Tuesday 11 November 2008

ہنسی کھنکتی ہوئی(نیرہ نور)

0 comments


ہنسی کھنکتی ہوئی
یا بُجھی بُجھی خوشیاں
ہیں دوستی کی مہک سے
یہ رچی ہوئی گھڑیاں
مزہ انوکھا سا
آتے جاتے لمحوں میں
کتابیں گود میں پھیلی
ہیں کھوئے باتوں میں
رفاقتوں میں خزانہ
جو ہم نے پایا ہے
نہ دل پہ بوجھ ہے کوئی
نہ غم کا سایہ ہے


ہمیں یہ دُھن ہے کہ خوشبو
کو ہم تو دیکھیں گے
یقین ہے کہ ستاروں کو
بڑھ کے چُھو لیں گے
کھلا یہ راز بچھڑنا
بھی تھا بہاروں کو
کسی کے ہاتھ نہیں
چُھو سکے ستاروں کو
کبھی دریچوں میں شمعیں
جو ہم جلاتے ہیں
تو گیت لہجے خیالوں
میں گنگناتے ہیں

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔