Saturday 2 August 2008

مسجدِ قرطبہ

3 comments

علامہ محمد اقبال کو میں نے سکول کے زمانے سے پڑھنا شروع کیا تھا۔ لیکن تب مجھے لگتا تھا کہ کیونکہ وہ ہمارے قومی شاعر ہیں اس لیے ان کے شعر پڑھنا اور یاد کرنا ہمارا قومی فرض ہے :D ۔ بہرحال جب الفاظ میں چھپے معانی سمجھ آنے لگے تو معلوم ہوا کہ اقبال کی شاعری اصل میں ہے کیا!

‘بالِ جبریل‘ میں شامل ‘مسجدِ قرطبہ‘ میری پسندیدہ نظم ہے۔ اس کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی ٹائم مشین مجھے بھی اسی دور میں لے گئی ہے جب اقبال نے مسجدِ قرطبہ دیکھی اور یہ شاہکار نظم تخلیق کیا۔

مسجدِ قرطبہ
(ہسپانيہ کي سرزمين ، بالخصوص قرطبہ ميں لکھي گئي)


سلسلہء روز و شب ، نقش گِر حادثات
سلسلہء روز و شب ، اصلِ حيات و ممات
سلسلہء روز و شب ، تارِ حريرِ دو رنگ
جس سے بناتي ہے ذات اپني قبائے صفات
سلسلہء روز و شب ، سازِ ازل کي فغاں
جس سے دکھاتي ہے ذات زيروبمِ ممکنات
تجھ کو پرکھتا ہے يہ ، مجھ کو پرکھتا ہے يہ
سلسلہء روز و شب ، صيرفي کائنات
تو ہو اگر کم عيار ، ميں ہوں اگر کم عيار
موت ہے تيري برات ، موت ہے ميري برات
تيرے شب وروز کي اور حقيقت ہے کيا
ايک زمانے کي رَو جس ميں نہ دن ہے نہ رات
آني و فاني تمام معجزہ ہائے ہنر
کارِ جہاں بے ثبات ، کارِ جہاں بے ثبات!
اول و آخر فنا ، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کُہن ہو کہ نَو ، منزلِ آخر فنا
ہے مگر اس نقش ميں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کيا ہو کسي مردِ خدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حيات ، موت ہے اس پر حرام
تند و سبک سير ہے گرچہ زمانے کي رَو
عشق خود اک سيل ہے ، سيل کو ليتاہے تھام
عشق کي تقويم ميں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھي ہيں جن کا نہيں کوئي نام
عشق دمِ جبرئيل ، عشق دلِ مصطفيٰ
عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام
عشق کي مستي سے ہے پيکرِ گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام ، عشق ہے کاس الکرام
عشق فقيہِ حرم ، عشق اميرِ جنود
عشق ہے ابنِ السبيل ، اس کے ہزاروں مقام
عشق کے مضراب سے نغمہء تارِ حيات
عشق سے نورِ حيات ، عشق سے نارِ حياتb
اے حرمِ قرطبہ! عشق سے تيرا وجود
عشق سراپا دوام ، جس ميں نہيں رفت و بود
رنگ ہو يا خِشت و سنگ ، چنگ ہو يا حرف و صوت
معجزہء فن کي ہے خونِ جگر سے نمود
قطرہء خونِ جگر ، سل کو بناتا ہے دل
خونِ جگر سے صدا سوز و سرور و سرود
تيري فضا دل فروز ، ميري نوا سينہ سوز
تجھ سے دلوں کا حضور ، مجھ سے دلوں کي کشود
عرشِ معليٰ سے کم سينہء آدم نہيں
گرچہ کفِ خاک کي حد ہے سپہرِ کبُود
پيکرِ نوري کو ہے سجدہ ميسر تو کيا
اس کو ميسر نہيں سوز و گدازِ سجود
کافرِ ہندي ہوں ميں ، ديکھ مرا ذوق و شوق
دل ميں صلٰوۃ و درُود ، لب پہ صلٰوۃ و درود
شوق مري لَے ميں ہے ، شوق مري نے ميں ہے
نغمہء 'اللہ ھُو' ميرے رَگ و پے ميں ہے
تيرا جلال و جمال ، مردِ خدا کي دليل
وہ بھي جليل و جميل ، تُو بھي جليل و جميل
تيري بِنا پائدار ، تيرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا ميں ہو جيسے ہجومِ نخيل
تيرے در و بام پر واديِ ايمن کا نور
تيرا منارِ بلند جلوہ گہِ جبرئيل
مٹ نہيں سکتا کبھي مرد مسلماں کہ ہے
اس کي اذانوں سے فاش سًرِ کليم و خليل
اس کي زميں بے حدود ، اس کا افق بے ثغور
اس کے سمندر کي موج ، دجلہ و دنيوب و نيل
اس کے زمانے عجيب ، اس کے فسانے غريب
عہدِ کہن کو ديا اس نے پيامِ رحيل
ساقيِ اربابِ ذوق ، فارسِ ميدانِ شوق
بادہ ہے اس کا رحيق ، تيغ ہے اس کي اصيل
مرد سپاہي ہے وہ اس کي زرہ 'لا اِلہ'
سايہء شمشير ميں اس کہ پنہ 'لا اِلہ'
تجھ سے ہوا آشکار بندہء مومن کا راز
اس کے دنوں کي تپش ، اس کي شبوں کا گداز
اس کا مقامِ بلند ، اس کا خيالِ عظيم
اس کا سرور اس کا شوق ، اس کا نياز اس کا ناز
ہاتھ ہے اللہ کا بندہء مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفريں ، کارکشا ، کارساز
خاکي و نوري نہاد ، بندہء مولا صفات
ہر دو جہاں سے غني اس کا دلِ بے نياز
اس کي اميديں قليل ، اس کے مقاصد جليل
اس کي ادا دل فريب ، اس کي نگہ دل نواز
نرم دمِ گفتگو ، گرم دمِ جستجو
رزم ہو يا بزم ہو ، پاک دل و پاک باز
نقطہء پرکارِ حق ، مردِ خدا کا يقيں
اور يہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
عقل کي منزل ہے وہ ، عشق کا حاصل ہے وہ
حلقہء آفاق ميں گرمي محفل ہے وہ
کعبہء اربابِ فن! سطوتِ دينِ مبيں
تجھ سے حرم مرتبت اندلسيوں کي زميں
ہے تہِ گردوں اگر حسن ميں تيري نظير
قلبِ مسلماں ميں ہے ، اور نہيں ہے کہيں
آہ وہ مردان حق! وہ عربي شہسوار
حاملِ ' خلقِ عظيم' ، صاحب صدقِ و يقيں
جن کي حکومت سے ہے فاش يہ رمزِ غريب
سلطنتِ اہلِ دل فقر ہے ، شاہي نہيں
جن کی نگاہوں نے کی تربیتِ شرق و غرب
جن کے لہو کے طفیل آج بھی ہیں اندلسی
خوش دل و گرم اختلاط، سادہ و روشن جبیں
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشمِ غزال
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں
بوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے
رنگِ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے
دیدہء انجم میں ہے تیری زمیں، آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے
عشقِ بلا خیز کا قافلہء سخت جاں!
دیکھ چکا المنی ، شورشِ اصلاحِ دیں
جس نے نہ چھوڑے کہیں نقشِ کہن کے نشاں
حرفِ غلط بن گئی عصمتِ پیر کنشت
اور ہوئی فکر کی کشتیء نازک رواں
چشمِ فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب
جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں
ملتِ رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر
لذتِ تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں
روحِ مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب
رازِ خدائی ہے یہ ، کہہ نہیں سکتی زباں
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا!
وادیِ کہسار میں غرقِ شفق ہے سحاب
لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
سادہ و پُرسوز ہے دخترِ دہقاں کا گیت
کشتیء دل کے لیے سیل ہے عہدِ شباب
آبِ روانِ کبیر!× تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالمِ نو ہے ابھی پردہء تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرہء افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
جس سے نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روحِ اُمم کی حیات کشمکشِ انقلاب
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
۔۔۔۔۔
× وادا الکبیر، قرطبہ کا مشہور دریا جس کے قریب ہی مسجدِ قرطبہ واقع ہے۔

(محمد اقبال)

مسجدِ قرطبہ: ملکہ پکھراج، طاہرہ سید



غلام علی نے بھی اس نظم کا کچھ حصہ گایا ہے ۔

3 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔