Friday 11 December 2009

میں نے یہ جانا!

2 comments
“ہم لوگوں کے لئے یہی ایک مقامِ غور ہے کہ ہم زندگی فرعون کی چاہتے ہیں اور عاقبت موسیٰ کی”
‘گُمنام ادیب۔ واصف علی واصف’









“زندگی غموں اور خوشیوں کا مجموعہ ہے۔ تعلیم کا وسیع ترین مفہوم یہ ہے کہ جسم اور ذہن دونوں کی تربیت ہو اور ایسی متوازن شخصیت تشکیل پائے جو ہر طرح کے حالات میں خود کو سنبھال سکے۔ اور زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ آسانی سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو۔ یہ محض سکول کی پڑھائی اور کتابوں کے علم سے ممکن نہیں۔ اس کا انحصار زیادہ تر ماں کے رویے اور اور تربیت پر ہے۔ ماں کا فرض ہے کہ وہ بچے میں خود نظمی اور کردار کی کی مضبوطی پیدا کرنے میں مدد کرے۔ حقیقی محبت یہ نہیں کہ بچے کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کی جاتی رہے۔ بلکہ یہ ہے کہ اُسے منظم ہونا اور ضرورت کے مطابق حالات کو سمجھنا سکھایا جائے۔”
‘اندرا گاندھی۔ میرا سچ’

2 comments:

  • 11 December 2009 at 12:26

    میں سمجھا تھا کہ آپ لکھ رہی ہیں اور آخر میں حوالہ اسلامی تعلیم کا دیں گی ۔ مگر یہ تحریر اندرا گاندھی کی نکلی ۔ کاش ہندوؤں کی نقالی کرنے والے پاکستانی اندرا گاندھی کے اس بیان پر ہی عمل کر لیں ۔ اسلامی تعلیم سے آراستہ مائیں اپنے بچوں کی تربیت ایسے ہی کرتی ہیں اور اس کی عملی زندہ مثالیں پاکستان ہی میں موجود ہیں

  • 20 December 2009 at 10:32

    زبردست لکھا ہے اور کتنا سچ لکھا ہے۔

    مجھے نپولین کی بات یاد آ گئی ہے کہ

    مجھے اچھی مائیں دے دو میں تمہیں اچھی قوم دے دوں گا۔

    ایک دور تھا جب امام بخاری کی والدہ انہیں دود پلانے سے پہلے وضو کیا کرتی تھیں اور پھر دودھ پلایا کرتی تھیں جس کا نتیجہ سب نے امام بخاری کی شکل میں دیکھا اور ایک ماں ہے سابق آمر اور موجودہ طبلہ نواز جناب استاد مشرف خاں صاحب کی جس نے اپنے بیٹے کی ایسی عمدہ تربیت کی کہ پوری پاکستانی قوم کے لیے نفرت اور بری تربیت کا نشان بن گیا

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔