ہم لوگ بڑے بڑے مسائل پر بات کرتے ہیں۔ ملکی حالات سے لیکر بین الاقوامی معاملات کی تجزیہ نگاری میں ہم سے زیادہ کون ماہر ہو گا۔ اور ایسا کرتے ہوئے ہم اپنی ذات اور اس کے منسلک مسائل کا جائزہ لینا بھول جاتے ہیں یا شاید ہمارے پاس اس کا وقت نہیں ہوتا۔۔
'انصاف' کا راگ الاپ الاپ کر ہمارے گلا خشک ہو جاتا ہے لیکن اس رولے میں یہ دیکھنا بھول جاتے ہیں کہ کہیں ہماری ذات بھی تو کسی کے لئے تکلیف کا باعث نہیں بن رہی۔۔کہیں کوئی ایسا مظلوم بھی تو نہیں ہے جو ہمیں ظالم کہتا ہو۔
'احتساب' ہماری دلپسند اصطلاح ہے ۔۔لیکن اے کاش دوسروں سے پہلے ہم اپنا محاسبہ بھی کر لیں۔۔کہ ہم نے کہاں کہاں اصولوں سے روگردانی کی۔۔کب کب ہمارے لہجے اور عمل میں رعونت در آئی۔۔
بھی دوسروں کی 'غلط بیانی' اور 'خود غرضی' کے تمام ثبوت ہم انگلیوں پر گن سکتے ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ سوچیں...ہمارے اپنے اندر کس حد تک 'بے غرضی' اور 'سچائی' موجود ہے۔
کہیں کسی پر ظلم ہو رہا ہو تو ہم تڑپ اٹھتے ہیں۔۔ اوراظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے لفظوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں لیکن اس طرف خیال نہیں جاتا کہ ہم خود بھی اپنی زبان، عمل اور رویے کی وجہ سے کسی دوسرے کے لئے تکلیف کی وجہ بن رہے ہیں۔
نجانے قول و فعل کا یہ تضاد ہماری ذات کا ناگزیر حصہ کیوں ہے؟
ہر شخص بنا لیتا ہے اخلاق کا معیار
اپنے لئے کچھ اور، زمانے کے لئے اور
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔