Thursday 5 February 2009

نصیب اپنا اپنا

13 comments
پاکستان میں 'اباؤں" کی کافی ورائٹی پائی جاتی ہے۔ جن میں سے چند قابلِ ذکر ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو غیرت کے نام پر بیٹیوں کو زندہ درگور کر کے اپنے سینوں پر فخر کا تمغہ سجایا کرتے ہیں۔ دوسرے جو اپنے جرائم کی بدلے میں ونی کے نام پر بیٹیوں کو بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ بیٹیاں ہوتی کس لئے ہیں بھلا۔  :quiet: لیکن اب کچھ عرصے سے انتہائی مشفق قسم کے ابا بھی سامنے آئے ہیں۔ وہ جو انتہائی حساس عہدے پر فائز ہونے کے باوجود بیٹی کی محبت میں مغلوب ہو کر امتحان میں اس کے نمبر بڑھواتے ہیں اور دوہ بھی جن کی بیٹی کی سالگرہ پر اسمبلی میں مبارکباد کی قرارداد منظور کی جاتی ہے۔ اب بھی اگر لوگ کہیں کہ پاکستان میں لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟  :daydream
قصہ یہ ہے کہ مورخہ تین فروری 2009 کو آصفہ بھٹو زرداری کی سالگرہ کے موقع پر سندھ اسمبلی میں باقاعدہ قراداد منظور کی گئی۔ صوبائی وزیر اطلاعات شازیہ مری نے صدر پاکستان آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کی چھوٹی بیٹی آصفہ بھٹو زرداری کی سالگرہ کے حوالے سے مبارکباد کی قرارداد ایوان میں پیش کی جس کو ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ اور یوں جب جب سندھ اسمبلی کی کاروائی کی تاریخ پڑھی جائے گی۔ آصفہ بھٹو زرداری کا نام بھی جگمگاتا دکھائی دے گا۔ :cn ویسے پاکستانی عوام کو مبارکباد۔ لگتا ہے شہنشائیت کا دور آ گیا ہے پاکستان میں۔ Long Live the King کا نعرہ لگانے کے لئے تیار ہو جائیں۔
آصفہ کی آپی شازیہ مری کو چاہئیے کہ لگے ہاتھوں امریکی صدر براک اوبامہ کی بیٹیوں کو ایک ای میل ہی کر دیں کہ ان کا نام تو صرف ان کے ابا کی حلف برادری کی تقریب میں لیا گیا۔ پاکستانی صدر کی صاحبزادی کی سالگرہ تک بھی اسمبلی میں منائی جاتی ہے۔ تو کس کے اباجان زیادہ بااختیار ہوئے؟  :party

مشرف انکل یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ قوم سے پوچھیں کیا فرق محسوس کیا ہے عوام نے آمریت اور جمہوریت میں؟ آمر کی اماں جی کا ذکر امر ہوا سکول کی نصابی کتب میں تو منتخب صدر کی دختر کا نام محفوظ ہوا اسمبلی کی کاروائی میں۔ کُرسی پائندہ باد!!۔

جاتے جاتے ایک اور قسم یاد آئی۔ مجبور اباؤں کی قسم۔ جن کی بیٹیوں کے سر پر چھت نہیں ہوتی، ان کی درسگاہیں جلا دی جاتی ہیں، اور جو دو وقت کی روٹی مہیا کرنے کے چکر میں  بیٹیوں کی سالگرہ کی تاریخ بھی بُھول جاتے ہیں۔ ان اباؤں کے پاس اپنی بیٹیوں کو قسمت پر صبر و شکر کا سبق دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا کہ ہر بیٹی فرح حمید ڈوگر یا آصفہ تو نہیں ہو سکتی۔

13 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔