Thursday 18 July 2013

واپسی!!!!

10 comments
بہت دن گزر گئے دریچہ وا کئے۔ جب آپ کے پاس احساسات و خیالات کی تو فراوانی ہو لیکن ساتھ ساتھ الفاظ کا شدید قحط ہو تو شاید ایسا ہی جمود طاری ہو جاتا ہے جیسا کہ دریچہ پر پچھلے کچھ عرصہ سے ہے۔ صورتحال ابھی بھی نہیں بدلی لیکن کوشش ضرور کرنی ہے کہ کچھ نہ کچھ لکھا جا سکے۔ رمضان کا ایک عشرہ اختتام کو پہنچا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مبارک مہینے کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائیں اور رمضان کی اصل روح سمجھنے کی توفیق بھی دیں۔ آمین۔ اس حوالے سے بھی بہت کچھ ذہن میں آ رہا ہے لیکن اتنے عرصے کے بعد بلاگ پر پہلی پوسٹ ہے اس لئے آغاز شکایت اور مایوسی سے نہیں کرنا چاہتی۔ اس لئے اس پوسٹ کو اگلے کسی دن کے لئے چھوڑا جاتا ہے۔ :)

زندگی اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ اخبار پڑھنے کو موقع مجھے صرف صبح دفتر آتے ہوئے ملتا ہے۔ اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب دل چاہتا ہے کہ کوئی خوش آئند اور دلچسپ بات بھی پڑھنے کو ملے تا کہ مشکلات اور حالات پر مبنی خبریں اور تبصرے پڑھنے کے بعد طبیعت پر چھایا تکدرپن  کسی حد تک دور ہو جائے۔ اس لئے اخبار کا ایک مخصوص حصہ میں ہمیشہ بچا کر رکھتی ہوں اور جب گاڑی دفتر کی حدود میں داخل ہوتی ہے تو میں وہ حصہ پڑھتی ہوں اور طبیعت دوبارہ سے ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔ ڈان نیوز پیپر کے اندرونی صفحات (میٹروپولیٹین) کے نچلے حصے میں جو خصوصاؐ گیمبولز اور بےبی بلیوز پڑھ کر بے اختیار چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔
لیکن کل اس سے بھی بڑھ کر ایک دلچسپ خبر پڑھنے کو ملی۔ سوچا بلاگ لکھنے کا آغاز اس خبر سے کیا جائے۔

خبر کے مطابق راولپنڈی میں اینٹی کرپشن ایسٹیبلیشمنٹ کے سپیشل جج نے نرسنگ میں جعلی میٹرک کی ڈگری جمع کروا کر داخلہ لینے والی ایک  طالبہ کو جیل جانے کی روایتی سزا دینے کی بجائے اسے ایک سکول میں بغیر تنخواہ کے پڑھانے کی سزا سنائی۔ اب یہ خاتون ایک سرکاری سکول میں دو سال تک ہفتے میں تین دن پڑھانے جایا کریں گی اور سکول کی پرنسپل ان کی کارکردگی کو مانیٹر کریں گی۔ مجھے یہ سزا دلچسپ بھی لگی اور اچھی بھی کہ شاید اس طرح اس خاتون کو یہ اندازہ ہو کہ پڑھ کر ڈگری حاصل کرنا کتنا ضروری ہے اور دوسرا بچوں کو پڑھاتے ہوئے شاید ان کو بھی اخلاقیات اور قانون پسندی سے کچھ تعارف ہو جائے۔ کئی ممالک میں سزائیں ایسی ہی دی جاتی ہیں خصوصاؐ نوجوانوں کو جہاں وہ سوشل ورک کرتے ہیں۔ بنیادی مقصد ان کی شخصیت میں مثبت تبدیلی لانا ہوتا ہے۔ اب اس طالبہ میں کتنی تبدیلی آئے گی اور وہ سزا کس حد مکمل کرے گی یہ تو نہیں معلوم لیکن جج صاحب کا فیصلہ کم از کم مجھے بہت اچھا بھی لگا ہے اور دلچسپ بھی۔ کہ اگر جیل کی سزا ہوتی تو جس طرح ہماری جیلوں کے حالات ہیں وہاں اس لڑکی کی شخصیت میں مزید بگاڑ کے امکانات کافی زیادہ تھے۔ اب اگر اس کے اندر معمولی سی بھی مثبت تبدیلی آ جاتی ہے تو میرے خیال میں یہ بہت بڑی بات ہو گی۔ 




10 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔