سکول کے زمانے میں جب بھی کوئی مضمون لکھنا پڑتا تھا، موضوع خاص اہمیت کا حامل ہوتا تھا میرے لئے کہ من پسند موضوع ہوتا تو ذہن اور قلم دونوں خود بخود رواں ہو جاتے تھے۔ "میرا یادگار سفر" ایک ایسا مضمون تھا جو سکول سے لیکر کالج تک تقریبا ہر کلاس کے سلیبس میں شامل ہوتا تھا۔۔اور چونکہ مجھے ایسے کسی سفر کا تجربہ نہیں تھا تو ٹیچر گرامر کی کتاب سےپڑھنے کو کہہ دیتی تھیں۔۔مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ "شوق قواعدِ اردو" اور "شوق انگلش گرامر" دونوں میں ہمیشہ ریل گاڑی کے سفر کو ہی یادگار قرار دیا جاتا تھا۔۔میں جب بھی اس مضمون کو اپنی ذہنی لائبریری میں منتقل کرنے کی کوشش کرتی تھی تو عقلی دلائل کے آگے بے بس ہو جاتی تھی کہ بی بی! تم نے کہاں ریل کا سفر کیا ہے؟۔۔جوابی دلیل ہوتی کہ بچپن میں کوئٹہ اور پنجاب کے درمیان سفر ریل گاڑی میں ہی کئے ہیں ناں۔۔کیا ہوا جو اماں کی گود میں کمبل میں لپٹے ہوئے کیے۔۔۔
میرا اماں سے ایک ہی گلہ ہوتا تھا کہ ہمارے بہت بچپن میں تو آپ نے بلوچستان اور پنجاب کو راولپنڈی اسلام آباد بنا رکھا تھا اور جب ہم نے ہوش سنبھالا تو مستقل پنجاب میں ہی ڈیرا ڈال لیا۔۔جواب ملتا۔۔"یہ بات اپنے والدِ محترم سے پوچھو۔۔۔کہ وہ اپنی پوسٹنگ کوئٹہ میں کیوں نہیں کروا لیتے۔۔"
ابا سے بھی اکثر پوچھا لیکن یہی جواب ملا ہمیشہ کہ بیٹا جی! اپنی پڑھائی مکمل کرو۔۔اسی لئے تو ہم نے مستقل پوسٹنگ اپنے شہر میں کروائی ہے۔۔(کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔۔)
قصہ مختصر کہ عمرِعزیز کے اتنے سارے(اب تو گنے بھی نہیں جاتے) سال گزرنے کے باوجود ہم ابھی تک اس شہر کو دیکھ نہیں پائے جہاں ہم نے آنکھ کھولی تھی اور اس دنیامیں تشریف لائے تھے۔۔ہم سے اچھے تو انکل مشرف ہوئے ناں جو سرحد پار اپنی جنم بھومی کا دیدار تو کر آئے۔۔
خیر واپس آتے ہیں ٹرین کے سفرپر۔۔۔۔معلوم نہیں کون سی قبولیت کی گھڑی تھی جب ہم نے کہا ہو گا کہ کاش ہم بہ نفسِ نفیس خود ٹرین کا سفر کریں اور پھر اس پر مضمون لکھ سکیں۔۔رحمتِ باری تعالیٰ جوش میں آئی اور اب یہ حالات ہیں کہ ہر دوسرے روز شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ٹرین کا سفر کرنا پڑتا ہے۔۔"واہ مالک! تُو بھی بے نیاز ہے۔۔"
اور مزے کی بات یہ ہے کہ بہت کم ایسا ہوا کہ کسی مسافر کو دوبارہ دیکھا ہو۔۔آسان الفاظ۔۔ میں ہر روز اتنے نئے چہرے نظر آتے ہیں کہ میں اکثر سوچتی ہوں۔۔اتنے لوگ کہاں جاتے ہوں گے؟؟ لیکن کیونکہ میری محدود سوچ کبھی بھی کسی سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ سکی چنانچہ بہت سے دوسرے سوالوں کی طرح یہ سوال بھی تشنہ رہ جاتا ہے۔۔
نتیجہ: زمانہءطالبعلمی میں کی گئی کوئی خواہش برسوں بعد بھی پوری ہو سکتی ہے اس لئے زیادہ پریکٹیکل سوچ رکھنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔