کسی نے کہا کہ۔۔
“1947ء میں بھی رمضان ماہِ اگست میں تھا اور 2009ء میں بھی رمضان اگست میں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت قوم کو ”ایک مُلک“ کی ضرورت تھی اور آج مُلک کو ”ایک قوم“ کی ضرورت ہے۔ :-s
محفوظات
معلومات
یہ بلاگ متلون مزاجی کا بہترین عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ بے ربط سوچوں اور باتوں کا شاہکار نمونہ ہے۔
تازہ تبصرے
حالیہ تحاریر
Translate
Ad Banner
دریچہ ہائے خیال
Way Out!
Monday 31 August 2009
وقت وقت کی بات!
فرحت کیانی
8/31/2009 05:16:00 am
13
comments
اس تحریر کو
ادھر ادھر سے,
پاکستان
کے موضوع کے تحت شائع کیا گیا ہے
13 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بڑے پتے کی بات کی ہے آپ نے۔ بہت خوب
جہاں تک مجھے یاد ہے پاکستان 27 رمضان المبارک 1366 ھجری کو معرضِ وجود میں آیا تھا جب سب پاکستان کو چاہتے تھے ۔ اب سب پاکستان کی بجائے اپنے آپ کو چاہتے ہیں ۔ اُس وقت مسلمان ایک قوم تھے اور اب ایک ہجوم ہیں
جیسے افتخار صاحب نے کہا ، کہ آجکل ہم بس ایک ہی ہجوم ہی ہیں ۔ :ainko
بجا فرمایا فرحت صاحبہ آپ نے۔
پاکستان کو واقعی قوم کی اور قوم کو مخلص قیادت کی جس قدر ضرورت آج ہے شاید اس سے پہلے نہ تھی۔ لیکن پاکستان میں مخلص قیادت جنسِ نایاب ہوگئی ہے۔
کیانی صاحبہ جس دن یہ ہجوم پھر سے ایک قوم بن گیا تو ایسی کی تیسی ہو جائے گی ۔پھر آپ اپنی یہ پوسٹ بدل دیجئے گا ۔
فرحت کافی دنوں بعد لکھتی ہیں لیکن خوب لکھتی ہیں ۔ کاش ہم یہ سمجھ جاہیں ۔ کہ ہم ایک قوم ہیں ۔ جس نے مل کر اس ملک کو بنانا ہے
اب آپ کیا چاہتی ہیں کہ اس ماہ میں بھی کوئی ریاست الگ ہوجائے؟
جب شیطان بند ہوتا ہے تو اُس کی ڈیوٹی اُس کے پاکستانی بھائی کرتے ہیں جیسا کہ آجکل امتیاز ساب
@میرا پاکستان:
بہت شکریہ۔ کاش کہ ہم لوگوں کو ایسا سوچنے یا کہنے کا کبھی موقع نہ ملتا۔ :-(
@افتخار اجمل بھوپال: درست کہا انکل۔ جب قوم ہم سے میں پر آ جائے تو بس ہجوم ہی باقی رہ جاتا ہے۔
@غفران: مجھے بھی آپ دونوں سے اتفاق ہے۔ بلاگ پر خوش آمدید :)
@محمد احمد: بہت شکریہ احمد۔ نہ جانے یہ مخلص قیادت ہمیں کب اور کیسے میسر آئے گی؟ :-s
@تانیہ رحمان: بہت شکریہ تانیہ۔ یہ تو آپ کا حسنِ نظر ہے :) بہت دنوں بعد لکھنے کی ایک وجہ مناسب الفاظ کی قلت بھی ہوتی ہے :blush:
آپ نے سو باتوں کی ایک بات کہی۔ صرف مُلک حاصل کرنا ہی تو مقصد نہیں تھا۔ مُلک کی سالمیت اور ترقی کے لئے بھی کسی قوم کا قوم ہی رہنا اہم ہے۔
تو کیا ہمیں اس 'ایسی کی تیسی' کی ضرورت نہیں ہے ابھی؟
اللہ وہ وقت جلدی لائے۔ مجھ سمیت بے شمار لوگ اس دن کے انتظار میں ہیں۔ اور وہ دن ایک بہترین دن ہو گا۔ پوسٹ بدلنے کے لئے مجھے جملے کے آخری حصے میں بھی صرف 'ہے' کی بجائے 'تھا' لکھنا ہو گا۔
پہلی بات تو یہ کہ پاکستان کوئی ریاست نہیں تھی جو اپنے مرکز سے الگ ہوئی تھی :dont اور اللہ نہ کرے کہ پاکستان کا کوئی حصہ اب پاکستان سے علیحدہ ہو۔ :pray
شاید آپ کو پڑھنے میں کچھ مغالطہ ہوا ہے :wha ۔ یہ پوسٹ دو مختلف ادوار میں 'قوم' کی اجتماعی صورتحال کا موازنہ ہے۔ 1947ء سے 2009ء تک جو بگاڑ پیدا ہوا ہے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
امتیاز صاحب تو شیطان کی آزادی کے دنوں میں بھی یہی کچھ کر رہے تھے اب ہماری آنکھیں اور کان بند ہوں تو شیطان بیچارے کو الزام کیوں؟
جی بلکل ابھی ضروری نہیں۔
کیونکہ ابھی ضروری ہے۔۔
آٹا
چینی
پیٹرول
اور ہزاروں ضروریاے زندگی کی اشیاء جن کا حصول "ایسی تیسی" سے ضروری ہے ۔ :aah
بجا کہا۔ لیکن یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان اشیائے ضرورت کا حصول ایسی کی تیسی کے بغیر ممکن ہے کیا؟ :what:
آپ ہی کے فوٹو بلاگ پر چند تصاویر دیکھی تھیں افسوس کہ ابھی تبصرہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ وہ تصاویر تو یہی کہتی ہیں کہ اپنا بنیادی حق حاصل کرنے کے لئے ہجوم کا قوم بننا بہت ضروری ہے۔ :confused