Sunday 20 September 2009

یہ عید دل شکن ہے!

6 comments

 

اے چاند آج تجھ کو ہم داغِ دل دکھائیں

برسوں سے رنج و غم کا جو حال ہے سُنائیں

یہ عید دل شکن ہے ہم عید کیا منائیں

 

ہیں ظلم و یادتی کے سب ماہ و سال وہی

ہونٹوں پہ ثبت تشنہ لاکھوں سوال وہی

ٹوٹے دلوں کو خوشیاں کیا عید کی لبھائیں

یہ عید دل شکن ہے ہم عید کیا منائیں

 

خوشحال ہیں گداگر ، ہیں موج میں سوداگر

رکھتے ہیں سیم و زر سے بھر بھر کے روز گاگر                                               

کم مائیگی پر اپنی، ہم دل پہ تیر کھائیں

یہ عید دل شکن ہے ہم عید کیا منائیں

 

زوروں پہ ڈاکے ناکے ، اس پہ ستم دھماکے

اس شہرِ بے اَماں سے کیا لائیں ہم کما کے

بے طاقتوں کو طاقت والے نہ چیر کھائیں

یہ عید دل شکن ہے ہم عید کیا منائیں

 145557_news_image

شیطان کی خطائیں اب تو لگیں ہیں چھوٹی

لگتی ہے زنگ خوردہ سچائی کی کسوٹی

معراجِ آدمیت پھر کس طرح سے پائیں

یہ عید دل شکن ہے ہم عید کیا منائیں

 

کلام: نجمہ یاسمین یوسف

6 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔