Saturday 27 June 2009

شیشہ حقہ

12 comments

برطانیہ میں کسی بھی پبلک پوائنٹ پر سگریٹ پینے کی ممانعت ہے۔ چنانچہ ایسے مقامات پر سگریٹ نوشی کے لئے مخصوص شیڈز بنا دیئے جاتے ہیں جہاں آپ کو لوگ اجتماعی سگریٹ نوشی کرتے ملتے ہیں۔ جو کہ کافی دلچسپ منظر ہوتا ہے :daydream ۔ گھروں میں بھی عموماؐ لوگ محتاط ہی رہتے ہیں۔ ہمارے ایک جاننے والوں کے گھر پاکستان سے ایک انکل آئے۔اکثر شام کو اپنے گھر کے باہر کھڑے سگریٹ پیتے دکھائی دیتے تھے کیونکہ گھر والوں نے انہیں گھر کے اندر سگریٹ پینے کی اجازت نہیں دی تھی۔ لیکن ہم بھی پاکستانی ہیں ناں تو جہاں تو “قانون” کی اصل والی حکمرانی دکھائی دیتی ہے ہم سے زیادہ بیبا بندہ کوئی نہیں اور جہاں پاکستان کی حدود شروع نہیں ہوئیں سب کچھ بھول گئے۔ اس بار پاکستان آتے ہوئے یہی کچھ ہوا۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر ابھی سب لوگ سامان کے انتظار میں کھڑے تھے کہ ہر طرف “شام ہے دھواں دھواں” کا سماں پیدا ہو گیا جو کہ اسی فلائٹ سے آنے والے چند انکلز اور بھائیوں کی مہربانی تھی۔ جنہوں نے ایئرپورٹ سے باہر نکلنے کا بھی انتظار نہیں کیا :-s ۔   


26 جون کو عالمی یومِ انسدادِ منشیات منایا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے منشیات کی روک تھام اور سدِ باب کے لئےان گنت پراجیکٹس شروع کر رکھے ہیں۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کا شمار بھی ایسے ہی ممالک میں ہوتا ہے۔ ہیروئن کلچر تو ایک عرصہ پہلے ہی ہمارے ایک عظیم سربراہِ مملکت کی مہربانی سے پاکستان میں قدم جما چکا تھا۔ مزید ترقی یہ ہوئی کہ اب سرنج کے ذریعے منشیات لینے کا طریقہ عام ہو گیا ہے جو ایڈز جیسی مہلک بیماری کی وجہ بھی بن جاتا ہے۔


پچھلےسال اسی دن ایک پاکستانی چینل پر پاکستان میں منشیات کے بارے میں ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اسی پروگرام میں دیگر منشیات کے علاوہ پہلی بار ‘شیشہ’ کے متعلق بھی سنا کہ کچھ عرصہ سے پاکستان میں شیشہ کے نشے کا رحجان بہت بڑھ گیا ہے۔ انہی دنوں کسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر ایک پاکستانی ٹین ایجر کے پروفائل میں بھی شیشہ حقہ کا بطور پسندیدہ مشغلہ ذکر  پڑھا۔ اور یوں میری تحقیق کا آغاز ہوا۔  آج ایک سال بعد یہاں لکھنے کا موقع مل ہی گیا۔


شیشہ ذائقہ دار تمباکو کا نام ہے جو حقے کے ذریعے پیا جاتا ہے۔ اس کا تعلق روایتی طور پر مشرقِ وسطیٰ سے جوڑا جاتا ہے۔ لیکن شیشہ حقہ کی روایت اب تقریبا دنیا بھر میں پھیل چکی ہے۔  عموما اسے اتنا نقصان دہ نہیں سمجھا جاتا لیکن تحقیق  بتاتی ہے کہ شیشہ سگریٹ سے کہیں زیادہ نقصان دہ ہے۔ French anti-tobacco agency (OFT)  کے مطابق شیشہ سگریٹ سے کئی  گنا زیادہ کاربن مونو آکسائیڈ اور ٹار پیدا کرتا ہے۔ سگریٹ ہی کی طرح پینے والے کے علاہ اسی ماحول میں موجود دوسرے لوگ بھی اس آلودگی سے متاثر ہوتے ہیں۔



تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں بھی شیشہ کلچر بطور فیشن پھیل رہا ہے۔ انٹرنیٹ پر مجھے مصر میں شیشہ کے بارے میں ایک مضمون پڑھنے کو ملا جس میں یہ لکھا تھا کہ نوجوان ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی شیشہ کا نشہ کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے بارے میں ایسا ہی کچھ معلوم ہوا کہ شیشہ پینا پاکستانی نوجوانوں میں کس قدر فروغ پا رہا ہے۔ جس طرح نوجوان نسل میں موبائل فون سٹیٹس سمبل ہے اسی طرح چھوٹا موٹا نشہ کرنا بھی Cool :kool ہونے کی نشانی ہے۔ ایک آرٹیکل اسلام آباد میں جناح سپر، میلوڈی اور ایف ٹین جیسی مارکیٹوں میں شیشہ کی کھلم کھلا فروخت کے بارے میں ملا۔ کراچی کی ایک کافی شاپ کے مینجر کے مطابق  جب سے انہوں نے کافی شاپ کے مینو میں شیشہ کا اضافہ کیا ہے، ان کا بزنس سو فیصد منافع میں جا رہا ہے :huh ۔ شاباش دینے کو دل چاہتا ہے۔ اپنی قوم کو بھی اور اپنے اربابِ اختیار کو بھی جن کے سامنے یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور کوئی روک تھام نہیں۔ یعنی اگر ٹین ایجرز کے سگریٹ خریدنے پر پابندی ہے تو شیشہ بھی تو تمباکو ہے۔ اس پر کوئی پابندی کیوں نہیں؟شاید ہماری وزارتِ صحت کی ذمہ داری  صرف منشیات کے عالمی دن کے موقع پر ایک آدھ بیان جاری کر دینے تک محدود ہے۔ اور والدین کی لاپرواہی اس مسئلے کی سنگینی میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ 


  نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اور معاشرے کا انتہائی vulnerable طبقہ بھی۔ جو قومیں اس سرمایے کی حفاظت کا خاطرخواہ بندوبست نہیں کرتیں انہیں روشن مستقبل کی امید بھی نہیں رکھنی چاہئیے۔








:-(

Monday 22 June 2009

ہم کسی سے کم نہیں!

5 comments
زندہ باد پاکستان!!! :pak











اے میرے وطن تیز قدم تیز قدم ہو


فریحہ پرویز، شفقت امانت علی خان



اے میرے وطن تیز قدم تیز قدم ہو
پھر تجھ سے ملائے وہ قدم جس میں کہ دَم ہو

اے میرے وطن تیز قدم تیز قدم ہو
پھر تجھ سے ملائے وہ قدم جس میں کہ دَم ہو
اے میرے وطن، اے میرے وطن!
اے پاک چمن، اے پاک چمن!
اے میرے وطن تیز قدم تیز قدم ہو
پھر تجھ سے ملائے وہ قدم جس میں کہ دَم ہو


جانا ہے ہمیں وقت کی رفتار سے آگے
سورج کی کرن ہم سے نہ پہلے کبھی جاگے
قُوت کے اخُوت کے جو مضبوط ہوں دھاگے
ٹوٹے نہ کبھی عزم نہ ہمت کبھی کم ہو
پھر تجھ سے ملائے وہ قدم جس میں کہ دَم ہو
اے میرے وطن، اے میرے وطن!
اے پاک چمن، اے پاک چمن!
اے میرے وطن تیز قدم تیز قدم ہو
پھر تجھ سے ملائے وہ قدم جس میں کہ دَم ہو

ہر ہاتھ میں اک شمع ہو اور لَو نہ ہو مدھم
دن رات سفر جاری و ساری رہے پیہم
ہرفرد کو ہو ذات سے یہ ملک مقدم
مٹی جو کبھی مانگے دل و جاں تو بہم ہو
پھر تجھ سے ملائے وہ قدم کہ جس میں کہ دم ہو
اے میرے وطن، اے میرے وطن!
اے پاک چمن، اے پاک چمن!
اے میرے وطن تیز قدم تیز قدم ہو
پھر تجھ سے ملائے وہ قدم جس میں کہ دَم ہو


ہر اہلِ وطن چاہے وہ دنیا میں کہیں ہو
ملت کی وہ عزت کا، حمیت کا امیں ہو
اللہ پہ، نبی پہ اُسے ایمان و یقیں ہو
اِس مُلکِ خُدادا پہ مولا کا کرم ہو
اے میرے وطن، اے میرے وطن!
اے پاک چمن، اے پاک چمن!

اے میرے وطن تیز قدم تیز قدم ہو
پھر تجھ سے ملائے وہ قدم جس میں کہ دَم ہو
اے میرے وطن تیز قدم تیز قدم ہو
پھر تجھ سے ملائے وہ قدم جس میں کہ دَم ہو

کلام: ریاض الرحمٰن ساغر


Tuesday 16 June 2009

ناسٹلجیا!!

3 comments
یادش بخیر۔ اس ویڈیو نے کتنے ہی نام یاد کرا دیئے۔

سنگ سنگ چلیں، سہیل رانا، آنگن آنگن تارے، خلیل احمد :)

یہ پاک و روشن وطن ہمارا، ہماری جاں ہے، ہماری جاں ہے



یہ پاک و روشن وطن ہمارا، ہماری جاں ہے، ہماری جاں ہے
یہاں کا ہر رنگ، ہر نظارہ ہماری جاں ہے، ہماری جاں ہے

ہماری آن اور ہماری عزت ہے اس کا پرچم
ہماری شان اور ہماری شوکت ہے اس کا پرچم
جبیں پہ اس کے یہ چاند تارہ ہماری جاں ہے، ہماری جاں ہے
یہ پاک و روشن وطن ہمارا، ہماری جاں ہے، ہماری جاں ہے
یہاں کا ہر رنگ، ہر نظارہ ہماری جاں ہے، ہماری جاں ہے

اسے سجا کر ہم اپنی قسمت سنوار دیں گے
دمکتی کرنوں سے اس چمن کو نکھار دیں گے
یہ روشنی کا حسیں مینارہ ہماری جاں ہے، ہماری جاں ہے
یہ پاک و روشن وطن ہمارا، ہماری جاں ہے، ہماری جاں ہے
یہاں کا ہر رنگ، ہر نظارہ ہماری جاں ہے، ہماری جاں ہے

ہم اپنی محنت سے اس کو رنگِ بہار دیں گے
جو وقت آیا تو اپنی جانیں بھی وار دیں گے
یہاں کا ہر پُھول، ہر شرارہ ہماری جاں ہے، ہماری جاں ہے
یہ پاک و روشن وطن ہمارا، ہماری جاں ہے، ہماری جاں ہے
یہاں کا ہر رنگ، ہر نظارہ ہماری جاں ہے، ہماری جاں ہے

کلام: سیما سحر
گلوکار: نیرہ نور اور بچے
موسیقی: خلیل احمد

Monday 15 June 2009

کھویا ہُوا تو میں بھی ہوں

2 comments
تلاشِ گُم شُدگاں میں نکل چلوں لیکن
یہ سوچتا ہوں کہ کھویا ہُوا تو میں بھی ہوں

رئیس فروغ

Thursday 11 June 2009

سہولت اور ضرورت!

9 comments
آپ جو کوئی بھی ہو پلیز میرے اِس نمبر پر 20 روپے بھیجیں۔ میں ہسپتال میں مصیبت میں ہوں۔ پلیز تم کو اللہ اور رسُول کا واسطہ میرا یقین کرو۔ پلیز 25 روپے پلیز۔
:what :what
میں کسی مشکل میں نہیں ۔ الحمداللہ :) بلکہ پچھلے دنوں جب میں پاکستان میں تھی تو ایک دن ایک انجان نمبر سے یہ پیغام موصول ہوا۔ ظاہر ہے میں حیران بھی ہوئی اور پریشان بھی کہ لوگ کس طرح دوسروں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ اگر اس بندے نے دس لوگوں کو بھی یہ پیغام بھیجا ہو اور ان میں سے صرف دو لوگ ہی جواباً اس کو کریڈٹ بھجواتے ہیں تو ان حضرت کے تو مزے ہو گئے ناں :confused ۔ یقیناً ایسےدرد مند بھی ہوتے ہوں گے جو ایسے ٹیکسٹ کو سچ سمجھ لیتے ہوں۔ میں اس صف میں اس لئے شامل نہیں ہو سکی کہ ایک تو مجھے اس سے ملتی جُلتی ای میلز کا تجربہ تھا اور دوسرا مجھے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ کریڈٹ ٹرانسفر کیسے کرتے ہیں :shy: ۔ بلکہ ابھی بھی نہیں معلوم :hmm: ۔ یہ موبائل کریڈٹ ٹرانسفر کرنے والی ترقی شاید پچھلے کچھ سالوں میں ہوئی ہے۔ تیسرا یہ کہ یہ کہ بھیجنے والے نے شروع میں 20 روپے لکھا اور آخر میں اس کو 25 کر دیا۔ اب جب موصوف یا موصوفہ کو خود ہی نہیں معلوم کہ ان کو کتنی رقم کی ضرورت ہے تو مدد کیا کی جائے :D بہرحال میں نے اس بات کا ذکر گھر میں کیا تو میری کزن کہنے لگیں کہ یہ بہت عام رویہ ہے۔ لوگ بہت زیادہ ایسے ٹیکسٹ بھیجتے ہیں رینڈم نمبرز پر اور کئی سادہ لوح خصوصاً گھریلو خواتین اس بات کو سچ سمجھتے ہوئے فوراً مدد کو تیار ہو جاتے ہیں۔ :-s
پاکستان میں موبائل فونز کا جیسے سیلاب آ گیا ہے۔ اب اس کا استعمال کیسے کیے جاتا ہے اس سے کسی کو غرض نہیں۔ آپ بازار چلے جائیں لوگ بازار سے گزر رہے ہیں اور موبائل فون ان کے ہاتھ میں ہے۔ دکانوں میں بیٹھے ہیں تو فون ان کے پاس ہے۔ بظاہر یہ قابلِ اعتراض بات نہیں ہے لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ بازار سے گزرنے والی یا دکانوں پر آنے والی خواتین کو معلوم بھی نہیں ہوتا اور موبائل فون کیمرہ سے ان کی تصویر اتار لی جاتی ہے اور پھر ملٹی میڈیا میسجنگ زندہ باد۔ لمحوں میں یہ تصویریں کہاں سے کہاں گردش کر رہی ہوتی ہیں۔
یہ تو بات ہوئی صارفین کی۔ موبائل کمپنیاں بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ تین ماہ سے زائد عرصہء قیام میں بلا مبالغہ ہر روز کم از کم تین چار ٹیکسٹ میسج مجھے اپنی موبائل فون کمپنی کی طرف سے موصول ہوتے تھے۔ کسی خاص موقع مثلاً ویلنٹائن ڈے پر یہ تعداد بڑھ بھی جاتی ہے۔ روزانہ ملنے والے پیغامات میں کبھی اپنے دوستوں اور جاننے والوں کو نئے گانے بھیجنے کی ہدایت ہوتی ہے۔ جیسے اگر آپ نے گانا نہ بھیجا تو معلوم نہیں کیا نقصان ہو جائے گا۔ :ohh ویسے اسی بہانے مجھے نئی ہندی فلموں کے نام اور ہٹ گانوں کا تو معلوم ہوتا رہا۔ جنرل نالج میں ٹھیک ٹھاک اضافہ ہوا :daydream ۔ ایسے ہی کبھی love meter کے ذریعے دو لوگوں کے بیچ compatibilty چیک کرنے کو کہا جاتا ہے تو کبھی فون فرینڈشپ کی ترغیب۔ اور یہ ساری باتیں مجھے یہی سوچنے پر مجبور کرتی رہیں کہ کیا ہمارے ہاں کاروباری اخلاقیات بھی کوئی وجود رکھتی ہیں؟ بزنس میں ترقی کے لئے ایسے طریقے استعمال کرنا جس کا براہِ راست اثر افراد کے اخلاق و کردار پر پڑتا ہے کس حد تک درست ہے؟ میرا اندازہ ہے کہ موبائل فون صارفین میں اکثریت نوجوان نسل کی ہے خصوصاً ٹین ایجرز۔ جن کے لئے کسی بات کے مفید یا مُضر ہونے کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر ان کے ذہنوں کو ایسی غیر مفید سرگرمیوں کی طرف متوجہ کر دیا جائے تو نتیجہ کیا ہوگا۔ کچھ حیرت کی بات نہیں کہ آج کل بچے تعلیم اور دیگر صحتمندانہ سرگرمیوں کو چھوڑ کر الٹے سیدھے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ اور سب سے اہم یہ کہ موبائل نیٹ ورک بغیر صارف کی اجازت یا سبسکرپشن کے اسے وقت بے وقت فضول قسم کے ٹیکسٹ کیسے بھیج سکتا ہے؟ :qstn لیکن ظاہر ہے یہ 'ہمارا' پاکستان ہے۔ ہم جب ، جہاں اور جیسے بھی جو چاہے مرضی کر سکتے ہیں :quiet:
موبائل فون رابطے کو بہت آسان بنا دیتا ہے یہ اس کا فائدہ ہے۔ لیکن مجھے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ الٹے سیدھے کاموں میں اس کا استعمال زیادہ ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہمیں سہولت اور ضرورت میں فرق کرنا نہیں آتا۔ ہم نے ایک سہولت کو ضرورت بنا لیا ہے اور پھر اسے منفی انداز میں استعمال کرنا بھی ہمارا ہی خاصہ ہے۔

Tuesday 2 June 2009

میں نعرہء مستانہ: عابدہ پروین

7 comments
میں نعرہء مستانہ: عابدہ پروین
کلام: واصف علی واصف






ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

تجھے آدم نہیں ملتا، خدا کی جستجو کیسی: اسد امانت علی
کلام: ؟؟؟




جہاں بینی کرامت ہے ہماری ، ہم قلندر ہیں
نگاہ ہم سے طلب کر ، کیمیا کی جستجو کیسی