پچھلے ہفتے پہلی بار آزاد کشمیر جانا ہوا۔ سفر اتنا طویل نہیں تھا لیکن شدید گرمی اور جی ٹی روڈ سے ہٹ کر کسی سڑک پر سفر کرنے کا تصور پہلے ہی تھکن کا احساس دلا رہا تھا۔ بہرحال پانی، کھانے پینے وغیرہ کا ٹھیک ٹھاک بندوبست کیا اور راونہ ہوئے۔ یہ اور بات ہے کہ چھوٹی سڑک جی ٹی روڈ سے بھی زیادہ اچھی حالت میں تھی چنانچہ سفر آرام اور خیریت سے گزر گیا۔ میزبانوں نے اس قدر مہمان نوازی کی کہ مجھے یہ کہنا چاہئیے کہ یہ میری زندگی کی یادگار مہمان نوازیوں میں سے ایک تھی۔ واپسی پر بھی سفر مزے میں گزرا۔ اگرچہ تھکن نہ ہونے کے برابر تھی پھر بھی اپنے گھر کے راستے پر پہنچتے ہہی سکون اور اطمینان کی لہر دل میں دوڑ گئی۔ گھر والوں نے بھی یوں استقبال کیا جیسے ہم لوگ کوئی دشوار گزار راستہ طے کر کے آئے ہیں لہٰذا خوب خاطریں کرائیں اور اگلا پورا دن آرام کرنے میں گزرا۔ ویسے سفر اس لحاظ سے بھی اچھا تھا کہ چھمب جوڑیاں اور افتخار آباد، جہاں 1971ء میں جنرل افتخار کا طیارہ گرا تھا، کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں۔ :)
یہ تو تھی میرے سفر کی داستان۔ اور ایک سفر وہ بھی ہے جو اپنے ہی ملک میں ہجرت پر مجبور اہلیانِ سوات کر رہے ہیں۔ جنہیں سفر پر نکلنے سے پہلے نہ تو اس کی طوالت کا اندازہ ہے اور نہ منزل و عارضی پڑاؤ کی خبر۔ زادِ راہ ساتھ رکھنا تو کجا، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ واپسی کب ہوگی یا ہو گی بھی کہ نہیں۔ جو حکومت کے مہمان ہیں لیکن ان کے میزبانوں خود تو ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے ہیں اور مہمانوں کو شدید گرمی میں بٹھا چھوڑا ہے۔ اور جن کے ایسے ہموطن بھی ہیں جو مصیبت کی اس گھڑی میں ان کی مدد کرنے کے بجائے اپنے دروازے ان پر بند کر دیتے ہیں۔ اگر ہمارا اپنا یہ حال ہے تو غیروں سے کیا امید رکھنی :quiet:
اور ان مسافروں کی تھکن کا اندازہ کون کر سکتا ہے جو سفر پر نکلنے سے قبل یہ بھی جانتے ہوں کہ جب وہ واپس لوٹیں گے تو ان کے گھرکھنڈرات میں بدل چکے ہوں گے۔ :cry:
محفوظات
معلومات
یہ بلاگ متلون مزاجی کا بہترین عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ بے ربط سوچوں اور باتوں کا شاہکار نمونہ ہے۔
تازہ تبصرے
حالیہ تحاریر
Translate
Ad Banner
دریچہ ہائے خیال
Way Out!
Wednesday 27 May 2009
سفر در سفر
فرحت کیانی
5/27/2009 03:19:00 am
4
comments
اس تحریر کو
خیال آرائیاں
کے موضوع کے تحت شائع کیا گیا ہے
4 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
خُوب دریچہ کھولا ہے آپ نے ۔ کیا موازنہ کیا ہے ۔ یعنی زندگی جنت اور جہنم میں کیسی ہوتی ہے ۔
ناراض نہیں ہونا ۔ میں نے جب آپ کی تحریر کا پہلا فقرہ پڑھا تو مجھے تاؤ آ گیا تھا کہ کیسی لڑکی ہے جو میرے جنت نظیر علاقے کو کیا کہہ رہی ہے ۔ بی بی ۔ میں جموں کشمیر کا رہنے والا ہوں ۔ خود تعریفی اچھی چیز نہیں ہے بس یوں سمجھ لیں کہ ہم جاہل لوگ ہیں ۔ ہم میں سے وہ لوگ جو پچھلے 60 سال سے جموں کشمیر سے باہر رہ رہے ہیں ان پر نئی تہذیب نے اب تک کچھ اثر نہیں کیا تو جو لوگ ابھی تک وہیں رہ رہے ہیں اُن پر کیا اثر ہو گا ۔
نہیں انکل۔ میرا ہر گز ایسا کوئی مطلب نہیں تھا۔ میں تو گھر کے سکون اور طویل سفر کی صعوبتوں کی بات کر رہی تھی۔ کشمیر کے جنتِ ارضی ہونے سے کون انکار کر سکتا ہے اور جیسے میں نے کہا کہ یہ میرے لئے ایک یادگار سفر تھا۔ خواہ وہ خوبصورت نظارے ہوں یا مہمان نواز میزبان۔ کسی بھی جگہ کچھ کمی نہیں دیکھی :) :)
بہت مختصر لکھی اپنے سفر کی داستان آپ نے :)
محمد وارث: مختصر لکھنے کی ایک وجہ عدیم الفرصتی بھی ہے۔ موقع ملا تو کبھی تفصیل سے لکھوں گی اس بار کا سفر نامہ :)