پاکستان میں معیارِ تعلیم کی تنزلی کا رونا کوئی نئی بات نہیں۔ آج صبح بھی میں نے یہ خبر پڑھی کہ یونیسکو نے پاکستان کو معیاری تعلیم کے لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں 120 ممالک میں 113واں نمبر دیا ہے۔ اس خبر میں اگر کچھ مثبت ڈھونڈنا ہو تو وہ یہ ہے کہ ابھی بھی ہم سات ممالک سے بہتر تعلیم دے رہے ہیں :)۔
باقی رہی پریشانی کی بات تو گھوسٹ سکولوں ، جوابدہی کی روایت کا ناپید ہونے، ہر کسی کو سکول کھولنے کی اجازت دینے اور روایتی سرکاری انداز میں کام کرنے جیسے عناصر اس پریشانی کی وجہ ہیں۔ جس پر بہت بحث اور بات ہوتی رہتی ہے لیکن چونکہ ہم گفتار کے غازی ہیں تو یہ سب کچھ مباحثوں تک ہی محدود رہتا ہے۔
آج کی پوسٹ ہمارے ماشاءاللہ اساتذہ کرام کے بارے میں ہے۔ جب اس شعبے کو اپنانے کا معیار یہ رہ جائے کہ جو کسی اور شعبہ میں کامیاب نہ ہو سکے ، وہ استاد بن جاتا ہے تو معیار کی بات کیسے کی جائے گئ۔ ویک اینڈ کی بات ہے کہ میں اپنے بھتیجے کو جو شہر بلکہ ملک کے ایک بہترین سمجھے جانے والے سکول سسٹم میں زیرِ تعلیم ہیں ، کو کلاس ٹیسٹ کی تیاری کروا رہی تھی۔ اردو کی کاپی اور کتاب کھول کر ہر صفحے پر مجھے اتنے دھچکے لگے جیسے شہر کی نئی تعمیرشدہ ٹوٹی ہوئی سڑک پر سفر کرتے لگا کرتے ہیں۔ صرف ایک دو مثالیں لکھوں گی۔
سوال: حضرت محمد (ص) کا روضہ مبارک کس ملک میں واقع ہے؟
جواب: آپ (ص) کا روضہ مبارک 'مدینہ منورہ' میں واقع ہے۔
یہ سوال جواب اردو کی استاد نے خود لکھوائے ہیں۔
تخلیقی لکھائی:
میرا دوست
علی میرا دوست ہے۔
یہ میرا ہم جماعت ہے۔
یہ بہت اچھا لڑکا ہے۔
یہ لاہور میں رہتا ہے۔
بندہ پوچھے کہ لکھنے والا بچہ تو اسلام آباد میں پڑھ رہا ہے۔ اور اس کا ہم جماعت دوست لاہور میں رہ رہا ہے۔ یا تو کوئی جادو ہے یا پھر کہیں سکائپ کے ذریعے تو پڑھایا نہیں جاتا۔
پھر یہ کہ تخلیقی لکھائی تو بچے کی اپنی کاوش ہوتی ہے۔ ٹیچر خود کیسے لکھوا رہی ہیں اور جب لکھوا رہی ہیں تو کم از کم یہ تو دیکھ لیں کہ کیا لکھوا رہی ہیں۔
یہ تو دو مثالیں ہیں۔ مزید بھی ایسے ایسے شگوفے تھے کہ ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
مزید اتفاق یہ ہوا کہ اگلے ہی دن مجھے ایک آفیسر کی ایک سکول وزٹ کی رپورٹ پڑھنے کو ملی۔ جنہوں نے بچوں کے سپوکن انگلش کمیونیکیشن سکلز پر تبصرہ کچھ ایسا لکھا تھا کہ انہیں ایک جماعت میں بچے اردو پڑھتے ملے۔ انہوں نے جب ایک بچے سے ہوچھا کہ اس سبق میں کیا ہے تو بچے نے پورے سبق کا خلاصہ 'انگریزی' میں بتایا۔ (جو کہ ان آفیسر کے خیال میں بہت خوشی کی بات تھی)۔ سو انہوں نے نہ صرف وہاں اس بچے کو شاباش دی بلکہ واپس آنے کے بعد اس بچے کو اس کی اچھی انگریزی پر بطور انعام ایک عدد کتاب بھی بھیجی۔
یہ کسی ایک استاد یا ایک ماہرِ تعلیم یا افسرِ تعلیم کی بات نہیں ہے۔ یہ ایک پورے شعبے کی نمائندگی ہو رہی ہے۔ ہمارے اساتذہ اور سکول صرف تعلیم کو ذریعہ آمدن سمجھ رہے ہیں۔ جب تعلیم کاروبار بن جائے تو پھر معیار گرنے کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اور یہی ہمارا ا المیہ ہے۔
متفق
یہ "برینڈز" ہماری نئی نسل کا زیادہ بیڑا غرق کر رہے ہیں۔
بی بی ۔ اپنے بھائی صاحب سے درخواست کیجئے کہ اپنے بچے کو اسلام آباد کے کسی سرکاری سکول بنام فیڈرل گورنمنٹ یا اسلام آباد ماڈل سکول میں داخل کروا دیں تاکہ بچہ کچھ عِلم حاصل کر سکے ۔ اور اس طرح جو پیسے بچیں وہ گے وہ کسی غریب بچے کی تعلیم پر خرچ کر کے جنت کمائیں
یہ واقعی ایک مسئلہ ہے ۔ جونہی یہ پودے بڑے ہوں گے ان کے اثرات مزید واضح ہونا شروع ہو جائیں گے۔
ہمارے معاشرے میں استاد کون بنتا ہے؟ آپ کی بات بجا ہے کہ عموماََ جو کچھ نہیں بن پاتا وہ آخر میں استاد بننا پسند کرتا ہے۔ اور معاشرے میں استاد کا وقار بھی کچھ اسی قسم کا ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے " صرف پڑھاندے ای او یا کج ہور وی کردے او" )آپ صرف پڑھاتے ہی ہیں یا کوئی اور کام بھی کرتے ہیں(۔
ہمارے ہاں اس بات کا تو خیال رکھا جاتا ہے کہ بچہ سکول جاتا ہے یا نہیں، مگر اس حوالے سے عام لوگ خصوصاََ والدین بری الذمہ ہو جاتے ہیں کہ ان کا بچہ سکول جا کر کیا پڑھ رہا ہے اور کیا سیکھ رہا ہے۔
ہمارے ہا ں آج کل دوسرے مسائل اس قدر ہیں کہ تعلیم،مؤثر تعلیم، شہری و اخلاقی تربیت وغیرہ ہماری)حکومتی( ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔
اس حوالے سے یقیناََ ہیں ہی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
صابر: بالکل۔ متفق
افتخار انکل: میرے بھائی سمیت ہم سب کی سکولنگ کا بڑا حصہ ایف جی سے ہی ہوا ہے اور الحمد اللہ ہم لوگ خود کو بہت سوں سے بہتر پاتے ہیں۔ مسئلہ سرکاری اور پرائیویٹ سسٹم میں تقابل کا نہیں ، سکولوں کی لوکیشن کا بھی ہے۔ ان دنوں شہر اس طرح پھیل چکے ہیں کہ ٹریفک اور وقت کے حالات دیکھ کر لوگ اپنے قرب و جوار میں واقع سکولوں کو ترجیح دیتے ہیں خصوصاؐ چھوٹے بچوں کے لئے۔
آپ کا مشورہ یقیناؐ بجا بھی ہے اور قابلِ عمل بھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینے والا ہاتھ بننے کی توفیق عطا کیے رکھیں،۔ آمین
اسد حسیب: آپ کی بات سے مکمل اتفاق کروں گی۔ معاشرے میں استاد کا درجہ بھی کسی حد تک استاد کے رویوں کی وجہ ہے۔ اور واقعی موجودہ حالات میں تربیت کرنے والے تمام اہم کردار اپنی دیگر مصروفیات اور ترجیحات میں اس قدر مصروف ہو چکے ہیں کہ بچے کی باری آخر میں آتی ہے۔ نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ہماری آج کی نوجوان پود کر رہی ہے۔