ماضی
تعلیمی ادارے: بے غرض اکتسابِ علم
استاد: فرض شناسی ، بے غرضی ، استغنا، قربانی ، نظم، کردار سازی
طلباء: احترام، شوق، لگن ، اخلاق
حال
تعلیمی ادارے: منعفت بخش کاروبار
استاد: مادیت پرستی ، نفع پسندی، فکرِ معاش ، فرائض سے روگردانی
طلباء: بغاوت، روایت شکنی، بے لحاظی ، بے ادبی، علم سے بیزاری
ادارے سرکاری ہوں یا پرائیویٹ ، معلمی پیشہ و کاروبار بن گئی ہے اور تعلیم محض کاغذی ڈگریوں میں اضافے کا ذریعہ۔
محفوظات
معلومات
یہ بلاگ متلون مزاجی کا بہترین عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ بے ربط سوچوں اور باتوں کا شاہکار نمونہ ہے۔
تازہ تبصرے
- اس الجھے ریشم نے سرے تک رسائی کو ممکن بنایا ہوگا۔۔... - نین
- درست کہا۔ انڈین غیر قانونی چینلز کی بندش کے باوجود... - عمران نیر خان
- محمد احمد: یہی تو رونا ہے کہ ہم شریعت کے ایسے حصے ... - فرحت کیانی
- ویسے نیس ویٹا کا مشورہ بہرکیف مفید ہے خصوصاً نیسلے... - محمد احمد
- جب اتنے نازک اور حساس موضوعات سوشل میڈیا پر زیرِ ب... - محمد احمد
Translate
Ad Banner
دریچہ ہائے خیال
Way Out!
Wednesday, 4 February 2009
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام!
فرحت کیانی
2/04/2009 06:51:00 am
3
comments


اس تحریر کو
بےربط سوچیں,
پاکستان,
خیال آرائیاں
کے موضوع کے تحت شائع کیا گیا ہے
3 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
میں زندگی میں صرف یہ دو کام کئے ہیں ۔
بطور استاد: فرض شناسی ، بے غرضی ، استغنا، قربانی ، نظم، کردار سازی
بطور طالب علم : احترام، شوق، لگن ، اخلاق
میں پاس یا فیل ؟ اگر پاس تو کتنے نمبر ؟ :hehe:
افتخار اجمل بھوپال, کی تازہ تحریر: مزید دبئی ۔ عمارات ۔ مرکز للتسویق اور مچھلی گھر
حالیہ رجحانات کی بالکل صحیح تصویر کشی کی ہے آپ نے فرحت، افسوس کہ تعلیم جیسا مقدس پیشہ ایک منفعت بخش کاروبار بن چکا ہے جس میں سب جائز ہے، افسوس صد افسوس!
محمد وارث, کی تازہ تحریر: ابھی تو میں جوان ہوں - حفیظ جالندھری
افتخار انکل: 200 فیصد پاس۔ :D بلکہ جس نے آپ کی طرح دونوں کردار بخوبی نبھائے وہ تو امتیازی نمبروں سے پاس ہوا ناں۔خوش نصیب ہیں وہ استاد جنہیں اچھے شاگرد ملے اور با مراد ہیں وہ شاگرد جنہیں پُرخلوص اساتذہ کی رہنمائی نصیب ہوئی :)
عبدالقدوس: درست کہا۔ لیکن رشوت اور سفارش بھی تو ہمارا ہی دیا ہوا تحفہ ہیں :-(
وارث: بالکل :-( تعلیم کاروبار بن جائے تو کردار سازی کا عمل صفر ہو جاتا ہے۔
دوست: بجا کہا آپ نے :) ۔مادیت پرستی نے معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ مغرب کی اندھا دھند نقالی نجانے ہمیں کہاں لے جائے گی :hmm:
ویسے مغرب کے باسیوں کے لئے کم از کم بنیادی تعلیم مہنگی ہر گز نہیں ہے۔ تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے اور شہری امیر ہے یا غریب۔ اس کا بچہ مالی کمزوری کی بنا پر تعلیم سے محروم نہیں کیا جاتا۔
تدریس پیشہ ضرور ہے لیکن معاشرہ استاد کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں اب اکثر درس و تدریس کو نسبتاً کم درجے کا پیشہ سمجھا جاتا ہے۔