Friday 18 February 2011

غزل- وقتِ سفر قریب ہے بِستر سمیٹ لُوں

3 comments
وقتِ سفر قریب ہے بِستر سمیٹ لُوں
بِکھرا ہُوا حیات کا دفتر سمیٹ لُوں

پھر جانے ہم ملیں نہ ملیں اک ذرا رُکو
میں دل کے آئینے میں یہ منظر سمیٹ لُوں

غیروں نے جو سُلوک کئے اُن کا کیا گِلہ
پھینکے ہیں دوستوں نے جو پتھر سمیٹ لُوں

کل جانے کیسے ہونگے کہاں ہونگے گھر کے لوگ
آنکھوں میں ایک بار بھرا گھر سمیٹ لُوں

سیلِ نظر بھی غم کی تمازت سے خُشک ہو
وہ پیاس ہے ملے جو سمندر سمیٹ لُوں

اجمل بھڑک رہی ہے زمانے میں جتنی آگ
جی چاہتا ہے سینے کے اندر سمیٹ لُوں

3 comments:

  • 18 February 2011 at 22:46

    بٹیا رانی، اتنی ساری "بلا عنوانیاں" کر کے آپ اپنے قارئیں کے ساتھ انصاف نہیں کر رہیں۔ کچھ متعلقہ عنوان ضرور دیا کریں مراسلوں کو اسے سے بعد میں بڑی سہولت رہے ہی۔ لائبریر کی منتظم ہو کر آپ ایسی باتوں کا خیال نہیں رکھیں گی پھر بھلا کون رکھے گا؟ بہر کیف انتخاب بہت لاجواب ہے بس "ذرا" سی ٹائپو سرزد ہوئی ہے ایک جگہ۔

  • 27 February 2011 at 22:10
    فرحت کیانی :

    معذرت سعود۔ غزل کا عنوان شعر سے لینا نہیں چاہ رہی تھی اعجاز انکل کی ڈانٹ یاد ہے ابھی تک :smile۔ شاعر کا نام بھی معلوم نہیں تو بس یونہی لکھ دیا۔ لیکن اب ذرا سی غلطی بھی ٹھیک کر دی ہے اور عنوان بھی بدل دیا۔ بہت شکریہ :)

  • 17 March 2011 at 17:55

    بہت خوب انتخاب ہے فرحت صاحبہ،

    خوبصورت غزل ہے پڑھ کر لطف آیا۔ آپ کی اور سعود بھائی کی گفتگو دیکھ کر خیال آ رہا ہے کہ واقعی مطلع کا پہلا مصرع اس غزل کی خوبصورتی کا مکمل عکاس نہیں ہے۔

    بہر کیف ایک خوبصورت انتخاب کا شکریہ۔۔۔۔!

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔