اے ارضِ وطن!
(1)
چوبیس برس کی فردِ عمل، ہر دل زخمی ہر گھر مقتل
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم
قیدی شیرو، زخمی بیٹو!
دُکھیا ماؤں! اُجڑی بہنو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، ہم تُم سے بہت شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم
(2)
ہم حرص و ہوا کے سوداگر، بیچیں کھالیں انسانوں کی
بُجھتے رہے روزن آنکھوں کے، بڑھتی رہی ضو ایوانوں کی
جلتی راہو! اُٹھتی آہو!
گھائل گیتو! بِسمل نغمو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم
(3)
افکار کو ہم نیلام کریں، اقدار کا ہم بیوپار کریں
اِن اپنے منافق ہاتھوں سے خود اپنا گریباں تار کریں
ٹُوٹے خوابو! کُچلے جذبو!
روندی قدرو! مَسلی کلیو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم
(4)
ہم نادیدے ناشُکروں نے ہر نعمت کا کُفران کیا
ایک آدھ سُنہری چھت کے لئے، کُل بستی کو ویران کیا
سُونی گلیو! خُونی رستو!
بچھڑے یارو! ڈُوبے تارو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم
(5)
بیواؤں کے سر کی نم چادر، خوش وقتوں کی بانات ہُوئی
جو تارا چمکا ڈُوب گیا، جو شمع جلائی رات ہُوئی
ہنستے اشکو! جمتی یادو!
دُھندلی صبحو! کالی راتو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم
(6)
کُچھ اور چمک اے آتشِ جاں، کُچھ اور ٹپک اے دل کے لہُو
کُچھ اور فزوں اے سوزِ دروں، کُچھ اور تپاں اے ذوقِ نمو
بچھڑے یارو! ڈُوبے تارو!
دُکھیا ماؤں! اُجڑی بہنو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم
کلام: ضمیر جعفری
19 دسمبر 1971ء
(قلعہ سوبھا سنگھ)
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم
04 اکتوبر 2010ء
اچھی نظم ہے، شئٕر کرنے کا شکریہ
اچھی شاعری ہے
شکریہ
دردناک اور دل سے لکھی جانے والی نظم ہے
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم
بہت اچھی نظم ہے اور آپ نے بالکل ٹھیک کہا کہ اب یہ تریسٹھ برس کی فردِ عمل ہے اور ہم لوگ اب بھی اپنی روش پر قائم ہیں۔