Monday 29 July 2013

Monday Blues!!

0 comments



سوال یہ ہے کہ



Friday 26 July 2013

ہمارا ٹی وی

3 comments
یہ تحریر بھی گزشتہ دو سالوں سے ڈرافٹس میں پڑی تھی۔ آج پوسٹ کرنے کا وقت مل ہی گیا۔ 

چند دن پہلے میری ممانی اور کزنز ہمارے گھر آئی ہوئی تھیں۔ میری کزن ٹی وی چینلز براؤز کرنے لگی اور کچھ دیر بعد کچن میں آ کر نہایت تشویش ناک انداز میں پوچھا۔ آپ لوگوں کے ٹی وی پر سٹار پلس نہیں آتا۔ میری بھابھی جان نے فوراً جواب دیا کہ کیوں نہیں آتا۔ آتا ہے اور ہم دیکھتے بھی ہیں۔ انداز ایسا تھا جیسے سٹار پلس نہ دیکھنا شاید بہت ہی شرمندگی کا باعث ہے۔ بہرحال میری کزن نے جب یہ بتایا کہ ابھی تو یہ چینل آپکے لاؤنج والے ٹی وی پر نہیں آ رہا تو میری اماں جان اور بھابھی کی نگاہوں کا زاویے و انداز بدلے اور ان غضب ناک نگاہوں کا فوری نشانہ میں بنی۔ کیونکہ ان کے خیال میں جب ریموٹ میرے ہاتھ میں ہوتا ہے تو میں انہیں نہ تو کوئی ڈرامہ دیکھنے دیتی ہوں بلکہ اکثر چینل ڈیلیٹ بھی کر دیتی ہوں اور ان کو پھر سیٹ کرنا پڑتا ہے۔ (حالانکہ یہ ڈیلٹ والا کام میرے بھائی صاحب کرتے ہیں۔ جن کے اپنے ٹی وی پر تمام چینلز آ رہے ہوتے ہیں(
خیر اس بار میں نے کچھ نہیں کیا تھا سٹار پلس ویسے ہی نہیں آ رہا تھا۔ میں نے اپنی ازلی ڈھٹائی سے کام لیتے ہوئے جواباً غیر ملکی چیلنز کے خلاف ایک لمبی تقریر جھاڑی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ ڈرامے ہمارے کلچر سے میل نہیں کھاتے اور جذبہ حب الوطنی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کے چینلز دیکھیں وغیرہ وغیرہ۔
اس ساری تقریر کے جواب میں سامعین و حاضرین کے جو ردِ عمل تھا وہ کچھ یوں ہے۔
کزن: (صدمے سے گُم ہوتی آواز میں)۔۔ ان ڈراموں میں بھلا کیا ہے۔ اتنی اچھی تو کہانیاں ہوتی ہے۔ ایک ہی فیملی کے گرد گھومتی ہے۔
میں: جی ہاں۔ بلکہ ایک ہی ہال میں کھڑے کھڑے دس قسطیں گزر جاتی ہیں۔ اور ایک ہی بندہ پوری قسط میں یا بولتا رہتا ہے یا روتا رہتا ہے۔ ایک اور بندہ یا باقیوں کو گھورتا رہتا ہے یا دانت پیس کر اپنے خطرناک ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے منصوبے بناتا رہتا ہے۔ اور اس بارے میں ساعری دنیا جان جاتی ہے صرف وہ جس کے خلاف سازش کی جا رہی ہوتی ہے سامنے کھڑے ہو کر بھی بے خبر رہتا ہے۔
ممانی: چھوڑو ساری باتیں۔ دعا کرو چینل جلدی واپس آ جائے۔ میں تو پچھلی دو قسطیں نہیں دیکھ سکی۔ سادھنا بیچاری کے ساتھ پتہ نہیں کیا ہوا ہو گا؟ آپا (میری امی سے) اس کی ساس کو دیکھا ہے کتنی ظالم ہے۔
میں (بھابھی سے): اور دیکھیں یہ ڈرامے۔ ممانی اِن ڈائریکٹلی آپ کی ساس کو ظالم ہونے کا مشورہ دے رہی ہیں۔
بھابھی: نہیں سادھنا کے ساتھ واقعی اس ڈرامے میں بہت ظلم ہو رہا ہے۔
میں: یہ سادھنا صاحبہ آخر ہیں کون؟
کزن: ایک ڈرامہ ہے بدھائی۔ اس میں دو کزنز ہوتی ہیں۔ ایک بہت پیاری دوسری ذرا گہری رنگت والی۔ دونوں کی شادی ایک ہی گھر ہوتی ہے۔ دوسری والی پر سسرال والے بہت ظلم کرتے ہیں۔
میں: کہیں یہ وہی ڈرامہ تو نہیں ہے جو آج سے دو سال پہلے جب میں پاکستان آئی ہوئی تھی تو آپ لوگ دیکھتی تھیں؟
بھابھی (انتہائی پُرجوش انداز میں): بالکل وہی ہے۔ میں نے تمھیں کہانی بھی سنائی تھی اس کی۔
میں: جو قوم دو دو سال انتہائی بور ڈرامے اتنے شوق سے دیکھ سکتی ہے وہ واقعی بور قسم کے  
حکمرانوں کو بھی عرصہ دراز تک برداشت کر سکتی ہے۔
 ( صد افسوس کہ میرے اس تاریخی جملے کو ان لوگوں نے صاف نظر انداز کر کے فوری طور پر ماضی کا فراموش شدہ قصہ بنا دیا )۔ 
:( 
ممانی (غصے سے): تم اپنا فلسفہ اپنے پاس رکھا کرو۔اور چینل سیٹ کرو۔  ہمارا ڈرامہ مس ہو رہا ہے۔
میں: لیکن آپ پاکستانی پروگرام کیوں نہیں دیکھتیں۔ ان میں کیا برائی ہے اور سٹار پلس میں کیا اچھائی ہے۔
بھابھی: تو اپنے چینلز پر بھی یہی کچھ چل رہا ہے بلکہ ایسا کچھ چل رہا ہے کہ دیکھنے والا سمجھ نہیں پاتا کہ یہ پاکستانی ڈرامہ ہی ہے اور اگر ہے تو اس میں ہمارا معاشرہ کہاں ہے؟ ہماری روایات کہاں ہیں تو جب ادھر بھی یہی دیکھ رہے ہیں تو دوسرے چینلز دیکھنے میں کیا حرج ہے؟ 

اس بات پر بہت طویل بحث ہوئی اور آخر میں میں نے سب کو یہی کہا کہ اس کا حل یہ ہے کہ آپ ٹیلی ویژن دیکھنا ہی چھوڑ دیں اور اس وقت کو کہیں اور استعمال کریں۔ جواباؐ مجھے جن نظروں سے گھورا گیا اور جو باتیں سنائی گئیں ان کا ذکر نہ بھی کروں تو سب کو اندازہ ہو گا ہی۔ 
لیکن ان لوگوں کی باتیں کچھ ایسی غلط بھی نہیں تھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے زیادہ تر پروگرامز نہ تو ہمارے معاشرے کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے لئے کوئی اخلاقی حدود کی قید ہے۔ ڈرامہ دیکھیں یا کوئی اور پروگرام ۔ یا تو آپ دس پندرہ منٹ سے زیادہ ٹیلی ویژن کے سامنے ٹک نہیں سکیں گے یا اگر مستقل مزاجی سے بیٹھے رہے تو استغفر اللہ اور لاحول کا ورد کرتے رہیں گے اور ساتھ ساتھ اپنا خون جلاتے رہیں گے۔ 
ویسے اس بات کا کریڈٹ بھی ان چینلز کے کرتا دھرتا یوں لے سکتے ہیں کہ ان کی وجہ سے کتنے لوگ توبہ استغفار کرتے ہیں۔ میری تو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت اور عقل سے نوازیں کہ ہم روشن خیالی کے چکر میں جو اپنی ہی جڑیں کھوکھلی کئے جا رہے ہیں ، ہمیں اس کا اندازہ ہو جائے۔

Wednesday 24 July 2013

اَج دا دن!

0 comments
سورج چڑھیا پچ تُوں تے پُورب آن کھلویا
اَج دا دن وی ایویں لنگیا، کوئی وی کم نہ ہویا

۔۔۔منیر نیازی

Thursday 18 July 2013

سلام ٹیچر!!!!

6 comments
یہ پوسٹ پچھلے کچھ عرصہ سے ڈرافٹس میں پڑی تھی۔ آج پوسٹ کر رہی ہوں کہ آج ہی اپنی یونیورسٹی کی طرف ای میل ملی ہے اور یادوں کا ایک نیا دریچہ کُھل گیا۔

۔ 
کچھ عرصہ پہلے میرے کزن کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں اور ان دنوں پاکستان میں میرا چھوٹا بھائی 'جیو' کا کردار ادا کرتے ہوئے لمحہ بہ لمحہ خبریں ہم تک پہنچاتا تھا۔ ایک دن اس نے لکھا کہ آج امی اور تائی اماں ہماری ہونے والے بھابھی کو ملنے گیئں تھیں اور واپسی پر دونوں ان کی بہت تعریف کر رہی تھیں۔ اس کے بعد اس نے وہ جملہ لکھا جسے ہم نے متفقہ طور پر 'سنہری الفاظ' تسلیم کر لیا۔ اس نے لکھا' ویسے میری نامعقول رائے میں شادی سے پہلے اور مرنے کے بعد ہر کسی کی تعریفیں ہوتی ہیں۔' اور اب میں سوچتی ہوں کہ واقعی ایسا ہے۔ ہم دوسروں کی اچھائی کا اعتراف کرنے یا ان کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اکثر اس وقت کا انتظار کرتے ہیں جب وہ ہم سے دور ہو جائیں۔ میں بھی ایسی ہی ہوں۔ بہت دنوں سے سوچ رہی تھی کہ ان سب کا شکریہ ادا کروں جنہوں نے مجھے زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھایا۔ لیکن یہ سوچ شاید سوچ رہتی اگر کل رات مجھے وہ خبر نہ ملتی جس نے مجھے شدید اداس کر دیا ہے۔ استاد کے بارے میں اگر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیں فرش سے عرش تک لے جاتا ہے تو اس میں کچھ مبالغہ نہیں۔ مائیک رڈل  بھی ایک ایسا ہی استاد تھا جس کا شاگرد ہونا ہی بڑی بات اور اچھا شاگرد ہونے کی سند حاصل کر لینا بہت بڑا اعزاز تھا۔ اور یہ اعزاز مجھے حاصل ہوا۔ مائیک سے میں نے اپنے پوسٹ گریجویشن میں ڈیزائن کی کلاس پڑھی۔
یونیورسٹی میں اتفاق سے  میری پہلی کلاس ہی مائیک کے ساتھ ہوئی۔ کلاس شروع ہونے سے کچھ پہلے ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ اور میری کورس لیڈر نے مائیک سے میرا تعارف کروایا تو اس وقت یونیورسٹی میں میرا پہلا دن تھا۔ جب میری کلاسز شروع ہوئیں تو میں پاکستان میں تھی اور میرے برطانیہ واپس پہنچنے تک ہماری کلاسز شروع ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔پہلی کلاس ڈیزائن کی تھی۔ استادِ محترم سے تعارف تو کلاس شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے ہو چکا تھا لیکن سب کے آنے کے بعد باضابطہ طور پر نئے آنے والوں سے تعارف کے لئے کہا گیا۔ مجھ سے پہلے ایک نائجیریئن بھائی نے اپنے بارے میں بتایا اور اختتام اس جملے کے ساتھ کیا 'اور میں عیسائی ہوں'۔ اگلی باری میری تھی۔ میں نے اپنا تعارف کروایا اور جیسے ہی میں خاموش ہوئی مائیک نے میرے سر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ 'اور میں دیکھ سکتا ہوں کہ تم مسلمان ہو۔' ان دنوں برطانوی ایم پی جیک سٹرا کا برطانوی مسلم خواتین کے نقاب کے بارے میں متنازعہ بیان پر بہت لے دے ہو رہی تھی۔ مائیک نے بھی اسی حوالے سے مجھ سے یہ بات کہی۔ اب مجھے تو بقول میرے قریبی افراد کے بولنے کا موقع ملنا چاہئیے۔ اللہ دے اور بندہ لے۔ سو میری تقریر شروع ہو گئی حجاب ، اسلام اور جیک سٹرا کے بیان پر۔ اور جب رکی تو مائیک نے مسکراتے ہوئے کہا۔ شاباش مجھے لگتا ہے تمہیں 'آرگیومنٹ اور کاؤنٹر آرگیومنٹ' کا کانسپٹ کافی حد تک معلوم ہے۔ ڈیزرٹیشن (تھیسس( کرنے میں تمہیں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ یہ آغاز تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ استادِ محترم اپنے شاگردوں سے کوئی بھی بات بلامقصد نہیں کرتے بلکہ اس کے ڈانڈے کسی نہ کسی طور ان کی کلاس اور مضمون سے ضرور ملتے ہیں۔ ہفتے میں دو دن کلاس اور دو دن ٹیوٹوریلز ہوتے تھے اور اگرچہ ان چار دنوں میں تین تین گھنٹے کی کلاس کے بعد ہم سب کے سر درد کی شدت سے پھٹ رہے ہوتے تھے لیکن اب میں سوچتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ جتنا میں نے ان کلاسز میں سیکھا شاید ہی کسی اور جگہ سے سیکھا ہو۔ پہلے دن ہونے والی بحث سے مجھے یوں لگا تھا جیسے میرے لئے یہ کلاس اٹینڈ کرنا سب سے مشکل ہو گا لیکن پھر یوں ہوا کہ آخری سٹودںٹس-فیکلٹی میٹنگ میں اعتراف کر رہی تھی کہ مائیک رڈل نے مجھے بات کو پرکھنا اور اپنا نقطہ نظر بہتر طریقے سے پیش کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ اور یہ اللہ کے کرم کے بعد مائیک ہی کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ تھا کہ میری ہر اسائنمنٹ اور کام بہترین ہوتا گیا۔ میں شاید اپنے استاد کا اس طرح شکریہ نہیں ادا کر پائی جیسا کہ کرنے کا حق تھا۔ اور اب تو شاید کبھی بھی نہیں کر سکوں گی۔ لیکن جو کچھ میں نے سیکھا اور اب اسے اپنی عملی زندگی میں اس سے فائدہ اٹھا رہی ہوں وہ بھی شاید شکریہ اور احسانمندی کی ایک قسم ہے۔ مائیک ایک دہریہ بھی تھا اور مجھے نہیں معلوم کہ مجھے ایک دہریے کے لئے کیا دعا کرنی چاہئیے لیکن وہ میرا استاد بھی تھا۔ ایک ایسا استاد جس نے نظریاتی و مذہبی اختلاف ہونے کے باوجود مجھے بہترین طریقے سے پڑھایا اور سکھایا۔ تھینک یو مائیک۔ 
۔  I owe a lot of my success to your input. How could I possibly thank you enough!!!!

واپسی!!!!

10 comments
بہت دن گزر گئے دریچہ وا کئے۔ جب آپ کے پاس احساسات و خیالات کی تو فراوانی ہو لیکن ساتھ ساتھ الفاظ کا شدید قحط ہو تو شاید ایسا ہی جمود طاری ہو جاتا ہے جیسا کہ دریچہ پر پچھلے کچھ عرصہ سے ہے۔ صورتحال ابھی بھی نہیں بدلی لیکن کوشش ضرور کرنی ہے کہ کچھ نہ کچھ لکھا جا سکے۔ رمضان کا ایک عشرہ اختتام کو پہنچا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مبارک مہینے کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائیں اور رمضان کی اصل روح سمجھنے کی توفیق بھی دیں۔ آمین۔ اس حوالے سے بھی بہت کچھ ذہن میں آ رہا ہے لیکن اتنے عرصے کے بعد بلاگ پر پہلی پوسٹ ہے اس لئے آغاز شکایت اور مایوسی سے نہیں کرنا چاہتی۔ اس لئے اس پوسٹ کو اگلے کسی دن کے لئے چھوڑا جاتا ہے۔ :)

زندگی اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ اخبار پڑھنے کو موقع مجھے صرف صبح دفتر آتے ہوئے ملتا ہے۔ اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب دل چاہتا ہے کہ کوئی خوش آئند اور دلچسپ بات بھی پڑھنے کو ملے تا کہ مشکلات اور حالات پر مبنی خبریں اور تبصرے پڑھنے کے بعد طبیعت پر چھایا تکدرپن  کسی حد تک دور ہو جائے۔ اس لئے اخبار کا ایک مخصوص حصہ میں ہمیشہ بچا کر رکھتی ہوں اور جب گاڑی دفتر کی حدود میں داخل ہوتی ہے تو میں وہ حصہ پڑھتی ہوں اور طبیعت دوبارہ سے ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔ ڈان نیوز پیپر کے اندرونی صفحات (میٹروپولیٹین) کے نچلے حصے میں جو خصوصاؐ گیمبولز اور بےبی بلیوز پڑھ کر بے اختیار چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔
لیکن کل اس سے بھی بڑھ کر ایک دلچسپ خبر پڑھنے کو ملی۔ سوچا بلاگ لکھنے کا آغاز اس خبر سے کیا جائے۔

خبر کے مطابق راولپنڈی میں اینٹی کرپشن ایسٹیبلیشمنٹ کے سپیشل جج نے نرسنگ میں جعلی میٹرک کی ڈگری جمع کروا کر داخلہ لینے والی ایک  طالبہ کو جیل جانے کی روایتی سزا دینے کی بجائے اسے ایک سکول میں بغیر تنخواہ کے پڑھانے کی سزا سنائی۔ اب یہ خاتون ایک سرکاری سکول میں دو سال تک ہفتے میں تین دن پڑھانے جایا کریں گی اور سکول کی پرنسپل ان کی کارکردگی کو مانیٹر کریں گی۔ مجھے یہ سزا دلچسپ بھی لگی اور اچھی بھی کہ شاید اس طرح اس خاتون کو یہ اندازہ ہو کہ پڑھ کر ڈگری حاصل کرنا کتنا ضروری ہے اور دوسرا بچوں کو پڑھاتے ہوئے شاید ان کو بھی اخلاقیات اور قانون پسندی سے کچھ تعارف ہو جائے۔ کئی ممالک میں سزائیں ایسی ہی دی جاتی ہیں خصوصاؐ نوجوانوں کو جہاں وہ سوشل ورک کرتے ہیں۔ بنیادی مقصد ان کی شخصیت میں مثبت تبدیلی لانا ہوتا ہے۔ اب اس طالبہ میں کتنی تبدیلی آئے گی اور وہ سزا کس حد مکمل کرے گی یہ تو نہیں معلوم لیکن جج صاحب کا فیصلہ کم از کم مجھے بہت اچھا بھی لگا ہے اور دلچسپ بھی۔ کہ اگر جیل کی سزا ہوتی تو جس طرح ہماری جیلوں کے حالات ہیں وہاں اس لڑکی کی شخصیت میں مزید بگاڑ کے امکانات کافی زیادہ تھے۔ اب اگر اس کے اندر معمولی سی بھی مثبت تبدیلی آ جاتی ہے تو میرے خیال میں یہ بہت بڑی بات ہو گی۔