سے ایک صاحب اترے اور انہوں نے ان حضرت کے 20 روپے ادا کر دیئے۔ یوں راستہ کُھلا اور ان محترم نے بغیر شرمندہ ہوئے گاڑی سٹارٹ کی۔ پیپسی کا کین (رمضان میں( باہر اُچھالا اور یہ جا وہ جا۔

تیسری مثال خود اپنے لوگوں یعنی عام عوام کی۔ مارکیٹ سے گزرتے ہوئے پھلوں کے سٹال پر چیریز دیکھ کر منہ میں پانی بھر آیا۔ مجھے پاکستان میں گروسری کا اتنا تجربہ نہیں ہے۔ اس لئے انکل سے پوچھا کہ کیا وہ اس میں سے آدھی دیں گے۔ انکل موصوف نے اپنے نماز والی ٹوپی سیدھی کرتے ہوئے کہا۔ نہیں بیٹا۔ یہ تو پورا ڈبہ ہی بیچتے ہیں۔ بالکل تازہ ہیں اور ڈھائی سو میں ہے۔ مجبوراً لے لیا۔ واپس پہنچ کر جب چیریز دھونے کے لئے ڈبے سے نکالیں تو اوپر والی تہہ تو تازہ تھی۔ نچلی ساری تہیں گلی ہوئی تھیں۔ افسوس ہوا لیکن حیرانگی نہیں کیونکہ تھوڑا بہت دھوکہ کرنا ہم لوگوں کی قومی عادت بن چکا ہے۔ ہم سب اپنے اپنے لیول پر بے ایمانی کرنے کے عادی ہو چکے ہیں چاپے عوام ہوں یا خواص۔

Monday, 30 May 2011

میں بھی دیکھوں گی!

10 comments
خبروں میں دیکھنا اور سُننا اصل صورتحال کا حصہ ہونے سے بہت مختلف ہے۔ پچھلے ایک ہفتے میں ایسی ہی کیفیت سے بارہا سامنا ہوا۔ سفر کا آغاز خدشوں اور خوف سے ہُوا لیکن اختتام دل میں امیدوں کے نئے چراغ جلا گیا۔ ہنگو ٹل روڈ پر ہونے والے دھماکے سے کچھ پہلے ہم لوگوں کا گزر بھی وہیں سے ہوا تھا۔ لیکن ابھی زندگی باقی تھی تو بخیریت واپسی ہو گئی۔ راولپنڈی سے ٹل، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان اور کوہاٹ کے سفر کے دوران سب سے زیادہ سٹرنگز کے اس دل چُھو لینے والی ویڈیو نے بہت ساتھ دیا۔ امید تو ہے کہ میں بھی دیکھوں گی جب ایسا ہو گا پاکستان :pray انشاءاللہ

Just lovin' this video :clap



آڈیو:


میں تو دیکھوں گا
میں تو دیکھوں گا
تم بھی دیکھو گے
تم بھی دیکھو گے
میں تو دیکھو گے
تم بھی دیکھو گے
جب روٹی سستی ہو گی
اور مہنگی ہو گی جان
وہ دن بھی آئے گا
جب ایسا ہو گا پاکستان
میں تو دیکھوں گا
میں تو دیکھوں گا
تم بھی دیکھو گے
تم بھی دیکھو گے

جب رنگ برنگے جھنڈے
ایک پرچم میں گُھل جائیں گے
اور اِدھر اُدھر کو جاتے رستے
اک موڑ پہ مل جائیں گے
جب بچے ملک پہ راج کریں
اور سکول میں بیٹھے ہوں سیاستدان
وہ دن بھی آئے گا
جب ایسا ہو گا پاکستان
میں تو دیکھوں گا
میں تو دیکھوں گا
تم بھی دیکھو گے
تم بھی دیکھو گے

جب ملک کو بیچ کے کھانے والے
خود ہضم ہو جائیں گے
اور پشتوں سے جو گدی بیٹھے
سب بھیڑ میں مل جائیں گے
جو دُور گئے تھے بُھولے سے
لوٹیں گے پھر وطن کو ایک شام
وہ دن بھی آئے گا
جب ایسا ہو گا پاکستان
میں تو دیکھوں گا
میں تو دیکھوں گا
تم بھی دیکھو گے
تم بھی دیکھو گے

جب روٹی سستی ہو گی
اور مہنگی ہو گی جان
وہ دن بھی آئے گا
جب ایسا ہو گا پاکستان
میں تو دیکھوں گا
میں تو دیکھوں گا
تم بھی دیکھو گے
تم بھی دیکھو گے

کلام: بلال مقصود
آواز: فیصل کپاڈیہ
موسیقی: سٹرنگز