Thursday 26 November 2009

پاکستان اور سوپ ڈرامہ

8 comments
ٹیلی ویژن کسی زمانے میں تفریح کے ساتھ ساتھ تعلیم کا ذریعہ بھی تھا۔ اگرچہ آج بھی ایسا سمجھا جاتا ہے لیکن اگر کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اب سب کچھ تفریح کے گرد ہی گھومتا ہے۔ ٹیلی ویژن چینلز پر ڈرامہ اور سیاست کے علاوہ شاید ہی کچھ نشر کیا جاتا ہے۔ (ویسے تو سیاسی شوز بھی ڈرامہ ہی ہیں)۔ بلکہ میں تو انہیں سٹیج شوز کہوں گی۔ چند مخصوص چہرے، مخصوص سوالات، رٹے رٹائے جوابات ، الزامات اور لڑائیاں۔ مہمان  سیاستدان اداکار ایک سٹوڈیو سے دوسرے کی طرف بھاگتے ہیں اور وہاں پہنچ کر وہی رٹا رٹایا سکرپٹ دہرا دیتے ہیں :daydream :daydream ۔ اول الذکر دیکھنے بیٹھیں تو ایسے ایسے موضوعات اور حالات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ پاکستانی ڈرامے کے سنہری دور میں بھی کوئی مثال موجود نہیں۔ بلکہ یہ جو آئے دن پاکستانی ذرائع ابلاغ پر پابندی کا غلغلہ اٹھتا ہے انہیں میڈیا کی آزادی دیکھنا ہے تو کسی بھی چینل پر کوئی ڈرامہ دیکھ لیں۔ سیٹ، ملبوسات ، موضوع، اداکاری کسی بھی لحاظ سے ہم کسی سے کم نہیں بلکہ بہت آگے نکل رہے ہیں۔ اب معلوم نہیں ہم لوگ بحیثیتِ قوم بہت روشن خیال ہو گئے ہیں :-s یا شاید  پمرا ڈرامہ اور دیگر تفریحی پروگرامز کے لئے کوئی ضابطہ اخلاق نہیں بناتا۔ برطانیہ میں رات دس بجے سے پہلے کوئی ایسا پروگرام نشر نہیں کیا جاتا جسکا دیکھنے والوں خصوصا بچوں پر غیر اخلاقی اثر پڑتا ہو۔ حتیٰ کہ سگریٹ نوشی کرتے ہوئے دکھانے میں بھی احتیاط کی جاتی ہے۔ اور اگر ایسا کوئی پروگرام/ فلم/ ڈرامہ آن ایئر آتا بھی ہے تو شروع ہونے سے پہلے اس کا ذکر کر دیا جاتا ہے۔

کسی زمانے میں صرف سٹار پلس کے سوپ ڈراموں کا بخار ہوتا تھا۔ اب پاکستان میں بھی اس وائرس کا دور دورہ ہے۔  میری بھابھی پنے بھائی کی طرف جاتیں تو باقاعدگی سے اپنے پسندیدہ ڈرامے کی اپڈیٹ لیتیں فون پر :D اس وقت جیو پر سوپ ڈراموں کا سلسلہ نیا نیا شروع ہوا تھا۔ اور مجھے حیرت ہوئی کہ اتنے سالوں بعد بھی وہ ڈرامہ ابھی جاری ہے۔ تقریباتمام کاسٹ تبدیل ہو چکی ہے۔ کہانی بھی عجیب و غریب ہے۔ کبھی کوئی برسوں بعد مردہ سے زندہ ہو جاتا ہے تو کبھی اچانک کوئی ایسا رشتہ دریافت ہو جاتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔  بیچ میں کاسٹ غائب ہوتی جاتی ہے تو بجائے اس کردار کو ختم کرنے کے ایک نیا اداکار بھرتی کر لیا جاتا ہے یوں ایک کردار کئی چہرے بدلتا ہے۔ جس کہانی میں حقیقت کا رنگ بالکل ختم ہو جاتا ہے۔

کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قیام سے اب تک پاکستان میں بھی سوپ ڈرامہ ہی چل رہا ہے۔ وہی سیاست اور سیاست دان، وہی فوج اور وہی فوجی رعب۔ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ ایک جاتا ہے ایک آتا ہے۔ چہرے بدل بھی جائیں لیکن تاریخ میں سب کا ایک ہی کردار ہے کم و بیش۔ :confused

8 comments:

  • 26 November 2009 at 19:01

    سوپ ڈراموں‌کو جس طرح‌ آپ نے ملکی تاریخ پر چسپاں‌کیا ہے وہ خوب ہے!

  • 26 November 2009 at 22:59

    سوپ ڈراموں‌ نے :pak عورتوں کے دماغ کا سوپ بنا دیا ہے۔ :cryin

  • 27 November 2009 at 00:24

    واقعی
    آجکل تو ہماری سیاست میں ”نہلے پر دہلا“ چل رہا ہے
    یا پھر ”جن پہ تکیہ تھا۔۔۔“

  • 3 December 2009 at 09:55
    فرحت کیانی :

    بہت شکریہ۔ :smile ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ دعا ہے کہ مستقبل کچھ مختلف ثابت ہو۔

  • 3 December 2009 at 09:56
    فرحت کیانی :

    اور باقی میڈیا نے پوری قوم کا یہی حشر کیا ہے :-(

  • 3 December 2009 at 09:59
    فرحت کیانی :

    وہی ڈرامہ۔ وہی ڈائیلاگ۔ انکل مشرف بھی یہی کہا کرتے تھے کہ کوئی ان کو وہاں سے نہیں ہٹا سکتا جہاں وہ ہیں۔ اور ان کے بعد آنے والوں کے لہجوں میں بھی ویسی ہی گھن گرج ہے۔ یہ کبھی ختم نہ ہونے والی کہانیاں ہیں۔

  • 10 December 2009 at 15:40

    فرحت عمدہ لکھا ہے اور سوپ اب بڑا ہمہ جہت لفظ ہوتا جا رہا ہے۔ انگریزوں کو چاہیے کہ برصغیر کے لوگ سے سمجھ کر اس لفظ کی تجدید کریں اپنی لغات میں۔

    ویسے آجکل کہاں ہو ، اگر پاکستان میں ہو تو سناؤ ساءیں زرداری نے جو ٹوپی پورے سندھ کو اور کچھ پنجابیوں کو بھی پہنائی ہے تم نے بھی پہ پہن کر دیکھی یا تم بھی ظالم اور جاہل پنجابیوں میں سے ایک ہو جو سندھی ٹوپی کی عظمت اور اجرک کے تقدس کو نیہں سمجھتے۔ویسے تم پنجابیوں کی یہ پرانی عادت ہے کہ چھوٹے صوبوں پر ظلم و جبر کا بازار گرم رکھتے ہو۔

  • 11 December 2009 at 12:22
    فرحت کیانی :

    بہت شکریہ۔ :) بالکل۔ انگریزوں کو ایسا ہی کرنا چاہئیے کہ انگریزی اب انگریزوں سے زیادہ ہماری جاگیر ہو چکی ہے۔
    جی میں پاکستان میں ہوں اور 'محوِ حیرت ہو کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی' یا یوں کہئے انگشت بدنداں ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو چکی ہے :-(
    ٹوپی تو نہیں پہنی کہ پہلے ہی ٹوپی ڈرامہ دیکھ دیکھ کر برے حالات ہیں۔
    ویسے یہ تو ہماری روایات میں شامل ہے کہ بڑا چھوٹوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ پنجاب اور پنجابیوں پر ہی کیا موقوف :shy:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔