Wednesday 26 May 2010

ہماری قانون پسندی اوراخلاقیات

7 comments
کسی بھی قانون کے بنانے کا مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوتا جب تک اس کی مکمل پابندی نہ کی جائے۔ لیکن ہمارے ہاں معاملہ کچھ الٹا ہے۔ شاید ہمارا یقین اس بات پر ہے کہ قانون تو بنتا ہی توڑنے کے لئے ہے۔ اور اس توڑ پھوڑ میں عوام و خواص دونوں برابر کے شریک ہیں۔ جس کے لئے جہاں ممکن ہوتا ہے وہ قانون کی خلاف ورزی کا اعزاز حاصل کر لیتا ہے۔ بہرحال ایک جگہ ایسی بھی میں نے دیکھی جہاں سب نہایت صبر اور سکون سے قانون کی پابندی کر رہے ہیں۔ یہ جگہ تھی ملتان۔ جہاں پچھلے دنوں جانے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ ہمارے ہر دلعزیز المعروف پیر و مرشد وزیرِ اعظم صاحب کے خاندان والے جس کالونی میں رہ رہے ہیں اس کے اردگرد پرندہ تو شاید پر مار لے اور چاروں اطراف کھڑے قانون کے محافظین کی عقابی نظروں سے بچ جائے لیکں انسانوں کا اس طرف سے گزرنا منع ہے۔ ٹریفک کے لئے بھی یہی پابندی ہے اور لوگ ہنسی خوشی (چاہے جبری ہی سہی) طویل راستہ اختیار کر کے سوئے منزل سفر کرتے ہیں۔ میں چونکہ ایک درد مند دل رکھنے والی سچی پاکستانی شہری ہوں اس لئے سوچتی ہوں کہ کیا ہی اچھا ہو کہ وزیرِ اعظم صاحب اور ان کے معتمدان جنہوں نے یہ قانون بنایا اور پھر اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا، پورے پاکستان کا دورہ کریں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ورکشاپس لیں تاکہ وہ بھی اپنا کام بہتر طریقے سے کر سکیں۔ ایک اور قانون یہ بھی ہے کہ اس کالونی میں 'لوڈ شیڈنگ' پر بھی پابندی ہے گویا تپتے ہوئے ملتان کا یہ گوشہ ایک 'نخلستان' ہے۔
خیر یہ تو ہمارا اپنا ملک ہے۔ ہماری مرضی ہم جیسے چاہیں رہیں۔ لیکن بین الاقوامی قوانین توڑنے میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے۔ باقی ساری باتیں ایک طرف۔ پاکستان کے دو بہت بڑے اداروں ، جن کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے، میں یہ دیکھا کہ پورے ادارے میں تمام کے تمام کمپیوٹرز پائریٹڈ ونڈوز اور آفس پروگرامز استمعال کر رہے ہیں۔ جب 30-40 روپے کی سی ڈیز مل جا تی ہیں تو کس کو پڑی ہے کہ اصلی سافٹ ویئر خریدنے جائے۔ ویسے بھی ہمارا قومی بجٹ پورا نہیں پڑتا اور اس پر ہم مزید بوجھ ڈال دیں کہ ہر چیز جینئوئن خریدے۔ یہ تو پھر حب الوطنی کے تقاضے کی سراسر نفی ہو گی۔
یہ سب کچھ لکھنے کا خیال اس لئے آیا کہ کل ایک کانفرنس اٹینڈ کرنے کا اتفاق ہوا جس میں انتہائی پڑھے لکھے اور بااختیار پالیسی میکرز نے شرکت کی اور جب وہاں پر کسی نے یہ نقطہ بیان کیا کہ پاکستان کے دور دراز کے علاقوں میں جہاں سہولیات بہت کم ہیں اور شرح خواندگی بھی بہت کم ہے ، وہاں سکولوں اور کالجز میں پڑھانے والے اساتذہ کو جدید تدریسی طریقوں ، تعلیم اور تعلم کے نظریے اور بچوں کی نفسیات سے متعلق نئی کتب یا مواد فراہم کیا جائے تو وہ زیادہ بہتر طریقے سے پڑھا سکیں گے۔ اس کے جواب میں جو بحث شروع ہوئی وہ ایسی ہی تھی جیسی ہمارے ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز میں ہوا کرتی ہے یعنی بے سر و پیر۔ اور پھر چلتے چلتے بات آن لائن لائبریریز تک پہنچی۔ کسی نے کہا آن لائن اکثر کتابیں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے کچھ رقم ادا کرنی پڑتی ہے جس کے جواب میں پاکستان سے باہر سے پڑھ کر آنے والے ایک حضرت نے بتایا کہ ایسا کاپی رائیٹڈ مواد کے لئے ہوتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر ارشاد فرمایا 'لیکن ہمیں اس سے کیا۔ ہم ٹورنٹس کے ذریعے یہ ساری کتابیں اپنے پاس ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں' ۔ پھر انہوں نے بہت مفصل انداز میں ٹورنٹس کے ذریعے کاپی رایئٹڈ مواد ڈاؤن لوڈ کرنے کا طریقہ بیان کیا۔ اور سب نے یوں سُکھ کا سانس لیا کہ ایک غریب ملک کے امیر ادارے نے کتنی رقم بچا لی۔ اس دوران میرا وہی حال تھا جو سرگم ٹائم میں ماسی مصیبتے کا ہوتا تھا جو مارے حیرانگی کے میں ٹھوڑی پر انگلی رکھ کر ہٹانا بھول جاتی تھی۔ کہ اس بحث سے کچھ پہلے ہی طلباء کو اخلاقیات سکھانے کی ضرورت پر زور و شور سے گفتگو کی گئی تھی۔ قول و فعل کے تضاد کی اس قدر عملی مثال میں نے شاید پہلی بار دیکھی ہے۔

7 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔