Thursday 11 June 2009

سہولت اور ضرورت!

9 comments
آپ جو کوئی بھی ہو پلیز میرے اِس نمبر پر 20 روپے بھیجیں۔ میں ہسپتال میں مصیبت میں ہوں۔ پلیز تم کو اللہ اور رسُول کا واسطہ میرا یقین کرو۔ پلیز 25 روپے پلیز۔
:what :what
میں کسی مشکل میں نہیں ۔ الحمداللہ :) بلکہ پچھلے دنوں جب میں پاکستان میں تھی تو ایک دن ایک انجان نمبر سے یہ پیغام موصول ہوا۔ ظاہر ہے میں حیران بھی ہوئی اور پریشان بھی کہ لوگ کس طرح دوسروں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ اگر اس بندے نے دس لوگوں کو بھی یہ پیغام بھیجا ہو اور ان میں سے صرف دو لوگ ہی جواباً اس کو کریڈٹ بھجواتے ہیں تو ان حضرت کے تو مزے ہو گئے ناں :confused ۔ یقیناً ایسےدرد مند بھی ہوتے ہوں گے جو ایسے ٹیکسٹ کو سچ سمجھ لیتے ہوں۔ میں اس صف میں اس لئے شامل نہیں ہو سکی کہ ایک تو مجھے اس سے ملتی جُلتی ای میلز کا تجربہ تھا اور دوسرا مجھے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ کریڈٹ ٹرانسفر کیسے کرتے ہیں :shy: ۔ بلکہ ابھی بھی نہیں معلوم :hmm: ۔ یہ موبائل کریڈٹ ٹرانسفر کرنے والی ترقی شاید پچھلے کچھ سالوں میں ہوئی ہے۔ تیسرا یہ کہ یہ کہ بھیجنے والے نے شروع میں 20 روپے لکھا اور آخر میں اس کو 25 کر دیا۔ اب جب موصوف یا موصوفہ کو خود ہی نہیں معلوم کہ ان کو کتنی رقم کی ضرورت ہے تو مدد کیا کی جائے :D بہرحال میں نے اس بات کا ذکر گھر میں کیا تو میری کزن کہنے لگیں کہ یہ بہت عام رویہ ہے۔ لوگ بہت زیادہ ایسے ٹیکسٹ بھیجتے ہیں رینڈم نمبرز پر اور کئی سادہ لوح خصوصاً گھریلو خواتین اس بات کو سچ سمجھتے ہوئے فوراً مدد کو تیار ہو جاتے ہیں۔ :-s
پاکستان میں موبائل فونز کا جیسے سیلاب آ گیا ہے۔ اب اس کا استعمال کیسے کیے جاتا ہے اس سے کسی کو غرض نہیں۔ آپ بازار چلے جائیں لوگ بازار سے گزر رہے ہیں اور موبائل فون ان کے ہاتھ میں ہے۔ دکانوں میں بیٹھے ہیں تو فون ان کے پاس ہے۔ بظاہر یہ قابلِ اعتراض بات نہیں ہے لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ بازار سے گزرنے والی یا دکانوں پر آنے والی خواتین کو معلوم بھی نہیں ہوتا اور موبائل فون کیمرہ سے ان کی تصویر اتار لی جاتی ہے اور پھر ملٹی میڈیا میسجنگ زندہ باد۔ لمحوں میں یہ تصویریں کہاں سے کہاں گردش کر رہی ہوتی ہیں۔
یہ تو بات ہوئی صارفین کی۔ موبائل کمپنیاں بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ تین ماہ سے زائد عرصہء قیام میں بلا مبالغہ ہر روز کم از کم تین چار ٹیکسٹ میسج مجھے اپنی موبائل فون کمپنی کی طرف سے موصول ہوتے تھے۔ کسی خاص موقع مثلاً ویلنٹائن ڈے پر یہ تعداد بڑھ بھی جاتی ہے۔ روزانہ ملنے والے پیغامات میں کبھی اپنے دوستوں اور جاننے والوں کو نئے گانے بھیجنے کی ہدایت ہوتی ہے۔ جیسے اگر آپ نے گانا نہ بھیجا تو معلوم نہیں کیا نقصان ہو جائے گا۔ :ohh ویسے اسی بہانے مجھے نئی ہندی فلموں کے نام اور ہٹ گانوں کا تو معلوم ہوتا رہا۔ جنرل نالج میں ٹھیک ٹھاک اضافہ ہوا :daydream ۔ ایسے ہی کبھی love meter کے ذریعے دو لوگوں کے بیچ compatibilty چیک کرنے کو کہا جاتا ہے تو کبھی فون فرینڈشپ کی ترغیب۔ اور یہ ساری باتیں مجھے یہی سوچنے پر مجبور کرتی رہیں کہ کیا ہمارے ہاں کاروباری اخلاقیات بھی کوئی وجود رکھتی ہیں؟ بزنس میں ترقی کے لئے ایسے طریقے استعمال کرنا جس کا براہِ راست اثر افراد کے اخلاق و کردار پر پڑتا ہے کس حد تک درست ہے؟ میرا اندازہ ہے کہ موبائل فون صارفین میں اکثریت نوجوان نسل کی ہے خصوصاً ٹین ایجرز۔ جن کے لئے کسی بات کے مفید یا مُضر ہونے کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر ان کے ذہنوں کو ایسی غیر مفید سرگرمیوں کی طرف متوجہ کر دیا جائے تو نتیجہ کیا ہوگا۔ کچھ حیرت کی بات نہیں کہ آج کل بچے تعلیم اور دیگر صحتمندانہ سرگرمیوں کو چھوڑ کر الٹے سیدھے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ اور سب سے اہم یہ کہ موبائل نیٹ ورک بغیر صارف کی اجازت یا سبسکرپشن کے اسے وقت بے وقت فضول قسم کے ٹیکسٹ کیسے بھیج سکتا ہے؟ :qstn لیکن ظاہر ہے یہ 'ہمارا' پاکستان ہے۔ ہم جب ، جہاں اور جیسے بھی جو چاہے مرضی کر سکتے ہیں :quiet:
موبائل فون رابطے کو بہت آسان بنا دیتا ہے یہ اس کا فائدہ ہے۔ لیکن مجھے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ الٹے سیدھے کاموں میں اس کا استعمال زیادہ ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہمیں سہولت اور ضرورت میں فرق کرنا نہیں آتا۔ ہم نے ایک سہولت کو ضرورت بنا لیا ہے اور پھر اسے منفی انداز میں استعمال کرنا بھی ہمارا ہی خاصہ ہے۔

9 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔