Tuesday 28 August 2007

ٹرین اور میں

19 comments

سکول کے زمانے میں جب بھی کوئی مضمون لکھنا پڑتا تھا، موضوع خاص اہمیت کا حامل ہوتا تھا میرے لئے کہ من پسند موضوع ہوتا تو ذہن اور قلم دونوں خود بخود رواں ہو جاتے تھے۔ "میرا یادگار سفر" ایک ایسا مضمون تھا جو سکول سے لیکر کالج تک تقریبا ہر کلاس کے سلیبس میں شامل ہوتا تھا۔۔اور چونکہ مجھے ایسے کسی سفر کا تجربہ نہیں تھا تو ٹیچر گرامر کی کتاب سےپڑھنے کو کہہ دیتی تھیں۔۔مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ "شوق قواعدِ اردو" اور "شوق انگلش گرامر" دونوں میں ہمیشہ ریل گاڑی کے سفر کو ہی یادگار قرار دیا جاتا تھا۔۔میں جب بھی اس مضمون کو اپنی ذہنی لائبریری میں منتقل کرنے کی کوشش کرتی تھی تو عقلی دلائل کے آگے بے بس ہو جاتی تھی کہ بی بی! تم نے کہاں ریل کا سفر کیا ہے؟۔۔جوابی دلیل ہوتی کہ بچپن میں کوئٹہ اور پنجاب کے درمیان سفر ریل گاڑی میں ہی کئے ہیں ناں۔۔کیا ہوا جو اماں کی گود میں کمبل میں لپٹے ہوئے کیے۔۔۔
میرا اماں سے ایک ہی گلہ ہوتا تھا کہ ہمارے بہت بچپن میں تو آپ نے بلوچستان اور پنجاب کو راولپنڈی اسلام آباد بنا رکھا تھا اور جب ہم نے ہوش سنبھالا تو مستقل پنجاب میں ہی ڈیرا ڈال لیا۔۔جواب ملتا۔۔"یہ بات اپنے والدِ محترم سے پوچھو۔۔۔کہ وہ اپنی پوسٹنگ کوئٹہ میں کیوں نہیں کروا لیتے۔۔"
ابا سے بھی اکثر پوچھا لیکن یہی جواب ملا ہمیشہ کہ بیٹا جی! اپنی پڑھائی مکمل کرو۔۔اسی لئے تو ہم نے مستقل پوسٹنگ اپنے شہر میں کروائی ہے۔۔(کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔۔)
قصہ مختصر کہ عمرِعزیز کے اتنے سارے(اب تو گنے بھی نہیں جاتے) سال گزرنے کے باوجود ہم ابھی تک اس شہر کو دیکھ نہیں پائے جہاں ہم نے آنکھ کھولی تھی اور اس دنیامیں تشریف لائے تھے۔۔ہم سے اچھے تو انکل مشرف ہوئے ناں جو سرحد پار اپنی جنم بھومی کا دیدار تو کر آئے۔۔
خیر واپس آتے ہیں ٹرین کے سفرپر۔۔۔۔معلوم نہیں کون سی قبولیت کی گھڑی تھی جب ہم نے کہا ہو گا کہ کاش ہم بہ نفسِ نفیس خود ٹرین کا سفر کریں اور پھر اس پر مضمون لکھ سکیں۔۔رحمتِ باری تعالیٰ جوش میں آئی اور اب یہ حالات ہیں کہ ہر دوسرے روز شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ٹرین کا سفر کرنا پڑتا ہے۔۔"واہ مالک! تُو بھی بے نیاز ہے۔۔"
اور مزے کی بات یہ ہے کہ بہت کم ایسا ہوا کہ کسی مسافر کو دوبارہ دیکھا ہو۔۔آسان الفاظ۔۔ میں ہر روز اتنے نئے چہرے نظر آتے ہیں کہ میں اکثر سوچتی ہوں۔۔اتنے لوگ کہاں جاتے ہوں گے؟؟ لیکن کیونکہ میری محدود سوچ کبھی بھی کسی سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ سکی چنانچہ بہت سے دوسرے سوالوں کی طرح یہ سوال بھی تشنہ رہ جاتا ہے۔۔

نتیجہ: زمانہءطالبعلمی میں کی گئی کوئی خواہش برسوں بعد بھی پوری ہو سکتی ہے اس لئے زیادہ پریکٹیکل سوچ رکھنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

ہوا سے باتیں

3 comments

خیالوں میں گم وہ کھڑکی کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور سامنے پھیلے خوبصورت منظر پر نطریں جمائے اس کی سوچ نجانے کہاں کہاں بھٹکنے لگی۔۔اچانک کھڑکی زور سے بجی اور تیز ہوا کا ایک جھونکا اپنے ساتھ پانی کی بوچھاڑ لئے اند چلا آیا۔۔ہوا نے اس کا چہرہ چُھوتے ہوئے پوچھا۔۔“کیا سوچ رہی ہو؟“۔۔
“سوچ رہی ہوں۔۔انسان نے اشرف المخلوقات ہونے کا حق ادا کر دیا ہے۔۔ہواؤں، پانیوں، خلاؤں ہر جگہ تو اس کے قدم پہنچ چکے ہیں۔۔۔ اس نے کائنات کوتسخیر کر لیا ہے۔۔“
ہوا استہزائیہ انداز میں ہنسی اور گویا ہوئی۔۔“ہاں! کائنات کو مسخر کیے جا رہا ہے اور اس دُھن میں بھول گیا ہے کہ اس سے زیادہ اہم دلوں کو تسخیر کرنا ہے۔۔۔“
اس نے کچھ کہنے کو منہ کھولا لیکن تیزجھونکے نے جیسے اس کو روک دیا۔۔“ مجھے بتانے دو۔۔ابنِ آدم نے اشرف ولمخلوقات ہونے کا حق کس طرح ادا کیا ہے۔۔
تم کس انسان کی بات کرتی ہو۔۔وہ جو خود کو اشرف المخلوقات گردانتا ہے مگر خود کو حیوانوں کے درجے سے بھی نیچے گرا دیتا ہے۔۔اپنی حساسیت کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے اور سنگدلی کی انتہا کو چُھو لیتا ہے۔۔انصاف کی رٹ لگاتا ہے اور خود ظلم و بربریت کی نت نئی داستانیں رقم کرتا چلا جاتا ہے۔۔۔“
بے شمار چیخیں اس کی سماعتوں پر جیسے ہتھوڑے برسانے لگیں۔۔ اس نے اس شور سے بچنے کے لئے کانوں پر ہاتھ رکھ لئے۔۔
“ابھی تو آغاز ہے اور تم ابھی سے ہی۔۔۔۔“ ہوا نے سرسراتے لہجے میں کہا۔۔۔“ابھی تو میں نے انسان کے قہر و غضب کی وہ داستانیں نہیں سنائیں جو قریہ قریہ گھومتے میری آنکھوں نے دیکھی ہیں۔۔۔ذرا سونگھو تو سہی۔۔مجھ میں بسی خون کی بساند تمھیں بہت کچھ بتانے کی کوشش کر رہی ہے۔۔۔میرا گزر وہاں سے بھی ہوا ہے جہاں خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔۔اپنے ہی اپنوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔۔رنگ،نسل،مذہب،فرقے کو بنیاد بنا کر لاشوں کے انبار لگائے جارہے ہیں۔۔اس دور کا ہر انسان اپنی ذات میں چنگیز و ہلاکو خان بنا جا رہا ہے۔۔یہ ہے تمھاری خلافت؟؟۔۔۔“
ایک چھناکا ہوا اور کھڑکی کا شیشہ ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گیا۔۔اُسے یوں لگا جیسے کانچ کے یہ ریزے اس کے جسم میں آن چبھے ہوں۔۔

درد سے بےحال ہوتے ہوئے اس نے سُنا۔۔۔ ہوا کہہ رہی تھی۔۔
“ بلند و بانگ دعوے نوعِ بشر کا خاصا ہیں۔۔ہاں وہی دعوے جو وقت کی بہتی لہروں کے سامنے محض ریت کے گھروندے ثابت ہوتے ہیں۔۔“ گرد کا ایک بگولہ اٹھا اور اس کی آنکھوں میں جیسے ریت بھرتی چلی گئی۔۔
“ابنِ آدم ہی ہے ناں جو کہتے نہیں تھکتا کہ وہ اپنی وجہ سے کسی کو دُکھی نہیں دیکھ سکتا اور یہ کہتے ہوئے اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کتنی آنکھیں اس کے اس جملے پر برس پڑتی ہیں۔۔ صاف گوئی کا دعوٰی کرتا ہے لیکن کتنے ہی دل اس کی حیلہ ساز فطرت کا شکار ہو کر ایسے بکھر بکھر جاتے ہیں۔۔“۔۔۔ امید ویاس کے صحرا میں بھٹکتی ان گنت آنکھیں سوال بن کر اس کے ذہن سے چپک سی گئیں۔
“نہیں۔۔۔بہت کچھ اس کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا۔۔زندگی کی مجبوریاں اسے ایسا بنا دیتی ہیں۔۔۔“ اس نے کمزور سا احتجاج کیا۔۔
“کون سی مجبوریاں؟؟۔۔یہ خود ساختہ مجبوریاں ہیں۔۔اپنا دوش دوسروں کے سر رکھنا تم انسانوں کا ازلی شیوہ ہے۔۔واہ رے انسان۔۔نکالے گئے جنت سے اپنے کئے پر اور دوش دیا ابلیس کو۔۔دست و گریباں ہوئے خود اور الزام رکھا ابلیس کے سر۔۔اگر تم اتنے ہی کمزور تھے تو کیوں اٹھایا خلافت کا بوجھ؟؟؟۔۔مان لو۔۔انسان نفس کاغلام ہے۔۔مان لو آج کا انسان جھوٹ کی آبیاری کر رہا ہے۔۔مان لو۔۔انسان بلندیوں کی طرف پرواز کے بجائے پستیوں میں گر رہا ہے۔۔مان لو۔۔مان لو۔۔۔۔“
وہ کانوں پر ہاتھ رکھے پیچھے ہٹی۔۔ہوا نے ایک زوردار قہقہہ لگایا ۔۔اور کھڑکی کے پٹ زوردار آواز کے ساتھ بند ہو گئے۔

Sunday 26 August 2007

وقت

0 comments

منظر بدل گئے پسِ منظر بدل گئے


حالات اپنے شہر کے یکسر بدل گئے


سورج کے ڈوبنے پہ نہ حیراں ہوئے کبھی


اب سوچتے ہیں کتنے کیلنڈر بدل گئے

بلاگنگ اور جاگنگ

10 comments

نجانے کیوں بلاگنگ کا لفظ ذہن میں آتے ہی جاگنگ کا خیال کیوں آ جاتا ہے؟؟شاید ہم قافیہ ہونے کی وجہ سے۔لیکن مجھے لگتا ہے کہ ان دونوں میں کچھ مماثلت ہے ضرور۔شاید دونوں ہی مستقل مزاجی اور باقاعدگی کے متقاضی ہیں۔ دونوں ہی کی عادت ہو جائے تو پھر، چھٹتی نہیں ہے ۔۔۔۔۔ والا حساب ہو جاتا ہے۔جاگنگ جسمانی ورزش ہے تو بلاگنگ ذہنی۔ مجھے تو بظاہر ایک ہی فرق نظر آتا ہے کہ جاگنگ میں پیروں کی شامت آتی ہے اور بلاگنگ میں ہاتھوں کی :)
مجھے ان دونوں میں سے کسی ایک کا بھی چنداں شوق نہیں ہے۔۔جاگنگ کی بجائےمیں سست رفتاری سے واک کرنے کو ترجیح دیتی ہوں اور کچھ کہنے کی بجائے سننے کا شغل زیادہ پسند ہے لیکن پھر بھی کسی نہ کسی طور دنیائے بلاگنگ میں قدم رنجہ فرما دیا۔امید ہے کہ خود تو اچھا برا جیسا بھی لکھا لیکن اس نگری میں آنے سے اچھے لکھاریوں کے خیالات سے مستفید ہونے کا موقعہ ملتا رہے گا۔