آپ جو کوئی بھی ہو پلیز میرے اِس نمبر پر 20 روپے بھیجیں۔ میں ہسپتال میں مصیبت میں ہوں۔ پلیز تم کو اللہ اور رسُول کا واسطہ میرا یقین کرو۔ پلیز 25 روپے پلیز۔
:what :what
میں کسی مشکل میں نہیں ۔ الحمداللہ :) بلکہ پچھلے دنوں جب میں پاکستان میں تھی تو ایک دن ایک انجان نمبر سے یہ پیغام موصول ہوا۔ ظاہر ہے میں حیران بھی ہوئی اور پریشان بھی کہ لوگ کس طرح دوسروں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ اگر اس بندے نے دس لوگوں کو بھی یہ پیغام بھیجا ہو اور ان میں سے صرف دو لوگ ہی جواباً اس کو کریڈٹ بھجواتے ہیں تو ان حضرت کے تو مزے ہو گئے ناں :confused ۔ یقیناً ایسےدرد مند بھی ہوتے ہوں گے جو ایسے ٹیکسٹ کو سچ سمجھ لیتے ہوں۔ میں اس صف میں اس لئے شامل نہیں ہو سکی کہ ایک تو مجھے اس سے ملتی جُلتی ای میلز کا تجربہ تھا اور دوسرا مجھے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ کریڈٹ ٹرانسفر کیسے کرتے ہیں :shy: ۔ بلکہ ابھی بھی نہیں معلوم :hmm: ۔ یہ موبائل کریڈٹ ٹرانسفر کرنے والی ترقی شاید پچھلے کچھ سالوں میں ہوئی ہے۔ تیسرا یہ کہ یہ کہ بھیجنے والے نے شروع میں 20 روپے لکھا اور آخر میں اس کو 25 کر دیا۔ اب جب موصوف یا موصوفہ کو خود ہی نہیں معلوم کہ ان کو کتنی رقم کی ضرورت ہے تو مدد کیا کی جائے :D بہرحال میں نے اس بات کا ذکر گھر میں کیا تو میری کزن کہنے لگیں کہ یہ بہت عام رویہ ہے۔ لوگ بہت زیادہ ایسے ٹیکسٹ بھیجتے ہیں رینڈم نمبرز پر اور کئی سادہ لوح خصوصاً گھریلو خواتین اس بات کو سچ سمجھتے ہوئے فوراً مدد کو تیار ہو جاتے ہیں۔ :-s
پاکستان میں موبائل فونز کا جیسے سیلاب آ گیا ہے۔ اب اس کا استعمال کیسے کیے جاتا ہے اس سے کسی کو غرض نہیں۔ آپ بازار چلے جائیں لوگ بازار سے گزر رہے ہیں اور موبائل فون ان کے ہاتھ میں ہے۔ دکانوں میں بیٹھے ہیں تو فون ان کے پاس ہے۔ بظاہر یہ قابلِ اعتراض بات نہیں ہے لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ بازار سے گزرنے والی یا دکانوں پر آنے والی خواتین کو معلوم بھی نہیں ہوتا اور موبائل فون کیمرہ سے ان کی تصویر اتار لی جاتی ہے اور پھر ملٹی میڈیا میسجنگ زندہ باد۔ لمحوں میں یہ تصویریں کہاں سے کہاں گردش کر رہی ہوتی ہیں۔
یہ تو بات ہوئی صارفین کی۔ موبائل کمپنیاں بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ تین ماہ سے زائد عرصہء قیام میں بلا مبالغہ ہر روز کم از کم تین چار ٹیکسٹ میسج مجھے اپنی موبائل فون کمپنی کی طرف سے موصول ہوتے تھے۔ کسی خاص موقع مثلاً ویلنٹائن ڈے پر یہ تعداد بڑھ بھی جاتی ہے۔ روزانہ ملنے والے پیغامات میں کبھی اپنے دوستوں اور جاننے والوں کو نئے گانے بھیجنے کی ہدایت ہوتی ہے۔ جیسے اگر آپ نے گانا نہ بھیجا تو معلوم نہیں کیا نقصان ہو جائے گا۔ :ohh ویسے اسی بہانے مجھے نئی ہندی فلموں کے نام اور ہٹ گانوں کا تو معلوم ہوتا رہا۔ جنرل نالج میں ٹھیک ٹھاک اضافہ ہوا :daydream ۔ ایسے ہی کبھی love meter کے ذریعے دو لوگوں کے بیچ compatibilty چیک کرنے کو کہا جاتا ہے تو کبھی فون فرینڈشپ کی ترغیب۔ اور یہ ساری باتیں مجھے یہی سوچنے پر مجبور کرتی رہیں کہ کیا ہمارے ہاں کاروباری اخلاقیات بھی کوئی وجود رکھتی ہیں؟ بزنس میں ترقی کے لئے ایسے طریقے استعمال کرنا جس کا براہِ راست اثر افراد کے اخلاق و کردار پر پڑتا ہے کس حد تک درست ہے؟ میرا اندازہ ہے کہ موبائل فون صارفین میں اکثریت نوجوان نسل کی ہے خصوصاً ٹین ایجرز۔ جن کے لئے کسی بات کے مفید یا مُضر ہونے کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر ان کے ذہنوں کو ایسی غیر مفید سرگرمیوں کی طرف متوجہ کر دیا جائے تو نتیجہ کیا ہوگا۔ کچھ حیرت کی بات نہیں کہ آج کل بچے تعلیم اور دیگر صحتمندانہ سرگرمیوں کو چھوڑ کر الٹے سیدھے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ اور سب سے اہم یہ کہ موبائل نیٹ ورک بغیر صارف کی اجازت یا سبسکرپشن کے اسے وقت بے وقت فضول قسم کے ٹیکسٹ کیسے بھیج سکتا ہے؟ :qstn لیکن ظاہر ہے یہ 'ہمارا' پاکستان ہے۔ ہم جب ، جہاں اور جیسے بھی جو چاہے مرضی کر سکتے ہیں :quiet:
موبائل فون رابطے کو بہت آسان بنا دیتا ہے یہ اس کا فائدہ ہے۔ لیکن مجھے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ الٹے سیدھے کاموں میں اس کا استعمال زیادہ ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہمیں سہولت اور ضرورت میں فرق کرنا نہیں آتا۔ ہم نے ایک سہولت کو ضرورت بنا لیا ہے اور پھر اسے منفی انداز میں استعمال کرنا بھی ہمارا ہی خاصہ ہے۔
محفوظات
معلومات
یہ بلاگ متلون مزاجی کا بہترین عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ بے ربط سوچوں اور باتوں کا شاہکار نمونہ ہے۔
تازہ تبصرے
حالیہ تحاریر
Translate
Ad Banner
دریچہ ہائے خیال
Way Out!
Thursday 11 June 2009
سہولت اور ضرورت!
فرحت کیانی
6/11/2009 03:41:00 am
9
comments
اس تحریر کو
بےربط سوچیں,
پاکستان,
خیال آرائیاں
کے موضوع کے تحت شائع کیا گیا ہے
9 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کل ہی پاکستان سے واپسی ہوئی اور کم و بیش بالکل اسی طرح کی صورتحال کا سامنا رہا۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سہولت اور ایجاد ہمارے لیے درد سر بن جاتی ہے کیونکہ نہ کسی موبائل فون سروس پرووائڈر کو اس سے کوئی سروکار ہے نہ لوگوں کو اس با ت کی پرواہ کہ وہ دراصل کر کیا رہے ہیں۔
تین ماہ میں اچھا خاصا مشاہدہ ہوگیا آپ کو ماشاء اللہ :) واقعی کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہے، صارفین اور کمپنیز، دونوں ایک سہولت سے ہر طرح فائدہ اٹھانا چاہ رہے ہیں اور کچھ لوگ نادانستگی میں اپنا ہی نقصان کررہے ہیں۔
سیلولر کمپنیز میں سے میرا انتخاب ہمیشہ ٹیلی نار رہی۔ باقی سروسز میں نے مختصر عرصے کے لیے چیک ضرور کیں لیکن سب کے کام بہت چالو ہوتے ہیں۔ ٹیلی نار کی طرف سے ایسے میسجز کم ہی ملتے ہیں۔
ہا ہا
القمونیہ میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔۔
آپ کو بُرا اس لئے لگا کہ آپ کہیں اور سے آئیں تھیں۔ ہمیں تو عادت سی ہو گئی ہے ان میسجز کی ۔۔
شکایت کریں تو بھی کس سے کریں؟
منیر عباسی, کی تازہ تحریر: سی پی ایس پی کے وفد کا دورہ
انتہائی اہم مسئلے کی بارے میں آپ نے لکھا ہے، میں بھی اسطرح کے پیغامات کی وجہ سے پریشان ہوں، کوئی حال نہیں ہے ہمارا۔
محمد وارث, کی تازہ تحریر: مہربان
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری قوم بیک وقر چالاک اور بے وقوف بھی ہے ۔
راشد کامران: بالکل :-( ۔ شاید ایسے ہی حالات میں کہتے ہیں آوے کا آوا ہی بگڑا ہونا۔
عمار ابنِ ضیاء: واقعی۔ بلکہ بہت سی باتوں کے بارے میں اچھا خاصا مشاہدات ہو گئے ہیں۔ نالائقی آڑے آ جاتی ہے ورنہ ہر بات کے بارے میں بلاگ پر لکھنے بیٹھوں تو موضوعات کی کمی نہ ہو :)
یہ تو اچھی خبر ہے کہ کوئی ایک نیٹ ورک تو ایسا ہے جہاں ایسی ٹینشن کچھ کم ہے۔
منیر عباسی: بلاگ پر خوش آمدید :)
شاید آپ درست کہہ رہے ہیں لیکن کچھ برس پہلے تو ایسا کچھ نہیں تھا۔ یہ نئے نئے طریقے اب ہی سامنے آ رہے ہیں۔ :-s
محمد وارث: یہ بھی ایک مسئلہ ہے ناں کہ ہمارے یہاں حقوقِ صارف کا بھی کوئی تصور نہیں ہے۔ چنانچہ ایسے معاملات میں ہم صرف کڑھ ہی سکتے ہیں، شکایت بھی نہیں کر دسکتے۔ :-(
مسٹر کنفیوز: بہترین تجزیہ کیا ہے آپ نے۔ :) بلاگ پر خوش آمدید :)
شکر کریں کہ آپ کہ پاس وہ میسج نہیں آیا جس کے مطابق آپ کو دس لاکھ کا انعام ملتا۔
بقول عاطف اسلم ۔۔۔۔
اب تو عادت سی ہے مجھ کو ایسے جینے کی
:bgrin
:annoy:annoy