"ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ہم اللہ کو ایک مانتے ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ اللہ کی ایک نہیں مانتے!"
— اشفاق احمد
"ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ہم اللہ کو ایک مانتے ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ اللہ کی ایک نہیں مانتے!"
ویل۔۔۔ ثمن کو میری اردو کہانیوں میں انگریزی الفاظ کے غیر ضروری استعمال والی بات اچھی نہیں لگی۔ ان کی روم میٹ عائشہ کو بھی بالکل اچھی نہیں لگی۔
جہاں تک انگریزی کی بات ہے تو ڈئیر ریڈر، مجھ سے پہلے یہ بات ایک بہت بڑے رائٹر نے کہی تھی، اور جب میں نے اپنے نوٹ میں یہ بات لکھی تھی تو بہت سی دوسری رائٹرز نے مجھ سے اتفاق کیا تھا۔ بقول ایک رائٹر کے " میں اپنے مسودے کی خود پروف ریڈنگ کرتے ہوئے انک ریموور سے انگریزی الفاظ مٹا مٹا کر اردو ترجمہ لکھتی ہوں۔ پھر بھی چند الفاظ رہ جاتے ہیں۔"
اصل میں پرابلم پتہ ہے کیا ہے۔ جب رائٹرز جا بجا انگریزی کے غیر ضروری الفاظ لکھتی ہیں تو وہ محض لا پرواہی کا مظاہرہ کرتی ہیں، اس کا ذاتی مقصد ریڈر پر رعب ڈالنا نہیں ہوتا۔ یہ بات میں نے پہلے بھی عرض کی تھی کہ ہم رائٹرز کو ریڈرز پر رعب ڈالنے کا شوق نہیں ہے، سو ریڈرز کو رعب میں نہیں آنا چاہئیے۔
جب میری ریڈرز مجھے کہتی ہیں کہ آپ نے ایم - اے انگلش کیا ہوا ہے تو مجھے افسوس صرف اس بات کا ہوتا ہے کہ ہم نے تعلیم اور قابلیت کا معیار انگریزی کو کیوں بنا دیا ہے۔ جو جتنی اچھی انگریزی پولے گا، وہ اتنا پڑھا لکھا ہو گا، یہ ٹرینڈ کیوں بلڈ اپ ہو رہا ہے؟ آپ کو انگریزی آنی چاہئیے لیکن اردو اس سے اچھی آنی چاہئیے۔ انگریزی کو معیار نہ بنائیں۔ انگریزی لکھنا محض لا پرواہی ہوتی ہے۔ اس ٹرینڈ کو ختم کریں۔ اردو کی کہانی محض اردو میں لکھیں، مکمل لکھنا بہت مشکل ہے۔ مگر جتنی حد تک ہو سکتا ہے اس حد تک تو لکھیں نا!
مجھے فلاں رائٹر کی سب سے اچھی بات ان کی گاڑھی اردو لگتی ہے۔ پھر وہ اپنے ازلی سوئیٹ انداز میں مجھے تسلی دیتی ہیں کہ 'نہیں بھئی! آپ کی اردو بھی بہت اچھی ہے۔' مجھے تو سیریئسلی ان کے اردو ایکسنٹ پر رشک آتا ہے۔
لہو میں ڈوب رہی ہے فضا ارضِ وطن
میں کس زبان سے کہوں “جشن آزادی مبارک"
سب سے پہلے تو ماہِ صیام مبارک۔ 2005ء کی طرح یہ رمضان بھی پاکستانی قوم کے لئے آزمائش کا مہینہ بن کر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری خطائیں معاف فرمائے اور اس مشکل وقت کا مقابلہ کرنے کی ہمت عطا فرمائے (ثمَ آمین)
پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا اندازہ 2004ء میں آنے والے سونامی طوفان سے کہیں زیادہ لگایا جا رہا ہے۔ سیلاب سے ہونے والی تباہی کے بعد زندگی کے اپنے معمول پر آنے میں نجانے کتنا وقت لگے گا۔
پیر کے روز نوشہرہ کے کچھ سکولز کی لی گئی تصاویر پوسٹ کر رہی ہوں۔ حالات ایسے تھے کہ نہ تو کہیں گزرنے کا راستہ تھا اور نہ ہی کھڑے ہونے کی جگہ۔ بچوں کی کتابیں، ٹیچرز کے پلانرز اور ڈائریاں کیچڑ میں کہیں بہت نیچے دبی ہوئی تھیں۔ زمین پر چار چار فٹ دلدلی کیثر کی تہہ موجود ہے۔ چھت کے پنکھوں پر بھی مٹی اور کیچڑ کی تہیں جمی ہوئی ہیں۔ کہیں کہیں جو کرسی میز دکھائی دیتی ہے اس کی لکڑی پانی سے نرم ہو کر جھڑ رہی ہے۔ گراؤنڈز کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پیدل جانا تو درکنار چھوٹی گاڑی پر جانا بھی ناممکن ہے۔ کمپیوٹر اور سائنس لیبارٹریوں میں ہر چیز تباہ ہو چکی ہے۔ یہ تو دو سکولز کا حال ہے۔ جن میں سے ایک کی عمارت مقابلتاً کچھ نئی تھی لیکن گھروں اور دیگر عمارتوں کا بالکل کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر زندگی کی ناپائیداری کا احساس ہوتا ہے۔ ہم لوگوں کی خواہشات کی کوئی اخیر نہیں ہوتی اور لمحوں میں سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ :-(
جملہ حقوق © دریچہ | تقویت یافتہ بلاگر | بلاگر اردو سانچہ| تدوین و اردو ترجمہ