پاکستان میں توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کی ایک سے بڑھ کر ایک مثال ملتی ہے۔ جعلی عامل کبھی ڈبل شاہ اور کبھی خود ساختہ پیر کے روپ میں لوگوں کی دُکھتی رگوں پر ہاتھ رکھ کر ان کو لُوٹتے ہیں اور پھر بھی معتبر رہتے ہیں۔ ان کے معتقدین میں عوام و خواص کی کچھ قید نہیں۔ کوئی اقتدار کے لالچ میں ان کی لاٹھیاں کھانے کو اپنے لئے مبارک تصور کرتا ہے :daydream تو کوئی غربت بیماری اور دیگر مصائب کے خاتمے کے لئے انہیں اپنا نجات دہندہ تصور کرتا ہے :cry: ۔ نتیجتا آئے روز ایسے لرزہ خیز واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔ اس ضعیف الاعتقادی کے زیرِ اثر لوگ اپنی عزت، جان، مال سب کچھ داؤ پر لگا بیٹھتے ہیں۔ لیکن دیکھنے والے پھر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے۔ لوگ اسی طرح بیوقوف بناتے بھی ہیں اور بنتے بھی ہیں۔ :-(
ہمارے پاکستان میں عمومإ بڑی بوڑھیاں کسی کے گھر سے باہر جاتے ہوئے پیچھے سے آواز دینا بُرا شگون تصور کرتی ہیں۔ اسی طرح کالی بلی کے راستہ کاٹنے کو بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا :hmm: ۔ ویسے برطانیہ میں بھی کچھ مقامی لوگ کالی بلی کے بارے میں کچھ ایسا ہی سوچتے ہیں۔ برطانیہ میں ایک اور مزے کا مشاہدہ ہوا۔ اکثر برطانوی آئینے کے گرنے کو کسی مصیبت کی پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔ :D
مجھے یاد ہے پاکستان میں جی ٹی روڈ پر سفر کرتے اکثر دیواروں پر ایسے اشتہارات لکھے دکھائی دیتے تھے۔ ’عامل نجومی۔۔۔۔۔‘ اور ساتھ ہی ان کی کرامات کی تفصیل بھی درج ہوتی تھی۔ اسی طرح اخبار میں خاص طور پر اتوار میگزین میں ایسے اشتہارات دیکھنے کو ملتے تھے۔ زیادہ حیرت یہ جان کر ہوئی کہ ماشاءاللہ برطانیہ میں بھی ایشیائی خصوصا پاکستانی کمیونٹی میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ جتنے دیسی چینلز ہیں وہاں اکثر اشتہارات چل رہے ہوتے ہیں۔ “روحانی سکالر پروفیسر۔۔۔‘ آپ کے تمام مسائل کا حل وغیرہ وغیرہ۔ یا ’۔۔۔۔۔ بنگالی بابا‘۔ تھوڑے ہائی ٹیک لوگ ہیں تو موبائل نمبر کے ساتھ ساتھ ای میل پتہ بھی دیا جاتا ہے۔ سنا ہے کہ لوگ جوق در جوق ان کے “آستانوں” پر حاضری دیتے ہیں۔ اسی طرح کچھ چینلز پر کارڈز کے ذریعے قسمت اور مستقبل کا حال بتایا جاتا ہے۔ ایک پروگرام ہندو مت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کرتی ہیں اور ان کے پروگرام میں فون کرنے والوں میں ہمارے مسلم بہن بھائیوں کی بھی اچھی خاصی اکثریت ہے۔
میں سمجھتی تھی کہ یہ سب شاید برصغیر میں ہی میں دیکھنے کو ملتا ہے لیکن شاید توہم پرستی کسی نہ کسی حد تک انسانی فطرت میں شامل ہے۔ تبھی تو جہاں جائیں کوئی نہ کوئی مثال مل ہی جاتی ہے۔ فرق بس اتنا سا ہے کہ کچھ لوگ معمولی درجے کے توہم پرست ہوتے ہیں اور کچھ اس رویے کو خود پر اتنا سوار کر لیتے ہیں کہ سب کچھ گنوا بیٹھتے ہیں۔ توہم پرستی کو کسی ایک مذہب یا خطے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا۔ کسی معاشرے میں غربت، نا انصافی اور جہالت جس قدر زیادہ ہو گی، اسی قدر ایسے رویے پروان چڑھتے ہیں۔ :-s
کچھ عرصہ پہلے چینل4 پر Dispachtes سلسلے کا پروگرام Saving the witch children of Africa دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جو نائجیریا کی Akwa Ibom State میں عیسائی آبادی کی توہم پرستانہ رویے کی وجہ سے معصوم بچوں پر ہونے والے تشدد کے بارے میں تھی۔ اس علاقے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ خاندان پر آنے والی کسی بھی ناگہانی مصیبت یا کسی کی اچانک موت کے ذمہ دار عموما اس خاندان کا سب سے چھوٹا بچہ ہوتا ہے کیونکہ اس میں شیطانی روح حلول کر جاتی ہے اور ان کے مصائب کا باعث بنتی ہے۔ جس طرح ہمارے یہاں ’جن نکالنے‘ یا ’سایہ دُور کرنے کے لئے‘ جسمانی اور ذہنی تشدد کی انتہا کر دی جاتی ہے، بالکل ایسے ہی ان بچوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یہ اقرار کرانے کے لئے کہ وہ شیطان کے چیلے ہیں اور شیطانی اثر سے دور کرنے کے لئے ان بچوں کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ گھروں سے دور رکھا جاتا ہے اور بعض اوقات موت کے گھاٹ اتارنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ ایک بچی کو پہلے اس کی ماں نے جلا کر مارنے کی کوشش کی اور بعد میں اس پر تیزاب پھینک دیا گیا۔ اسی طرح ایک اور لڑکی کے سر میں لوہے کی کیل ٹھونک دی گئی۔ :cry:
شیطانی اثرات دور کرنے کے عاملوں کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔ ہمارے جعلی پیروں اور عاملوں کی طرح وہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو لوگوں کی ضعیف الاعتقادی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور ان بچوں کو شیطان کے اثر سے آزاد کرانے کے لئے تگڑی رقوم بٹورتے ہیں۔ اسی پروگرام میں ایک خود ساختہ عامل The Bishop دکھایا گیا جو ان بچوں کے کانوں اور آنکھوں میں ایک محلول(جو کہ خالص الکوحل اور اس عامل کے اپنے خون کا مکسچر ہوتا تھا) ڈالتا تھا تاکہ وہ شیطانی آوازیں نہ سن سکیں اور نہ ہی بدروحوں کو دیکھ سکیں۔ اس کام کے لئے وہ رقم وصول کرتا تھا اور جن بچوں کے ورثاء رقم کا بند و بست نہ کر سکیں وہ ان کو اپنے پاس روک لیتا تھا تاوقتیکہ اس کو رقم کی ادائیگی نہ ہو جائے۔ اسی طرح اس نے 100 سے زیادہ بچوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا بھی اعتراف کیا۔
ڈرے سہمے زخمی بچوں کو دیکھنا اتنا تکلیف دہ تھا کہ میں نے یہ پروگرام ایک کے بجائے تین نشستوں میں دیکھا اور پھر بھی آخر تک نہیں دیکھ سکی۔ تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ اس پروگرام کے بعد ایسے مظلوم بچوں کی دادرسی کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات کئے گئے۔ اور کچھ عرصے بعد The Bishop صاحب گرفتار کر لئے گئے اور ان پر قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا :clap
افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کچھ کیوں نہیں ہوتا۔ آئے روز ایسے واقعات سامنے آتے ہیں لیکن وقتی طور پر چھوٹی موٹی کاروائی کر دی جاتی ہے اور ملزموں کو آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ پروگرام دیکھتے ہوئے مجھے وہ واقعہ یاد آ رہا تھا جب ایک جعلی پیر نے ایک مریض کے منہ میں انگارے بھر دیئے تھے۔ تازہ ترین مثال میرپور خاص میں جعلی عامل کے ہاتھوں دو عورتوں کے قتل کی ہے۔ لیکن یہاں تو رات گئی بات گئی والا حساب ہے۔ :quiet:
ہمارے پاکستان میں عمومإ بڑی بوڑھیاں کسی کے گھر سے باہر جاتے ہوئے پیچھے سے آواز دینا بُرا شگون تصور کرتی ہیں۔ اسی طرح کالی بلی کے راستہ کاٹنے کو بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا :hmm: ۔ ویسے برطانیہ میں بھی کچھ مقامی لوگ کالی بلی کے بارے میں کچھ ایسا ہی سوچتے ہیں۔ برطانیہ میں ایک اور مزے کا مشاہدہ ہوا۔ اکثر برطانوی آئینے کے گرنے کو کسی مصیبت کی پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔ :D
مجھے یاد ہے پاکستان میں جی ٹی روڈ پر سفر کرتے اکثر دیواروں پر ایسے اشتہارات لکھے دکھائی دیتے تھے۔ ’عامل نجومی۔۔۔۔۔‘ اور ساتھ ہی ان کی کرامات کی تفصیل بھی درج ہوتی تھی۔ اسی طرح اخبار میں خاص طور پر اتوار میگزین میں ایسے اشتہارات دیکھنے کو ملتے تھے۔ زیادہ حیرت یہ جان کر ہوئی کہ ماشاءاللہ برطانیہ میں بھی ایشیائی خصوصا پاکستانی کمیونٹی میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ جتنے دیسی چینلز ہیں وہاں اکثر اشتہارات چل رہے ہوتے ہیں۔ “روحانی سکالر پروفیسر۔۔۔‘ آپ کے تمام مسائل کا حل وغیرہ وغیرہ۔ یا ’۔۔۔۔۔ بنگالی بابا‘۔ تھوڑے ہائی ٹیک لوگ ہیں تو موبائل نمبر کے ساتھ ساتھ ای میل پتہ بھی دیا جاتا ہے۔ سنا ہے کہ لوگ جوق در جوق ان کے “آستانوں” پر حاضری دیتے ہیں۔ اسی طرح کچھ چینلز پر کارڈز کے ذریعے قسمت اور مستقبل کا حال بتایا جاتا ہے۔ ایک پروگرام ہندو مت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کرتی ہیں اور ان کے پروگرام میں فون کرنے والوں میں ہمارے مسلم بہن بھائیوں کی بھی اچھی خاصی اکثریت ہے۔
میں سمجھتی تھی کہ یہ سب شاید برصغیر میں ہی میں دیکھنے کو ملتا ہے لیکن شاید توہم پرستی کسی نہ کسی حد تک انسانی فطرت میں شامل ہے۔ تبھی تو جہاں جائیں کوئی نہ کوئی مثال مل ہی جاتی ہے۔ فرق بس اتنا سا ہے کہ کچھ لوگ معمولی درجے کے توہم پرست ہوتے ہیں اور کچھ اس رویے کو خود پر اتنا سوار کر لیتے ہیں کہ سب کچھ گنوا بیٹھتے ہیں۔ توہم پرستی کو کسی ایک مذہب یا خطے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا۔ کسی معاشرے میں غربت، نا انصافی اور جہالت جس قدر زیادہ ہو گی، اسی قدر ایسے رویے پروان چڑھتے ہیں۔ :-s
کچھ عرصہ پہلے چینل4 پر Dispachtes سلسلے کا پروگرام Saving the witch children of Africa دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جو نائجیریا کی Akwa Ibom State میں عیسائی آبادی کی توہم پرستانہ رویے کی وجہ سے معصوم بچوں پر ہونے والے تشدد کے بارے میں تھی۔ اس علاقے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ خاندان پر آنے والی کسی بھی ناگہانی مصیبت یا کسی کی اچانک موت کے ذمہ دار عموما اس خاندان کا سب سے چھوٹا بچہ ہوتا ہے کیونکہ اس میں شیطانی روح حلول کر جاتی ہے اور ان کے مصائب کا باعث بنتی ہے۔ جس طرح ہمارے یہاں ’جن نکالنے‘ یا ’سایہ دُور کرنے کے لئے‘ جسمانی اور ذہنی تشدد کی انتہا کر دی جاتی ہے، بالکل ایسے ہی ان بچوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یہ اقرار کرانے کے لئے کہ وہ شیطان کے چیلے ہیں اور شیطانی اثر سے دور کرنے کے لئے ان بچوں کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ گھروں سے دور رکھا جاتا ہے اور بعض اوقات موت کے گھاٹ اتارنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ ایک بچی کو پہلے اس کی ماں نے جلا کر مارنے کی کوشش کی اور بعد میں اس پر تیزاب پھینک دیا گیا۔ اسی طرح ایک اور لڑکی کے سر میں لوہے کی کیل ٹھونک دی گئی۔ :cry:
شیطانی اثرات دور کرنے کے عاملوں کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔ ہمارے جعلی پیروں اور عاملوں کی طرح وہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو لوگوں کی ضعیف الاعتقادی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور ان بچوں کو شیطان کے اثر سے آزاد کرانے کے لئے تگڑی رقوم بٹورتے ہیں۔ اسی پروگرام میں ایک خود ساختہ عامل The Bishop دکھایا گیا جو ان بچوں کے کانوں اور آنکھوں میں ایک محلول(جو کہ خالص الکوحل اور اس عامل کے اپنے خون کا مکسچر ہوتا تھا) ڈالتا تھا تاکہ وہ شیطانی آوازیں نہ سن سکیں اور نہ ہی بدروحوں کو دیکھ سکیں۔ اس کام کے لئے وہ رقم وصول کرتا تھا اور جن بچوں کے ورثاء رقم کا بند و بست نہ کر سکیں وہ ان کو اپنے پاس روک لیتا تھا تاوقتیکہ اس کو رقم کی ادائیگی نہ ہو جائے۔ اسی طرح اس نے 100 سے زیادہ بچوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا بھی اعتراف کیا۔
ڈرے سہمے زخمی بچوں کو دیکھنا اتنا تکلیف دہ تھا کہ میں نے یہ پروگرام ایک کے بجائے تین نشستوں میں دیکھا اور پھر بھی آخر تک نہیں دیکھ سکی۔ تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ اس پروگرام کے بعد ایسے مظلوم بچوں کی دادرسی کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات کئے گئے۔ اور کچھ عرصے بعد The Bishop صاحب گرفتار کر لئے گئے اور ان پر قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا :clap
افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کچھ کیوں نہیں ہوتا۔ آئے روز ایسے واقعات سامنے آتے ہیں لیکن وقتی طور پر چھوٹی موٹی کاروائی کر دی جاتی ہے اور ملزموں کو آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ پروگرام دیکھتے ہوئے مجھے وہ واقعہ یاد آ رہا تھا جب ایک جعلی پیر نے ایک مریض کے منہ میں انگارے بھر دیئے تھے۔ تازہ ترین مثال میرپور خاص میں جعلی عامل کے ہاتھوں دو عورتوں کے قتل کی ہے۔ لیکن یہاں تو رات گئی بات گئی والا حساب ہے۔ :quiet: