آمریت ہو یا جمہوریت۔ حالات بدلتے ہیں تو صرف حکمرانوں کے۔ پاکستانی عوام کے لئے ۲۰۰۷ اور ۲۰۰۸ ایک سے ہیں۔
غلام بستی
چار سُو اندھیرے ہیں، روشنی نہیں ملتی
غربتوں کے ڈیرے ہیں، زندگی نہیں ملتی
بے بسی کے آنگن میں اب خودی نہیں ملتی
راستہ محبت کا بند اک گلی جیسا، نفرتوں کی وسعت میں
وہ گلی نہیں ملتی۔۔۔ زندگی نہیں ملتی۔۔۔۔۔ زندگی نہیں ملتی
بھوک اور عسرت کا درد جھیلتے ہیں ہم
بے بسی، غلامی کی راہ کھولتے ہو تم
راکھ اور شعلوں کا کھیل کھیلتے ہو تم
جس غلام بستی کو، زیرِ بار بستی کو
غربتوں کے مسکن کو، بے بسی کے آنگن کو
تم نے "فتح" کر ڈالا (واہ، کیا بہادر ہو!)
خود ہی تم بناتے ہو۔۔۔
اس غلام خلقت کی ہڈیوں کے ڈھانچوں پر، بدنصیب تربت پر
اپنے اونچے چوبارے
خود ہی پھر گراتے ہو، خاک یوں اڑاتے ہو
روز تم جلاتے ہو، اِس غلام بستی کے سر بریدہ تن ، جن کو
راکھ پھر بناتے ہو، (راکھ اور شعلوں کا کھیل کھیلتتے ہو تم!)
راکھ بھی ہماری ہی کام آ رہی ہے آج
ایک اور بم لے لے
اس غلام بستی کو، زیرِ بار بستی کو
غربتوں کے مسکن کو ، بے بسی کے آنگن کو
پھر سے تُو "فتح" کر لے، اس غلام بستی کو!
جس غلام بستی کے چار سُو اندھیرے ہیں
اور ان اندھیروں میں
روشنی نہیں ملتی۔۔۔روشنی نہیں ملتی۔۔۔
(عینی سیدہ)
آپ نے بھی سائبر ایکٹسے ڈرنا چھوڑ دیا :P
عبدالقدوس’s last blog post..دنیا کا مستقبل
اسلام علیکم
لاجواب نظم ہے
بھوک اور عسرت کا درد جھیلتے ہیں ہم
عسرت ع سے لکھا جاتا ہے کہ ح سے
شعیب خالق بلوچ’s last blog post..بارش کا سیزن
حقیقت کتنی تلخ ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔!
شعیب سعید شوبی’s last blog post..بش کو جوتے لگائیں!
بہت اچھی نظم ہے ۔
شکاری’s last blog post..ملائکہ کا ہمارے ساتھ گزرا وقت
بہت خوب۔۔۔ دلچسپ!
فرحت!
عینی سیدہ نے حقیقت کی ترجمانی خوب کی ہے۔ یہ یہیں پاکستان میں ہوتی ہیں؟
@شکاری: :)
@عمار ابنِ ضیاء:
میرے خیال میں عینی سیدہ شاید پاکستان میں ہی ہوتی ہوں گی۔ نظم سے تو ایسا ہی لگتا یے۔ ویسے یہ نظم میں نے ’جنگ‘ میں پڑھی تھی۔