کُچھ اور چمک اے آتشِ جاں، کُچھ اور ٹپک اے دل کے لہُو
کُچھ اور فزوں اے سوزِ دروں، کُچھ اور تپاں اے ذوقِ نمو
بچھڑے یارو! ڈُوبے تارو!
دُکھیا ماؤں! اُجڑی بہنو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم
کلام: ضمیر جعفری
19 دسمبر 1971ء
کُچھ اور فزوں اے سوزِ دروں، کُچھ اور تپاں اے ذوقِ نمو
بچھڑے یارو! ڈُوبے تارو!
دُکھیا ماؤں! اُجڑی بہنو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم
کلام: ضمیر جعفری
19 دسمبر 1971ء
بہت ہی خوب ۔۔۔۔
یہ کس کا کلام ہے؟
http://dareeecha.blogspot.com/2010/10/blog-post.html
احمد یہ سید ضمیر جعفری کا کلام ہے۔ میں نے پہلے بھی اپنے بلاگ پر پوسٹ کیا تھا۔