برطانیہ میں کسی بھی پبلک پوائنٹ پر سگریٹ پینے کی ممانعت ہے۔ چنانچہ ایسے مقامات پر سگریٹ نوشی کے لئے مخصوص شیڈز بنا دیئے جاتے ہیں جہاں آپ کو لوگ اجتماعی سگریٹ نوشی کرتے ملتے ہیں۔ جو کہ کافی دلچسپ منظر ہوتا ہے :daydream ۔ گھروں میں بھی عموماؐ لوگ محتاط ہی رہتے ہیں۔ ہمارے ایک جاننے والوں کے گھر پاکستان سے ایک انکل آئے۔اکثر شام کو اپنے گھر کے باہر کھڑے سگریٹ پیتے دکھائی دیتے تھے کیونکہ گھر والوں نے انہیں گھر کے اندر سگریٹ پینے کی اجازت نہیں دی تھی۔ لیکن ہم بھی پاکستانی ہیں ناں تو جہاں تو “قانون” کی اصل والی حکمرانی دکھائی دیتی ہے ہم سے زیادہ بیبا بندہ کوئی نہیں اور جہاں پاکستان کی حدود شروع نہیں ہوئیں سب کچھ بھول گئے۔ اس بار پاکستان آتے ہوئے یہی کچھ ہوا۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر ابھی سب لوگ سامان کے انتظار میں کھڑے تھے کہ ہر طرف “شام ہے دھواں دھواں” کا سماں پیدا ہو گیا جو کہ اسی فلائٹ سے آنے والے چند انکلز اور بھائیوں کی مہربانی تھی۔ جنہوں نے ایئرپورٹ سے باہر نکلنے کا بھی انتظار نہیں کیا :-s ۔
26 جون کو عالمی یومِ انسدادِ منشیات منایا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے منشیات کی روک تھام اور سدِ باب کے لئےان گنت پراجیکٹس شروع کر رکھے ہیں۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کا شمار بھی ایسے ہی ممالک میں ہوتا ہے۔ ہیروئن کلچر تو ایک عرصہ پہلے ہی ہمارے ایک عظیم سربراہِ مملکت کی مہربانی سے پاکستان میں قدم جما چکا تھا۔ مزید ترقی یہ ہوئی کہ اب سرنج کے ذریعے منشیات لینے کا طریقہ عام ہو گیا ہے جو ایڈز جیسی مہلک بیماری کی وجہ بھی بن جاتا ہے۔
پچھلےسال اسی دن ایک پاکستانی چینل پر پاکستان میں منشیات کے بارے میں ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اسی پروگرام میں دیگر منشیات کے علاوہ پہلی بار ‘شیشہ’ کے متعلق بھی سنا کہ کچھ عرصہ سے پاکستان میں شیشہ کے نشے کا رحجان بہت بڑھ گیا ہے۔ انہی دنوں کسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر ایک پاکستانی ٹین ایجر کے پروفائل میں بھی شیشہ حقہ کا بطور پسندیدہ مشغلہ ذکر پڑھا۔ اور یوں میری تحقیق کا آغاز ہوا۔ آج ایک سال بعد یہاں لکھنے کا موقع مل ہی گیا۔
شیشہ ذائقہ دار تمباکو کا نام ہے جو حقے کے ذریعے پیا جاتا ہے۔ اس کا تعلق روایتی طور پر مشرقِ وسطیٰ سے جوڑا جاتا ہے۔ لیکن شیشہ حقہ کی روایت اب تقریبا دنیا بھر میں پھیل چکی ہے۔ عموما اسے اتنا نقصان دہ نہیں سمجھا جاتا لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ شیشہ سگریٹ سے کہیں زیادہ نقصان دہ ہے۔ French anti-tobacco agency (OFT) کے مطابق شیشہ سگریٹ سے کئی گنا زیادہ کاربن مونو آکسائیڈ اور ٹار پیدا کرتا ہے۔ سگریٹ ہی کی طرح پینے والے کے علاہ اسی ماحول میں موجود دوسرے لوگ بھی اس آلودگی سے متاثر ہوتے ہیں۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں بھی شیشہ کلچر بطور فیشن پھیل رہا ہے۔ انٹرنیٹ پر مجھے مصر میں شیشہ کے بارے میں ایک مضمون پڑھنے کو ملا جس میں یہ لکھا تھا کہ نوجوان ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی شیشہ کا نشہ کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے بارے میں ایسا ہی کچھ معلوم ہوا کہ شیشہ پینا پاکستانی نوجوانوں میں کس قدر فروغ پا رہا ہے۔ جس طرح نوجوان نسل میں موبائل فون سٹیٹس سمبل ہے اسی طرح چھوٹا موٹا نشہ کرنا بھی Cool :kool ہونے کی نشانی ہے۔ ایک آرٹیکل اسلام آباد میں جناح سپر، میلوڈی اور ایف ٹین جیسی مارکیٹوں میں شیشہ کی کھلم کھلا فروخت کے بارے میں ملا۔ کراچی کی ایک کافی شاپ کے مینجر کے مطابق جب سے انہوں نے کافی شاپ کے مینو میں شیشہ کا اضافہ کیا ہے، ان کا بزنس سو فیصد منافع میں جا رہا ہے :huh ۔ شاباش دینے کو دل چاہتا ہے۔ اپنی قوم کو بھی اور اپنے اربابِ اختیار کو بھی جن کے سامنے یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور کوئی روک تھام نہیں۔ یعنی اگر ٹین ایجرز کے سگریٹ خریدنے پر پابندی ہے تو شیشہ بھی تو تمباکو ہے۔ اس پر کوئی پابندی کیوں نہیں؟شاید ہماری وزارتِ صحت کی ذمہ داری صرف منشیات کے عالمی دن کے موقع پر ایک آدھ بیان جاری کر دینے تک محدود ہے۔ اور والدین کی لاپرواہی اس مسئلے کی سنگینی میں مزید اضافہ کرتی ہے۔
نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اور معاشرے کا انتہائی vulnerable طبقہ بھی۔ جو قومیں اس سرمایے کی حفاظت کا خاطرخواہ بندوبست نہیں کرتیں انہیں روشن مستقبل کی امید بھی نہیں رکھنی چاہئیے۔
:-(