Saturday 19 January 2008

اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجئو

5 comments

جو بڑے بوڑھے کہتے تھے کہ بیٹی پیدا ہوتے ہی ماں باپ کے بال فکر سے سفید ہونا شروع ہو جاتے ہیں تو سچ ہی کہتے تھے۔۔۔ لیکن شاید وہ یہ بتا نا بھول گئے کہ اگر ماں باپ کے لئے بیٹی آزمائش ہے تو خود بیٹی کے لئے بھی اپنا وجود درد ہی درد ہے۔۔۔ یہ احساس کہ ایک اس کا وجود کتنے لوگوں کی پریشانی اور فکرمندی کا باعث بن رہا ہے بذاتِ خوداتنی بڑی تکلیف ہے کہ لفظوں میں کون بیان کرے گا۔۔
ان پڑھ رہی تو جاہل کا خطاب۔۔۔پڑھ لکھ گئی تو پڑھائی کا طعنہ۔۔۔ پلیٹ میں سجا کر پیش کرنے پر بھی کسی کی پسند پر پوری نہ اتری تو تمسخر آمیز رویوں کا سامنا۔۔ کسی کھونٹے سے بندھ گئی تو بھی ساری زندگی ماں باپ کے در سے کچھ ملنے کی امید۔۔۔نہ ملا تو سلسلہ ہائے مشکلات طویل ترین۔۔۔
شگفتہ نے جو لکھا۔۔میں نے یونہی پاکستان میں اپنی ایک دوست کو بتایا تو معلوم ہوا۔۔ایسا ہی اس کے ساتھ بھی بیت چکا ہے۔۔جب سیروں کے حساب سے سونا چڑھائے۔۔ولائت پلٹ اماں جان اپنے ہونہار سپوت کے لئے رشتہ ڈھونڈتے ان کے گھر پہنچیں ۔۔اور اچانک بجلی جانے کی وجہ سے کمرے میں ذرا سی روشنی کم ہو گئی۔۔(دن کے اجالے میں ایک ٹیوب لائٹ بند ہونے سے کتنا اندھیرا ہوتا ہو گا بھلا)۔۔ خیر کمرے سے باہر نکل کر ارشاد ہوا۔۔'لڑکی! ذرا باہر آنا۔۔اندھیرے میں تو شکل صاف نظر نہیں آتی۔۔۔'۔۔جوتے والی بات بھی ہو بہو ایسی ہی ہوئی۔۔'ذرا جوتا تو اتارو۔۔آجکل کی لڑکیاں اتنی اتنی ہیل پہنے پھرتی ہیں'۔۔مرے پر سو دُرے۔۔اس کو ساتھ لگا کر کہا گیا۔۔'کڑیے! تمہارا قد تو مجھ سے بھی چھوٹا ہے۔'
شگفتہ نے جس لڑکی کا بتایا اس کی تو شادی ہو گئی لیکن میری دوست نے پہلے ہی مرحلے پر اپنی عزتِ نفس کو یوں مجروح ہوتے دیکھ کر ان کے مزید کچھ کہنے سے پہلے ہی انکار کر دیا۔۔۔ایک بار رتو سب نے اس کے انکار کو تسلیم کر لیا لیکن کتنا عرصہ وہ ایسا کر سکے گی۔۔ایک دن ایسا بھی آئے گا۔۔کہ ایسے ہی لوگوں میں سے کوئی انہیں مراحل میں سے گزار کر اس کو ہاں پر مجبور کر ہی دے گا۔
جب ایسے مراحل سے ایک لڑکی گزرے گی تو اس کی خود اعتمادی کیا ختم نہیں ہوگی۔۔

Saturday 12 January 2008

وی آئی پی موومنٹ

0 comments


وی آئی پی موومنٹ




اندھیر نگری کے راستوں پر لگے ہیں پہرے
تنی ہے زنجیرِ جبر جس پر
تنی ہے سیاہ تختی
سیاہ تختی جس پر سُرخ لفظوں سے لکھا ہے
کوئی نہ  گزرے کہ شاہِ دوراں گزر رہے ہیں
یہ حکم پڑھ کر ہر ایک ساعتِ مؤدبانہ ٹھہر گئی ہے
سبھی کے ہونٹوں کو چپ لگی ہے
مگر اک آواز آ رہی ہے
اُکھڑتی سانسوں کی، سسکیوں کی
کراہ کی، آخری ہچکیوں کی
یہ جان دیتی ہوئی مریضہ
اندھیر نگری کے رہنے والوں کی آرزو ہے
یہ عدل و انصاف اور مسافت کے اجالوں کی آرزو ہے
اک آرزو جو اندھیر نگری کی بند راہوں پہ مر گئی ہے
ادھر یہ جاں سے،

اُدھر شہنشاہ کی سواری بڑی اماں سے گزر گئی ہے


۔۔۔محمد عثمان جامعی


 

Tuesday 8 January 2008

اخلاقی معیار

0 comments

ہم لوگ بڑے بڑے مسائل پر بات کرتے ہیں۔ ملکی حالات سے لیکر بین الاقوامی معاملات کی تجزیہ نگاری میں ہم سے زیادہ کون ماہر ہو گا۔ اور ایسا کرتے ہوئے ہم اپنی ذات اور اس کے منسلک مسائل کا جائزہ لینا بھول جاتے ہیں یا شاید ہمارے پاس اس کا وقت نہیں ہوتا۔۔
'انصاف' کا راگ الاپ الاپ کر ہمارے گلا خشک ہو جاتا ہے لیکن اس رولے میں  یہ دیکھنا بھول جاتے ہیں کہ کہیں ہماری ذات بھی تو کسی کے لئے تکلیف کا باعث نہیں بن رہی۔۔کہیں کوئی ایسا مظلوم بھی تو نہیں ہے جو ہمیں ظالم کہتا ہو۔
'احتساب' ہماری دلپسند اصطلاح  ہے ۔۔لیکن اے کاش دوسروں سے پہلے ہم اپنا محاسبہ بھی کر لیں۔۔کہ ہم نے کہاں کہاں اصولوں سے روگردانی کی۔۔کب کب ہمارے لہجے اور عمل میں رعونت در آئی۔۔

  بھی دوسروں کی 'غلط بیانی' اور 'خود غرضی' کے تمام ثبوت ہم انگلیوں پر گن سکتے ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ  سوچیں...ہمارے اپنے اندر کس حد تک 'بے غرضی' اور 'سچائی' موجود ہے۔


کہیں کسی پر ظلم ہو رہا ہو تو ہم تڑپ اٹھتے ہیں۔۔ اوراظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے لفظوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں لیکن اس طرف خیال نہیں جاتا کہ ہم خود بھی اپنی زبان، عمل اور رویے کی وجہ سے کسی دوسرے کے لئے تکلیف کی وجہ بن رہے ہیں۔


 نجانے قول و فعل کا یہ تضاد ہماری ذات کا ناگزیر حصہ کیوں  ہے؟



ہر شخص بنا لیتا ہے اخلاق کا معیار
اپنے لئے کچھ اور، زمانے کے لئے اور

رائیگاں جانے کا دکھ

3 comments

رائیگاں جانے کا دکھ
ہر لمحہ گئے لمحے کا دکھ
جو گزشتہ ہے وہ آئندہ نہیں
اور آئندہ کبھی پایا نہیں
کچھ اگر پایا تو فقط
رائیگاں جانے کا دکھ

۔۔عبید اللہ علیم

Sunday 6 January 2008

Team Work

2 comments

Team Work

اردو کے ضرب الامثال اشعار

14 comments

پچھلے دنوں 'اردو کے ضرب الامثال اشعار' کے عنوان سے لکھی گئی ایک کتاب کا تعارف پڑھنے کا اتفاق ہوا جو کہ 'محمد شمس الحق' نے لکھی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ بہت سے اشعار جو ضرب المثل بن چکے ہیں وہ مؤلف کی تحقیق کے مطابق اپنے اصل متن سے کافی مختلف ہیں۔۔صاحب تبصرہ'قاضی اختر جونا گڑھی' کے مطابق اس کتاب میں اشعار کے اس متن اور شعراء کا کھوج بھرپور علمی تحقیق کا نتیجہ ہے اور اصل متن اور شاعر کا نام پیش کرتے ہوئے مکمل تحقیقی جواز پیش کیا گیا ہے۔ تبصرے میں شامل کیے گئے تصحیح شدہ اشعار دیکھ کر مجھے اس کتاب کے دلچسپ ہونے میں کوئی شک نہیں رہا۔۔۔ابھی تک یہ کتاب میرے ہاتھ لگی نہیں تلاش ہنوز جاری ہے۔ بہرحال تبصرے میں موجود چند اشعار یہاں شامل کر رہی ہوں۔



خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں، پیمبری ہو جائے

جبکہ اس شعر کا مصرع ثانی یوں مشہور ہے۔
کہ آگ لینے کو جائیں، پیمبری مل جائے
اس شعر کے خالق 'نواب امین الدولہ مہر' ہیں۔

ایک اور شعر عموماً ایسے سنا اور پڑھا جاتا ہے۔
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی
کہ جیسے خوش نما لگتا ہے ، دیکھو چاند بن گہنے

اصل شعر کچھ یوں ہے۔
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا دیوے
کہ اُس کو بدنما لگتا ہے ، جیسے چاند کو گہنا

شاعر: شاہ مبارک آرزو

مشہور شعر جو راجہ رام نرائن نے نواب سراج الدولہ کی وفات پر لکھا تھا۔ ہم نے تو اس کو یوں پڑھا تھا۔
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری؟
مؤلف کی تحقیق کے مطابق مصرع ثانی یہ ہے۔
دوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزرا؟

اسی طرح مرزا رفیع سودا کے مشہور شعر
گل پھینکو ہو اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی
میں پہلا مصرعہ یوں بتایا گیا ہے۔
'گل پھینکے ہے عالم کی طرف بلکہ ثمر بھی'

میر تقی میر کا یہ شعر ہمیشہ یوں ہی پڑھا۔
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
جبکہ مؤلف کے مطابق اصل شعر ہے
سرہانے میر کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

میر ہی کا ایک اور شعر۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
اصل متن
میر کیا سادے ہیں،بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں'

'شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میر
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا'

یہ میر کا شعر سمجھا جاتا ہے لیکن صاحبِ تالیف کے مطابق یہ شعر ایک اور شاعر 'محمدیار خان امیر' کا ہے اور اصل شعر یوں ہے۔
شکست و فتح میاں اتفاق ہے ، لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا


'پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھی' اس کا مصرع اولیٰ اور شاعر کا نام تو معلوم ہوا ہی، یہ بھی معلوم ہوا کہ اس مصرعے میں بھی الفاظ کی کچھ ترمیم ہو چکی ہے۔
صاحبِ کتاب کے بقول یہ شعر ایک گمنام شاعر ‘جہاندار شاہ جہاندار’ کا ہے اور اصل میں کچھ یوں ہے۔
آخر گِل اپنی، صرفِ درِ میکدہ ہوئی
پہنچے وہاں ہی خاک، جہاں کا خمیر ہو'

اسی طرح
گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ سے
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بَل چلے
کتاب میں اس شعر کے اصل شاعر کا نام 'عظیم بیگ عظیم' اور اصل شعر یوں نقل کیا گیا ہے۔
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثلِ برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بَل چلے

ابراہیم ذوق کا شعر
پھول تو دو دن بہارِ جانفزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بِن کھِلے مرجھا گئے
یوں بیان کیا گیا ہے۔
کھل کے گل کچھ تو بہار اپنی صبا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بِن کھِلے مرجھا گئے

'سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے' کا پہلا مصرعہ اور شاعر کا نام یوں بیان کیا گیا ہے کہ
اگر بخشے، زہے قسمت، نہ بخشے تو شکایت کیا
سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے

شاعر اصغر خان اصغر

بہادر شاہ ظفر سے منسوب مشہورِ زمانہ غزل 'نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں، نہ کسی کے دل کا قرار ہوں' کو صاحبِ تالیف نے شاعر'جاں نثار حسین اختر' کے والد 'مضطر خیر آبادی' سے منسوب کیا ہے۔ اور اس غزل کے چار مزید اشعار بھی درج کئے ہیں۔

میں نہیں نغمۂ جانفزا، کوئی مجھ کو سن کے کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا، میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
مرا بخت مجھ سے بچھڑ گیا ، مرا رنگ و روپ بگڑ گیا
جو خزاں سے باغ اجڑ گیا ، میں اُسی کی فصلِ بہار ہوں
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں ، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی شمع لا کے جلائے کیوں ، میں وہ بے کسی کا مزار ہوں
نہ میں مضطر ان کا حبیب ہوں، نہ میں مضطر ان کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں، جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں

بقول صاحبِ تبصرہ اس کتاب میں غیر معمولی اور غیر متوقع انکشافات ہیں۔ ان اشعار کو دیکھ کر تو واقعی ایسا لگتا ہے۔ لیکن اگر مؤلف نے اتنے وثوق سے یہ انکشافات کئے ہیں تو یقیناً ساتھ باقاعدہ حوالہ جات موجود ہیں۔ اب مجھے انتظار ہے کہ جلدی سے یہ دلچسپ اور معلوماتی کتاب میرے ہاتھ لگے اور میں بھی ان حوالہ جات کو ٹریس کرتے ہوئے تھوڑی سی 'محقق' بن سکوں۔ :)


خطرے میں اسلام نہیں

0 comments

خطرہ ہے زرداروں کو
گرتی ہوئی دیواروں کو
صدیوں کے بیماروں کو
خطرے میں اسلام نہیں


خطرہ ہے خونخواروں کو
رنگ برنگی کاروں کو
امریکا کے پیاروں کو
خطرے میں اسلام نہیں


خطرہ ہے درباروں کو
شاہوں کے غمخواروں کو
نوابوں، غداروں کو
خطرے میں اسلام نہیں

۔۔۔حبیب جالب


 


 

Saturday 5 January 2008

آج اور کل

0 comments

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
آجکل میں مصرعہء ثانی پر پورے شد و مد کے ساتھ عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔۔۔جو دل کہتا ہے وہ کرتی ہوں۔۔جیسا کہ آجکل میرا دل صرف دوستوں اور کزنز سے گپیں لگانے یا بچہ پارٹی کے ساتھ کھیلنے کے علاوہ اور کسی طرف نہیں جاتا۔دماغ کے کچھ کہنے پر پابندی ہے اس لیے۔۔ جو جو کام پہلے کرنے کا ہوتا ہے اس کو 'ٹو ڈو لسٹ' میں آخر پر رکھتی ہوں اور کیونکہ یہ لسٹ پرویز مشرف کے دورِ حکومت کی طرح طویل ہوتی جاتی ہے تو 'آخری کام' کی نوبت ہی نہیں آتی اکثر۔۔۔نتیجہ صاف ظاہر ہے۔۔۔عین وقت پر مصیبت پڑ جاتی ہے۔۔۔ وہ تو قسمت ذرا مہربان ہے آجکل کہ آخری لمحوں میں بھی ٹھیک ٹھاک کام ہو جاتا ہے ورنہ ۔۔۔۔

سوچتی ہوں اتنی فرصت کے دن پھر نجانے کب ہاتھ آئیں گے۔۔۔پاؤں میں چکر بندھا ہو تو کیا معلوم صبح کہاں ہو اور شام کہاں۔۔۔جو وقت مل رہا ہے اس سے فائدہ اٹھایا جائے ۔۔اور خوبصورت لمحوں کو مٹھی میں بند کر لیا جائے کہ رب جانے  کل  کو زندگی کیا رخ دکھائے۔۔۔




وقت ہے کہ گزرتا ہی جاتا ہے۔۔لمحے، دن، مہینے، سال اتنی تیزی سے گزرتے جا رہے ہیں۔۔۔ کل مارکیٹ میں بہت دنوں بعد ایک رشتہ دار آنٹی سے ملاقات ہوئی۔۔ان کے ساتھ ان کی بیٹی تھی جس سےجب میں آخری دفعہ ملی تھی تو وہ  او لیولز کا امتحان دے رہی تھی اور اب وہ بی بی اے آنرز کے فائنل میں ہے۔۔۔اس سے مل کر احساس ہوا کہ وقت کو پر لگ گئے ہیں اور کل سے میں یہ سوچ رہی ہوں کہ وقت کتنا تیز رفتار ہے... سکول میں تھے تو لگتا ہے دن گزر ہی نہیں رہے...۔۔مجھے گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد سے انتظار رہنے لگتا تھا کہ کب سال ختم ہو گا اور ہم نئی کتابیں پڑھیں گے۔۔۔ ہاسٹل میں تھے تو گھر سے واپس آنے کے اگلے دن ہی حساب لگانا شروع کر دیتے تھے کہ اب کب چھٹیاں آئیں گی۔۔۔ کیلنڈر پر نشان لگا لگا کر بھی لگتا تھا دن آگے بڑھ ہی نہیں رہے۔۔اوراب احساس ہوا۔۔چار سال جیسے چار ہفتوں میں گزر گئے۔۔۔