میں سوچتی تھی کہ نئے سال میں اپنے بلاگ پر پہلی پوسٹ کچھ مختلف ہی لکھوں گی۔ اسی سوچنے میں دس دن گزر گئے اور پھر کل شام کراچی میں ایس پی سی آئی ڈی چودھری محمد اسلم کی شہادت کے بعد مجھے لگا کہ شاید اب میں وہ پوسٹ نہیں لکھ سکوں گی۔ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ میرے ملک کے کتنے ہی لوگ ہر دوسرے روز ایسے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک اپنی ذاتی زندگی میں کسی نہ کسی حوالے سے ہیرو ہوتا ہے، کتنی آنکھوں کا تارہ ہوتا ہے اور کتنوں کی امید کا مرکز ہوتا ہے۔ میں ان کے نام نہیں جانتی لیکن وہ اور ان کے پیچھے رہ جانے والے میری دعاؤں میں شامل ہوتے ہیں۔ کتنا آسان ہوتا ہے خبر پڑھ کر یا سن کر ایک طرف رکھ دینا اور کتنا مشکل ہوتا ہے اس خاندان کا تصور کرنا جس کا کوئی پیارا ان سے اس طرح بچھڑ جائے کہ اس کا بے جان وجود بھی ٹکڑوں میں بٹا ہوا واپس ملے۔
میری یہ پوسٹ ان سب کے نام جنہوں نے پاکستانی ہونے کی قیمت ادا کی۔ جو اپنا فرض ادا کرنے کی پاداش میں دشمن کا نشانہ بنے یا جنہوں نے ایک عام پاکستانی ہونے کی قیمت ادا کی۔
ایس پی سی آئی ڈی بہت سوں کے لئے امن کی علامت تھے اور بہت سوں کے لئے دہشت کا نشان۔ چاہے ان کے فیصلے اور ایکشن کتنے ہی متنازع رہے ہوں لیکن ایک بات پر سب متفق ہیں کہ وہ ایک کمٹڈ، دلیر اور رسک لینے والے افسر تھے۔ اور ہماری فورسز میں ایسے افسروں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔
آج کے روزنامہ ڈان میں ان کے بارے میں ایک تفصیلی آرٹیکل آیا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
میری یہ پوسٹ اس 14 سالہ بچے کے نام بھی ہے جس نے گزشتہ پیر کو ہنگو میں ایک خودکش بمبار کو روک کر اپنے سکول میں موجود دو ہزار بچوں کی جان بچاتے ہوئے اپنی جان دے دی۔ اعتزاز حسن جو ہنگو آدم زئی میں رہتا اور پڑھتا تھا، کو سکول میں دیر سے پہنچنے پر بطور سزا گیٹ سے باہر نکال دیا گیا۔ اپنے جیسے دیگر بچوں کے ساتھ واپسی کے راستے پر جب ان لوگوں کا سامنا ایک مشکوک خود کش بمبار سے ہوا جس کی جیکٹ کا ایک کونا دیکھ کر انہیں اس کے ارادوں کا اندازہ ہوا تو اس بچے نے اس کا پیچھا کرتے ہوئے جب اسے پکڑا تو بمبار نے بچے سمیت خود کو دھماکے میں اڑا لیا۔
میرے لیے یہ بچہ بھی ہیرو ہے ، وہ ایس پی بھی ہیرو ، آئے روز خودکش دھماکوں کا شکار ہونے والا ایک ایک پاکستانی ہیرو ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور پیچھے رہ جانے والوں کو حوصلے قائم رکھے۔ آمین
شہیدانِ وطن کے حوصلے تھے دید کے قابل
وہاں پر شکر کرتے تھے جہاں پر صبر مشکل تھا
چوہدری اسلم شہید ایک بلاشبہ ایک فرض شناس اورجراتمند پولیس آفیسر اور سچے پاکستانی تھے ۔۔۔۔۔ میرے مطابق ان کے اس بہیمانہ قتل کا ذمہ دار وہی "نامعلوم" مافیہ ہے جس نے متحدہ کیخلاف اپریشن کرنے والے سات سو کے قریب پولیس و سیکورٹی اہلکاروں کو مشرف دور میں صرف کراچی ہی میں نہیں بلکہ اندرون سیدھ کے گوٹھوں میں ان کے گھروں تک پیچھا کر کے قتل کیا تھا ۔۔۔۔۔۔ کاش لوگ جان لیں کہ آج نہ تو دنیا میں دہشت کی علامت گسٹاپو فورسز زندہ ہیں اور نہ ہی چنگیز و ہلاکو کے سفاک آدم خوروں کے نام و نشان باقی ہیں۔
بہت خوب
مجبوراً مجھے تبصرہ کرنا ہی پڑا
لیکن بطور تبصرہ صرف اتنا ہی کہوں گا کہ
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لکھتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
یا پھر وہ کہوں جو بڑے غالب نے مومن کا شعر سن کے کہا تھا
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ میں بھی آپ کے سٹائل کو کاپی کرنا شروع کر دوں ، پھر میری غالبیت آڑے آ جاتی ہے، بلا شبہ بناوٹ اور ظاہری لیپا پوتی سے پاک پر اثر تحریر ہے
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
جیسے ہم مسلمان ہیں ویسے ہی ہمارے شہید بھی ہیں۔
http://ummatpublication.com/2014/01/14/news.php?p=story4.gif
http://ummatpublication.com/2014/01/13/news.php?p=story5.gif
جواد احمد خان کے دیے لنکس کے بعد آپکی خواہش کچھ مختلف لکھوں گی، پوری ہوگئی ہے ۔۔۔
شکریہ ڈاکٹر جواد اور نامعلوم۔ حیرانگی اس بات پر ہے کہ آزاد میڈیا کو یہ خبریں اور یہ لوگ 10 جنوری سے پہلے کیوں نہیں ملیں؟ اور امت والوں کو ہی بریکنگ اور ایکسکلیوسو رپورٹس کیوں ملا کرتی ہیں بھلا؟
بہت خوب لکھا۔۔۔۔۔۔ اور کیا لکھوں۔ خود کو معذور پاتا ہوں۔