الحمد
اللہ۔ آج پاکستان کا 68 واں یومِ آزادی ہے۔ مشکلات ، مصائب، پریشانیوں اور
ناکامیوں کے باوجود یہ ملک اور اس کے باسی اپنے وجود کو برقرار بھی رکھ
پائے ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اوران شاءاللہ ایک
وقت آئے گا جب ہم بھی مثبت ترقی میں بہتوں سے آگے ہوں گے۔
ہر سال جب اگست کا مہینہ شروع ہوتا ہے، مجھے وہ دن شدت سے یاد آتے ہیں جب اگست کے شروع میں ابو سب بچوں کے لیے پاکستان کے بیج ، ٹوپیاں اور جھنڈیاں لایا کرتے تھے۔ ہم گھروں اور سکولوں کو جھنڈیوں سے سجاتے تھے۔ ہر گھر پر پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا ہوتا تھا۔ ٹیلی ویژن پر 14 اگست- 13 دن بعد، 12 دن بعد والا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو جاتا تھا اور ہم اپنے اپنے گھروں پر لگی جھنڈیاں شمار کرتے اور 14 اگست کو صبح صبح سکول کو روانگی ہوتی تھی جہاں قومی ترانے کے بعد نظموں ، ملی نغموں اور تقریریں دل و جاں میں ایک نئی روح پھونکتے تھے۔ گھر واپس آ کر پورے خاندان کے ساتھ ٹی وی پر مارچ پاسٹ دیکھنا اور پھر سارا دن ایسے گزارنا جیسے عید کا سماں ہو۔ اپنے ملک سے محبت اور اس کی اہمیت کا احساس شاید انہی دنوں میں میرے اندر پختہ ہوئے تھے اور میں جہاں بھی گئی ، جہاں بھی رہی یہ محبت میرے ساتھ رہی اور بالآخر مجھے واپس اپنے پاس کھینچ لائی۔
مجھے اب بھی اگست کا مہینہ اسی کیفیت میں لے جاتا ہے۔ اب بھی سڑکوں سے گزرتے جب میں چھوٹے بڑے جھنڈوں سے سجے گھر و عمارتیں دیکھتی ہوں، رستوں کو روشیوں سے جگمگاتا دیکھتی ہوں تو میرا دل ویسے ہی بچپن کی طرح پورے جوش سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے کو چاہتاہے۔ اس خواہش کو میں کسی نہ کسی طریقے سے اب بھی پوراکر لیتی ہوں۔
گزشتہ چند برسوں سے 14اگست کے موقع پر پاکستانی اپنے ملک میں جاری دہشت گردی ، سیاسی و لسانی جھگڑوں اور روزمرہ زندگی کی مشکلات سے پریشانی کے باجود اس دن کو امیدوں ، امنگوں و دعاؤں سے بھرپور دن کے طور پر مناتے رہے ہیں لیکن اس سال یہ مہینہ اور یہ دن شدید پریشانی میں گزر رہا ہے۔ بزعمِ خود قوم کے نجات دہندوں، جن کے ساتھ بھیڑوں کا غول چل پڑے ہیں، نے اس مہینے اور دن کو ایسا بنا دیا ہے جس کے ساتھ عوام کے لیے تکلیف دہ یادیں جڑی رہیں گی۔ جہاں ہر طرف صرف سبز ہلالی پاکستانی جھنڈا نظر آنا چاہیے تھا، آج وہاں رنگا رنگ گروہوں کے جھنڈے دیکھنے کو ملیں گے۔ جس مہینے میں صرف'پاکستان زندہ باد' کا نعرہ سننے کو ملنا چاہیے تھا ، نام نہاد انقلابیوں کے نعرے بج رہے ہیں۔ جہاں لوگوں کو باہر نکل کر یومِ آزادی کی خوشیاں منانی چاہییں تھیں وہاں 'پائیڈ پائیپرز' کے باجوں پر آنکھیں، کان اور دماغ بند کیے ہجوم اپنی اور دوسروں کی زندگی مشکل کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔
کاش کوئی ان 'قائدِ اعظم' بننے کے شوقین رہنماؤں سے پوچھے کہ کیا انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی سوچا کہ وہ پاکستانیوں کی ایک واحد مشترکہ خوشی کو کس طرح برباد کرنے جا رہے ہیں۔ کیا انقلاب 14 اگست سے پہلے یا بعد میں نہیں لایا جا سکتا تھا۔ اور کیا وہ ایک قومی دن کو ایک گروہی سیاست کی یادگار نہیں بنا رہے؟
لیکن پوچھے کون؟ ہم جو صرف یہ کر سکتے ہیں کہ جو آواز اونچی کر کے دھمکی آمیز لہجے میں بولنا شروع کرے اسے نجات دہندہ مان کر ایک اونچے سنگھاسن پر بٹھا کر پوجنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر وہ ہماری آنکھوں پر کولہو کے بیل کی سی عینک چڑھا کر اپنے گرد پھیرے لگانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
اللہ میرے ملک کو اور میرے لوگوں کو ایسے عاقبت نااندیش رہنماؤں و حکمرانوں سے بچائیں اور اپنا دماغ اور آنکھیں کُھلی رکھنے کی ہدایت عطا فرمائیں۔ آمین
جیوے پاکستان۔
پاکستان زندہ باد!
آپ سب کو پاک کا یوم آذادی مبارک ہو
کاش ۔ اِن غلط طریقوں سے نام پیدا کرنے والے لیڈرون کو اپنے نام کی بجائے اس مُلک سے مُحبت ہو جائے ۔ ان دونوں کا حال یہ ہے کہ بار بار جھوٹ بولتے ہیں
دیکھئے جو وقت دکھلاتا ہے
نه وقت نه حکمران نه میری سرزمین پاک اگر زمه دار هیں تو بحیثیت قوم هم خود عرض پاک تو رهنے کے لیے بنی اور رهے گی ضرورت هے تو قوم کو اپنی اصلاح کی اور ایسا تبھی ممکن جب هر پاکستانی انفرادی طور په اپنی اصلاح کرے باقی رهے حکمران اور لیڈر تو وه هماری وجه سے هی هیں یه طاقت اور جگه انهیں دینے والے هم خود هیں
خوبصورت تحریر۔۔۔۔ کبھی تو قحط الرجال کا دور جائے گا۔۔۔۔ کبھی تو سورج طلوع ہوگا۔