Sunday 12 December 2010

قصہ ایک صاحبِ کرامات بابا جی کا۔

8 comments
واقعہ کچھ پرانا ہے لیکن تحریر کرنے کی فرصت اب ملی ہے۔
اس سال جون میں ہماری ایک مہمان لندن سے پاکستان آئیں۔ ہمارے خاندان سے ان کی جان پہچان اس طرح ہوئی کہ وہ لندن میں ہماری ہمسائی تھیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے والدین ہمارے شہر سے تھے جو شائد 50 کی دہائی میں برطانیہ منتقل ہو گئے تھے۔ اور ان کا آبائی گھر بھی یہیں ہمارے شہر میں ہے جہاں آخری بار وہ آج سے دس سال پہلے اپنے والد کی وفات پر آئی تھیں۔ بہرحال انہوں نے ہم لوگوں کا بہت خیال رکھا اور یوں ہماری پکی والی آنٹی بن گئیں۔ اس سال تقریباً دس سال بعد جب وہ پاکستان آئیں تو ہم لوگ بھی ان کے میزبانوں میں شامل تھے کیونکہ ان کی اپنی ساری فیملی پاکستان سے باہر ہوتی ہے۔ میزبانی کرتے کرتے ایک بہت دلچسپ موڑ بھی آیا۔ پاکستان آنے کے بعد ان کی طبیعت کچھ خراب ہو گئی اور سر اور جسم میں درد رہنے لگا۔ جو کہ میرے خیال میں گرمی، موسم اور جگہ کی تبدیلی اور تھکن کے باعث تھا لیکن آنٹی کو ان کی کسی رشتہ دار خاتون نے قائل کر لیا کہ کسی بدخواہ نے ان پر کچھ عمل کر دیا ہے۔ اور اس کا توڑ دوائیوں سے نہیں دعا سے ہو گا اور وہ بھی کسی پہنچے ہوئے بزرگ کی دعا سے۔ لگے ہاتھوں انہوں نے ایک صاحبِ کرامت بزرگ کا ذکر بھی کیا اور مزید ستم یہ ہوا کہ برطانیہ کی تعلیم یافتہ اور اچھی خاصی سمجھدار خاتون جو وہاں NHS سے منسلک ہیں، ان باتوں پہ یقین کر بیٹھیں بلکہ وہاں چلی بھی گئیں۔ بابا جی کو جب یہ معلوم ہوا کہ موصوفہ انگلینڈ سے آئی ہیں تو ان کا وہ تعویذ جو ایک بار جانے میں ہی سارے مسئلے حل کر دیتا تھا ، دو تین باریوں پر محیط ہو گیا۔ یعنی ان کو کہا گیا کہ وہ تین ہفتے تک ہر ہفتے آئیں۔ خیر آنٹی ان کی ٹھیک ٹھاک معتقد ہو گئیں۔۔ جب انہوں نے آخری بار بابا جی کی طرف جانا تھا تو ان کی رشتہ دار خاتون بیمار ہو گئیں اور آنٹی نے میری امی سے ساتھ چلنے کو کہا۔ میرے اماں ابا اس قسم کی پیری فقیری کے سخت خلاف ہیں تو امی کو سمجھ نہ آئے کیسے انکار کریں کہ وہ ہماری مہمان بھی تھیں۔ خیر ابو نے کہا چلی جائیں لیکن بھائی کے ساتھ جائیں۔ اب میرے زرخیز ذہن میں خیال آیا کہ لائیو دیکھنا چاہئیے یہ لوگ کیسے ہوتے ہیں۔ اگرچہ ٹھیک ٹھاک ڈانٹ پڑی لیکن بڑی مشکل سے ابو، امی اور بھائی سے کہہ کہہ کر اپنا نام بھی اس ٹرپ میں شامل کروا لیا۔ آنٹی سے کہا کہ میرے سر میں شدید درد رہتا ہے جو ایک عرصے سے علاج کرانے کے باوجود بھی مکمل ٹھیک نہیں ہوا۔ بابا جی سے تعویذ لینا ہے۔
مقررہ دن پر ہم لوگ وہاں پہنچے۔ یہ مرکزی سڑک سے ذرا سے ہٹ کر ایک چھوٹے سے بازار کی ایک چھوٹی سی گلی میں ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ بیرونی دیواریں اور دروازہ گہرے سبز رنگ میں رنگا گیا تھا۔ کپڑے کی چھوٹی چھوٹی سبز جھنڈیاں دیوار پر عمودی زاویہ پر لٹک رہی تھیں اور جھنڈیوں کے کونوں پر خوب چمکیلی گوٹا کناری کا کام بھی کیا گیا تھا ۔ خیر دروازے کی چوکھٹ پر بنی دو سیڑھیاں چڑھ کر کمرے میں داخل ہوئے تو ایک ڈربہ نما جگہ تھی جس کو درمیان میں ایک پردہ( جس کو شاید ہی کبھی دھویا جاتا ہو) لگا کر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ داخلی حصے میں ایک عدد خاصی نورانی صورت والی بابا جی سفید عبا سی پہنے ، سر پر باریک کشیدہ کاری والی نماز والی ٹوپی پہنے اور اس ٹوپی ہر سفید کپڑا اوڑھے چہرے کو ہلکا سا چھپائے بیٹھے تھے۔ (نورانی صورت کے بارے میں میرے بھائی کا خیال تھا کہ کمزوری کی وجہ سے رنگ پیلا تھا بابا کا جو کہ سفید مرکری بلب کی وشنی میں نور جیسا دکھ رہا تھا) ۔ ان کے سامنے دو تین ٹوکریاں رکھی تھیں۔ جن میں سے ایک میں سفید کاغذ کے پرزے تہہ کئے رکھے تھے۔ ایک طرف اگر بتیاں جل رہی تھیں۔ اور ایک چھوٹی سے چوکی پر رنگ برنگ موٹے دانوں والی ایک تسبیح اور بتھر جڑی دو تین انگوٹھیاں دھری تھیں۔ بابا جی کے سامنے چائے کی پیالی اور سائڈ پر دو تین خالی پیپسی کی بوتلیں پڑی تھیں۔ دیوار پر ایک اسلامی کیلنڈر لٹک رہا تھا۔ اسی طرف ایک دو بھائی صاحب بیٹھے تھے جن کو دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا تھا کہ بچارے زندگی کے ہاتھوں بری طرح ستائے ہوئے ہیں۔
خیر بھائی تو اندر آنے کے بجائے دروازے میں ہی کھڑے رہے۔ آنٹی ، اماں اور مجھے لیکر پردے کی دوسری سائڈ پر چلی گئیں۔ وہاں ایک دو سائل خواتین کے علاوہ ایک بزرگ خاتون بھی بیٹھی تھیں جو معلوم ہوا بابا جی کی بیگم تھیں۔ ساتھ ہی ان کی بیٹی بھی موجود تھیں جنہوں نے ہماری آنٹی کو دیکھتے ہی ان کا پرتپاک استقبال کیا اور بابا جی اینڈ کو کے کمالات و خدمات روشنی ڈالنا شروع کی جس میں سرِ فہرست یہ تھا کہ وہ ایک مدرسہ بنانے جا رہے ہیں جس کے لئے ان کے مرید خصوصاً ملک سے باہر مقیم مرید دل کھول کر مدد کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ ان آنٹی کو خاصی امید بھری نظروں سے دیکھ جا رہی تھیں جنہوں نے فوراً جذباتی ہو کر اچھی خاصی رقم دینے کا اعلان کر دیا ۔جواباً بابا جی کی اہلیہ اور بیٹی سکون کا سانس لیتے ہوئے نان چھولوں کی پلیٹ کی طرف متوجہ ہو گئیں جو انہوں نے شاید صرف اپنے دونوں کے لئے ہی منگوائی تھی۔ بغیر کسی کو دعوتِ طعام دیئے انہوں نے اپنا لنچ شروع کیا اور میں نے دوسری طرف سے آتی ہوئی آوازوں پر توجہ دی۔ ایک خاتون شاید اپنے بیمار بچے کے لئے تعویذ لینے آئی تھیں۔ بیمار تو بچہ تھا لیکن بابا جی نے خاتون کو کھڑا ہو کر زمین پر دایاں پاؤں زمین پر زور زور سے مارنے کو کہا۔ بابا جی کی ترجمان یعنی ان کی بیٹی نے اس کی توجیہہ یہ دی کہ ان کے بچے پر کسی دشمن نے عمل کر دیا ہے جس کی وجہ سے بچہ بیمار ہے۔ یہ عمل دشمن کو زیر کرنے کے لئے ہے۔ پھر بابا جی نے انہیں تعویذ دیا۔ بیچاری ممتا کی ماری نے جاتے جاتے دل کی تسلی کے لئے صرف اتنا پوچھا ' بابا جی! میرا بچہ ٹھیک تو ہو جائے گا ناں؟ 'اور بابا جی آ گئے جلال میں۔ ایسی گرجدار آواز میں ان کو ڈانٹا کہ سلطان راہی کی مشہورِ زمانہ بڑھکوں کا خیال آ گیا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ گنڈاسے کی جگہ بابا جی کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ ان کی بیٹی نے ہمارے چہروں پہ چھائی حیرت یا سراسیمگی دیکھ کر تسلی یوں دی کہ بابا جی بہت جلالی ہیں انہیں لوگوں کا جاہلوں کی طرح سوال کرنا نا پسند ہے۔ جب وہ تعویذ دے رہے ہیں تو یہ سوچنا کہ تعویذ کام نہیں کرے گا، بہت غلط بات ہے۔
خیر جی اب آئی ہماری آنٹی کی باری۔ چونکہ وہ ولائت سے آئی تھیں اس لئے انہیں اٹھ کر پردے کی دوسری طرف آنے کی زحمت سے بچاتے ہوئے پردے کو ذرا سا کھینچ دیا گیا اور بابا جی نے گوشۂ خواتین کی طرف رخ موڑ لیا۔ پہلے تو آنٹی سے فیڈ بیک لیا گیا جس میں زیادہ تر آنٹی کے بجائے بابا جی کی دختر بولیں۔ انہوں نے بابا جی کے تعویذ کی وہ کرامات بھی بیان کر دیں جو ابھی آنٹی نے دیکھنا تھیں۔ خیر اس کے بعد بابا جی نے آنکھیں بند کر کے کچھ پڑھنا شروع کیا۔ ان کی بیٹی اس وقت ویسے ہی رواں تبصرہ کر رہی تھیں جیسے لئیق احمد پی ٹی وی پر 23 مارچ کی پریڈ کے دوران کیا کرتے تھے۔ سب کو آنکھیں بند کر کے با ادب بیٹھنے کی ہدایت کی گئی۔جس پر باقیوں نے تو شاید عمل کیا ہو، میں نے اور دوسری طرف کھڑے میرے بھائی دونوں نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر گز عمل نہیں کیا بلکہ نہایت ذہین صحافیوں کی طرح ہر طرف آنکھیں گھما گھما کر کہانی کے لئے مواد اکٹھا کرتے رہے۔ خیر کچھ پڑھنے کے بعد بابا جی نے پھونک ماری اور پھر آنٹی کے دونوں کندھوں کو باری باری چھڑی سے اس طرح چھوا جیسے ملکہ برطانیہ آرڈر آف برٹش ایمپائر دیتے ہوئے ایوارڈ لینے والے کے دونوں کندھے تلوار سے چھوتی ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے آنٹی سے بھی کہا کہ اٹھ کر زمین پر اپنا پاؤں زور زور سے تین بار ماریں۔ ماشاءاللہ آنٹی خاصے کھاتے پیتے گھر سے ہیں تو تھوڑی دیر تک منی زلزلہ کے اچھے خاصے آفٹر شاکس آتے رہے۔ اگلا مرحلے پر بابا جی نے اپنے سامنے پڑی ایک چھوٹی سے ٹوکری میں سے ایک تعویذ نکالا اور باجی کو دے دیا کہ اپنے گھر میں کہیں کچی زمین میں دبا دیں۔ دشمن کا وار اثر نہیں کرے گا۔ پھر انہوں نے ایک طرف رکھی بوتل اٹھائی اور آنٹی پر کچھ چھڑکا۔ میرا تو خیال ہے سادہ پانی بھر کے رکھا گیا ہو گا۔ اللہ جانے۔
اب ان آنٹی نے بابا جی سے میری سفارش کی کہ اس کے سر میں بہت درد رہتا ہے۔ کچھ ایسا دَم کریں کہ ختم ہو جائے (درد ختم ہو جائے، میں نہیں)۔ لیکن بابا جی کو لگتا ہے یہی سمجھ آئی کہ آنٹی سرے سے مجھے ہی ختم کرنے کا کہہ رہی ہیں۔ سو انہوں نے مجھے آنکھیں بند کر کے سر جھکانے کو کہا اور کچھ پڑھ کر پھونکا۔ پھر ملکہ برطانیہ کے ایکشن کا اعادہ کیا گیا ۔ اس کے بعد مجھے بھی تین بار زمین پر پاؤں مارنے کو کہا گیا جس پر میں نے پاؤں میں موچ آنے کا بہانہ کر کے جان بچائی۔ جواباً کچھ سوچنے کے بعد انہوں نے مجھے پھر سر جھکا کر بیٹھنے کو کہا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تین چار بار زور زور سے چھڑی ٹھاہ ٹھاہ میرے سر میں دے ماری۔ جو ان کی بیٹی کے بقول سر درد کو ہمیشہ کے لئے بھگانے کے لئے تھی جبکہ میرے بھائی اور امی کے خیال میں یہ انہوں نے بات نہ ماننے پر مجھے سزا دی تھی۔ خیر نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت میں بالکل ٹھیک ٹھاک تھی لیکن تین چھڑیاں کھا کر سر درد تین دن ٹھیک نہیں ہوا۔ اس کے بعد مجھے بھی اسی ٹوکری سے ایک عدد تعویذ عنایت ہوا اور اس کو سر پر باندھنے کی ہدایت کی گئی۔ یعنی بابا جی کے پاس all in one قسم کے تعویذ تھے۔
اب بابا جی کی مارکیٹنگ مینیجر بیٹی نے پھر ایک بار ہماری رہنمائی کی اور بابا جی کے سامنے پڑی ایک بڑی سی ٹوکری کی طرف اشارہ کیا۔۔جہاں چند کرنسی نوٹ پڑے ہوئے تھے۔ آنٹی نے ان کا اشارہ سمجھتے ہوئے 1000 کا نوٹ نکالا اور ٹوکری میں رکھ دیا ساتھ ہی انہوں نے امی سے کچھ کہا۔ امی کا پرس چونکہ میرے ہاتھ میں تھا اس لئے مجھے ہی پیسے نکال کر دینے تھے۔۔اور اتنے زور کی چھڑیاں کھانے کے بعد میں کم از کم 1000 تو کیا 100 روپے بھی دینے کو تیار نہیں تھی ۔ لیکن پھر امی کے گھورنے پر دل کڑا کر ایک سو روپے رکھ دیئے۔ اس وقت جو مزے کا سین دیکھنے کو ملا۔۔اس سے ساری کوفت دور ہو گئی۔ بابا جی اور دخترِ بابا جی دونوں کنکھیوں سے دیکھ رہے تھے کہ کیا دیا جبکہ بابا جی کی اہلیہ جو اس تمام عرصے میں نان چھولوں سے انصاف کرنے کے بعد دھڑادھڑ سلاد کھا رہی تھیں انہوں نے باقاعدہ جھانک کر رقم دیکھی۔
اگلا مرحلہ خدمتِ خلق پر بابا جی کا ایک طویل خطبہ تھا جو باقیوں نے سر جھکائے اور میں نے سر دباتے ہوئے سُنا۔ جاتے ہوئے انہوں نے ان آنٹی کو اپنے تین موبائل فون نمبر، گھر کا پتہ اور اکاؤنٹ نمبر بھی لکھ کر دیئے تا کہ آنٹی بھی اس کارِ خیر میں حصہ ڈال سکیں۔
گھر پہنچ کر میں نے اور بھائی نے ان آنٹی سے ان کا تعویذ لیا۔ اپنا اور ان کا تعویذ کھول کر دیکھا تو دونوں پرزوں پر چند خانے بنے تھے اور کچھ بھی نہیں لکھا ہوا تھا۔ وہ آنٹی تو کچھ دنوں بعد واپس برطانیہ چلی گئیں اور خوب تعریفیں کر کے گئیں کہ اس تعویذ کو زمین میں دبانے سے ان کی طبیعت بھی بہتر ہو گئی اور گھر بھی روشن سا لگنے لگا۔۔ یہ اور بات ہے کہ جب ان کو یہ بتایا گیا کہ ان کا تعویذ تو میں نے خود رکھ لیا تھا اور ان کو ایک اور خالی کاغذ کا پرزہ دے دیا تھا۔ جبکہ بابا جی والے کاغذ کے پرزے ہم نے پانی میں بہا دیئے تھے تو ان کو یقین آیا کہ کیسے لوگ ہماری ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان بزرگ نے کسی کو نماز پڑھنے یا اللہ سے مدد مانگنے کی تلقین نہیں کی اور نہ ہی کسی قرانی آیت کے پڑھنے کی ہدایت کی۔ ہر ایک کے مسئلے کی وجہ ان کے نزدیک دشمنوں کا کیا گیا عمل تھا اور ہر ایک سے نمٹنے کا طریقہ بھی ایک ہی۔ (ویسے میں ابھی تک اپنے اس نادیدہ دشمن کی تلاش میں ہوں جس نے مجھ پر عمل کرایا کہ مجھے سر درد ہو جائے)۔ :123
ضعیف الاعتقادی صرف کم پڑھے لکھے یا غریب طبقے کی ہی بیماری نہیں بلکہ پڑھے لکھے اور مالی طور پر آسودہ لوگ بھی اس بیماری کے شکار ہیں۔ ایک مثال جو میں نے ابھی دی۔ ایک اور مثال ہمارے لوکل کیبل چینل پر آنے والے اشتہارات ہیں۔ جن میں دو تین لوگوں کی تصویریں دے کر سلائیڈ چلائی جاتی ہے کہ ان کے مسائل فلاں بزرگ کے عمل سے حل ہوئے۔ اور یوں سادہ لوح حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کو ایک نئی راہ پر لگا دیا جاتا ہے۔ ہمارے ایک انکل تو اس کو شرک کا نام دیتے ہیں۔
مزے کی بات کہ اس میں مذہب کی بھی قید نہیں۔ ابھی اسی ویک اینڈ پر چینل بدلتے ایک بار پھر اپنے مقامی کیبل چینل پر نظر پڑی تو وہاں ایک عیسائی بابا جی کا اشتہار آ رہا تھا ان کی کمالات، فون نمبر اور رہائش کی تفصیل کے ساتھ۔ یعنی ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز :dntelme

8 comments:

  • 12 December 2010 at 19:50

    ہاہاہا
    ہاہاہا
    ہاہاہاا

    اور جائیں بابوں کے پاس :smile

    فرحت آپ نے ناحق اتنی محنت کی ، میری خدمات حاصل کرنا تھیں ، میں یہیں سے بیٹھے بٹھائے سب ختم کر دینا تھا سچی سے :smile :P میری آواز سنتے ہی آپ فریش ہو جاتیں :luv

  • 12 December 2010 at 20:53

    تحریر طوالت کے باوجود دلچسپ لگی۔ یہ بات صحیح ہے کہ ضعیف الاعتقادی صرف کم پڑھے لکھے یا غریب طبقے کی ہی بیماری نہیں بلکہ پڑھے لکھے اور مالی طور پر آسودہ لوگ بھی اس بیماری کے شکار ہیں۔ میں بھی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں۔
    یہ ظلم ہے کہ لوگ اللہ سے براہ راست دعا کرنے کی بجائے ان بابوں کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔
    یہ بھی خوب رہی کہ باوجود اس کے کہ آپ نے آنٹی والا تعویذ نکال کر ضائع کر دیا تھا اور اس کی جگہ محض ایک خالی کاغذ ان کے ہمراہ کر دیا تھا، وہ خوش تھیں کہ ان کی زندگی اب بہتر ہو گئی ہے۔ سب گمان کا کھیل ہے۔ Placebo والا چکر ہے۔

  • 12 December 2010 at 21:28

    مجھے تو موصوف کی خدامات حاصل کرنی ہوں گی ہنسی روکنے والے تعویذ کے لئے۔ انتہائی افسوس ہوتا ہے ایسے لوگوں کا سن کر۔

  • 12 December 2010 at 23:08

    یعنی میرا کہنا درست ہے کچھ عورتیں جتنا مرضی پڑھ لکھ جائیں ان کو الو بنانا بہت آسان ہوتا ہے اور سمجھتی وہ کود کو ذہین فطین ہیں۔

  • 13 December 2010 at 03:01

    :bgrin :bgrin
    باہر سے پاکستان جانے والوں‌ کو بڑے شوق سے بابا جی کے پا لے جانے کی کوشش کی جاتی ھے۔
    :skull

  • 20 December 2010 at 11:05
    فرحت کیانی :

    شگفتہ:
    :shy: ایڈونچر کا موڈ ہو رہا تھا ناں۔
    شگفتہ۔ آپ بھی تیار رہیں۔ اب میں آپ کے پاس آنا ہے کراچی انشاءاللہ جلد ہی۔ آپ کی آواز تو تب سنوں گی ناں جب آپ فون اٹھائیں گی۔ :123



    احمد عرفان شفقت:
    بہت شکریہ احمد۔ یہی تو رونا ہے کہ اچھے خاصے سمجھدار لوگ اللہ کی بجائے ڈبہ پیروں کی طرف ہی بھاگتے ہیں۔ اور نا مراد رہتے ہیں۔
    آنٹی کو تو شاید ابھی بھی پورا یقین نہیں آیا۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ہم لوگ چونکہ بابا کلچر کے خلاف ہیں تو کاغذ بدلنے والی بات یونہی کی ہے۔


    ابن سعید:
    دیکھا سعود حقیقی زندگی میں بھی کیسے کیسے مزاحیہ واقعات رونما ہوتے ہیں۔ واقری افسوس ہوتا ہے ایسے لوگوں کو دیکھ کر اور مزید ستم یہ کہ سمجھانے کا بھی اثر نہیں ہوتا ان لوگوں پر۔




    یاسر خوامخواہ جاپانی:

    بالکل۔ باہر سے آنے والے خود بھی اکثر بہت پرجوش ہوتے ہوتے ہیں بابوں سے ملنے کو۔

  • 20 December 2010 at 11:08
    فرحت کیانی :

    آپ کا کہا غلط کب ہوتا ہے بھائی۔ اس فہرست میں حضرات کا نام بھی شامل کر لین۔ ان کی بھی کمی نہیں ہے یہاں۔ :bus
    ویسے میں تو آپ کی اس لسٹ میں شامل نہیں ہوں نا۔ کیونکہ نہ تو میں پڑھی لکھی ہوں اور نہ ہی ذہین فطین۔ بلکہ میں تو بیوقوفی میں ISO certified ہوں :daydream

  • 28 January 2011 at 02:05

    زبردست لکھا ہے فرحت اور سچ بتاؤں قصہ کا لطف اتنا آیا کہ جی چاہ رہا تھا ایک آدھ اور قسط ہوتی

    ویسے سر درد تو ٹھیک ہے کہ اب بھی کبھی کبھی سر کو درد کا خیال آتا ہے

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔