Thursday 6 December 2007

عورت کہانی

24 comments

مرد اور عورت کو جو کردار قدرت نے ودیعت کئے ہیں وہی ان کی اصل ہیں۔۔دونوں اپنی اپنی جگہ ایکدوسرے سے مختلف اور بہتر ہیں۔۔۔ اور زندگی کا حسن بھی اپنے مخصوص کردار میں رہ کر زندگی گزارنا ہے۔۔۔میں حقوقِ نسواں یا عورت مرد کی برابری کی علمبردار نہیں ہوں۔۔۔ لیکن روزمرہ زندگی میں بہت سے ایسے واقعات مشاہدے میں آتے ہیں جو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ عورت کو مظلوم طبقہ کہنے والے کچھ غلط نہیں ہیں۔۔۔ کہیں نہ کہیں ناانصافی کا سرا مرد سے جا ملتا ہے۔۔



روزی سے میری پہلی ملاقات  لندن میں ہوئی تھی۔ ایک دن پہلے جب پہلی بار فون پر اس سے بات ہوئی تو اس کی آواز اور بڑوں کے سے انداز میں بات کرنے سے مجھے لگا کہ شاید یہ کوئی بڑی خاتون ہیں لیکن اگلے ہی دن جب مقررہ جگہ اور وقت پر ایک نازک سی لڑکی میرے پاس آ کھڑی ہوئی تو مجھے انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی۔ روزی کا تعلق انڈیا کی ریاست یو-پی سے ہے۔۔۔ گزشتہ دو سالوں میں میرا روزی کے ساتھ مستقل رابطہ ہے چاہے ہم دونوں یہاں ہوں یا پاکستان/انڈیا میں۔
تین برس بیشتر روزی کی شادی ملائیشیا میں رہنے والے ایک ہندوستانی خاندان میں ہوئی ۔ اور کچھ ہی عرصے بعد مخصوص سسرالی جھگڑوں کا آغاز ہوا۔ اچھا خاصا کاروبار ہونے کے باوجود روزی کی ساس کو لگنے لگا کہ ان کے بیٹے کو کاروبار پھیلانے کے لئے اس رقم کی ضرورت ہے جو روزی کے والدین نے جہیز کے متبادل روزی کے بنک اکاؤنٹ میں جمع کروائی تھی۔۔ رقم کاروبار میں لگا دی گئی۔ کچھ عرصے گزرا تو ان لوگوں کو لگا کہ کاروبار میں کچھ خاص فائدہ نہیں ہو رہا چنانچہ مزید رقم لگانی چاہئیے۔۔ جس کے لئے روزی کے والدین اپنی زمین میں سے اس کا حصہ الگ کریں۔ جب کہ روزی کے ساتھ ساتھ اس کے والدین کو بھی اعتراض تھا کہ ابھی ان کی تین اور بیٹیوں کی تعلیم اور شادیاں باقی ہیں۔۔ چنانچہ اس بار انکار کیا گیا اور یوں روزی کے برے دنوں کا آغاز ہوا۔۔۔ اس سارے جھگڑے میں اس کے شوہر کا کردار خاموش تماشائی کا سا تھا۔۔ جھگڑا بڑھتا گیا اور ایک دن شوہر کی غیر موجودگی میں روزی کو انڈیا کا ٹکٹ ہاتھ میں تھما دیا گیا کہ واپس تب آنا جب تمھارے پاس رقم ہو۔ انڈیا واپس آنے کے بعد کوشش کے باوجود کوئی سمجھوتا نہ ہو سکا ۔۔ اور پھر روزی نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔۔ پچھلے اڑھائی سالوں سے وہ انگلینڈ میں ہے اور چھوٹی موٹی جاب کر کے زندگی گزار رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے قریبی دوستوں میں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے جو ہر مشکل وقت میں اس کا حوصلہ بڑھاتے رہتے ہیں۔۔۔ اس سارے عرصے میں اس کا رابطہ اپنے شوہر سے قائم ہے۔۔لیکن اس طرح کہ جب کبھی روزی نے اس کو فون کیا۔۔اس نے بات کر لی۔۔ لیکن ان سالوں میں ایک دفعہ بھی اس شخص نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ تمھارا گزارا کیسے ہو رہا ہے؟
کچھ عرصہ پہلے میں اس سے پوچھا کہ تم وہیں رہتی۔۔اتنی مشکلیں تو نہ دیکھنا پڑتیں۔۔۔ والدین کو چھوڑ کر یہاں کیوں آ گئی ہو؟؟؟جواب میں اس کے چہرے کے چہرے پر ابھرنے والا کرب مجھے آج بھی یاد ہے۔۔۔اس نے کہا۔۔۔"میں کیا کرتی۔۔۔ انڈیا اور پاکستان میں اتنا فرق تو نہیں ہے۔۔تمہیں بھی معلوم ہی ہو گا کہ ہمارے معاشروں میں جب بیٹیاں اجڑ کر والدین کی دہلیز پر آتی ہیں تو پورے خاندان کو کس مشکل سے گزرنا پڑتا ہے۔۔۔ میری وجہ سے میری بہنوں کی زندگی متاثر ہو رہی تھی اور میں اس وقت کا انتظار نہیں کر سکتی تھی جب میری بہنیں مجھے الزام دینے لگیں۔۔۔۔۔۔ میں کیا کرتی۔۔نہ والدین کا گھر میرا۔۔نہ شوہر کا۔۔۔ "

شیلا کا تعلق بھی یو-پی ہی سے ہے لیکن روزی کے برعکس ان کا تعلق نسبتاً کم متمول خاندان سے ہے۔۔۔شیلا دی سے میرا تعارف اپنی بھابھی کے ذریعے برمنگھم میں ہوا تھا جہاں دونوں ایک ایشین سوسائٹی کی ممبرز ہیں۔۔۔ اور یوں جب بھی وہاں جانا ہو میری واحد مصروفیت شیلا سے گپ شپ ہوتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ میری طرف سے صرف شپ ہوتی ہے کیونکہ شیلا دی بلا مبالغہ 200 الفاظ فی منٹ بولتی ہیں۔۔۔جن میں کہیں کوئی فل اسٹاپ یا کومہ نہیں ہوتا۔۔۔ :) اور ایسی ہی گپ شپ میں مجھے ان کی کہانی معلوم ہوئی۔۔۔ شیلا کو یہاں آئے تقریباً چار سال ہو چکے ہیں۔۔۔ انڈیا میں جب ان کی شادی ہوئی تو ان کے شوہر ایک سرکاری محکمے میں کام کرتے تھے۔۔گھر کا نظام چلانے کے لئے شیلا کو بھی ملازمت کرنی پڑی۔۔۔کچھ عرصہ بعد ان کے شوہر نےساری جمع پونجی لگا کر انگلینڈ کا رخ کیا ۔۔کچھ ماہ بعد شیلا بھی یہاں آ گئیں۔۔۔ اور ایک بار پھر ویسے ہی ملازمت شروع کر دی۔۔۔ایک بار پھر ان کے شوہرِ نامدار کو محسوس ہوا کہ امریکہ ان کی منزل ہے۔۔جمع جتھا تو کچھ تھا نہیں سو شیلا نے اپنے والدین کے ذریعے کچھ انڈیا سے کچھ لوگوں سے قرض لیا اور یوں موصوف نے امریکہ کی راہ لی۔۔اور کافی مہینوں کے بعد پہلی بار رابطہ کرتے ہوئے بتایا کہ آتے ہی وہ کسی جرائم پیشہ گروپ کے ہاتھ چڑھ گیا اور انھوں نے سب کچھ لوٹ لیا۔۔۔ مزید کچھ مہینے گزرے اور معلوم ہوا کہ ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔۔اور کمانا تو درکنار ان کے پاس علاج کے لئے بھی رقم نہیں ہے۔۔۔یوں پچھلے تین سال سے شیلا دی یہاں کام کر رہی ہیں اور بری بھلی اپنی زندگی گزار رہی ہیں۔۔اگرچہ اب ان کو امریکہ میں اپنے شوہرِ نامدار کو خرچہ نہیں بھیجنا پڑتا لیکن جن یہاں آتے ہوئے اور آنے کے بعد جن لوگوں سے بڑی بڑی رقمیں ادھار لی تھیں وہ سب شیلا کو ہی واپس کرنی ہیں کہ جو شخص تین سال سے ان کو ایک پائی ذاتی خرچے کے لئے نہیں دے سکا اس سے کچھ کرنے کی توقع فضول ہے۔


اب باری آتی ہے پالین کی۔۔۔ پالا(پالین) کے ساتھ میری دوستی پہلی ہی ملاقات میں پکی ہو گئی تھی۔ حالانکہ وہ مجھ سے اتنی بڑی ہے کہ پاکستان میں ہوتی تو میں ادب کے مارے سلام کرنے سے آگے نہ جاتی لیکن یہاں تو ایسا نہیں ہے۔۔۔پالا سے بھی میں دو سال پہلے ملی تھی جب پہلی بار یہاں آنا ہوا تھا۔۔۔ اپنی باتوں اور سوچ کے انداز سے وہ مجھے کبھی بھی مغربی معاشرے کی نمائندہ نہیں لگی۔۔اور جب ایک بار میں نے اس سے یہ کہا تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا "تمہیں ایسا اس لئے محسوس ہوتا ہے کہ میری دادی ترکش تھیں۔۔۔اور میرا بچپن ان کے ساتھ ترکی میں ہی گزرا ہے۔۔۔مشرق بھی میری ذات کا حصہ ہے۔۔" پالا کے دو بچے ہیں اور وہ پچھلے سال تک وہ میٹروپولیس میں کام کر رہی تھی۔ اس کا شوہر کوکین لیتا تھا اور الکوحلک تھا۔۔ یہاں پر کہانی فرق ہے۔۔۔بجائے مزید مشکلوں کا شکار ہونے کے پالا نے اس کو اپنی زندگی سے نکال باہر کیا۔۔۔۔ اور اب وہ اپنے دونوں بچوں کی پرورش کر رہی ہے۔ لیکن اس کے احساسات اور مشکلیں بھی روزی اور شیلا دی جیسی ہی ہیں۔۔


آمنہ میری سہیلی کی کزن ہیں۔۔ ان کے والد اسلام آباد میں ایک اہم سرکاری عہدیدار ہیں۔۔۔تقریباً سات سال پہلے آمنہ کی شادی اپنے کزن سے ہوئی۔۔۔شادی کے بعد ان کےشوہر نے سول سروسز کا امتحان دیا اور ڈی ایم جی میں سیلیکٹ ہو گیا۔۔۔ بیٹے کے اکیڈمی جانے کے بعد آمنہ کے ساس اور سسر کو بیٹے کی شادی جلدی کرنے پر پچھتاوا ہونے لگا۔۔۔ حالانکہ دونوں گھرانوں کا شمار اسلام آباد کے متمول طبقے میں ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی انہیں لگا کہ سول سروسز میں جانے کے بعد ان کے بیٹے کی شادی کسی اعلیٰ بیوروکریٹ خاندان میں ہو سکتی تھی اور اس کے لئے مزید اوپر جانا بہت آسان ہو سکتا تھا۔۔۔یوں حالات خراب ہوتے چلے گئے اور ایک وقت ایسا آیا کہ آمنہ کو سسرال چھوڑ کر والدین کے گھر آنا پڑا۔۔کچھ دنوں بعد شوہر آ کر بیٹی کو ساتھ لے گیا۔۔۔ ڈپریشن کی شکار آمنہ کو والدین نے کچھ عرصہ کے لئے بڑی بہن کے پاس کینیڈا بھیج دیا۔۔جہاں انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا سے گریجویٹ آمنہ کو بہت اچھی نوکری مل گئی اور یوں آہستہ آہستہ اس کی زندگی معمول پر آ گئی لیکن پھر اچانک ان کے مجازی خدا کو نہ جانے کیاخیال آیا اور عین اس وقت جب آمنہ کی امیگریشن مکمل ہونے میں بہت تھوڑا وقت رہ گیا تھا ان کو واپس آنے کا حکم دیا گیا۔۔۔ بہن کے منع کرنے کے باوجود وہ واپس آ گئیں کہ شاید ان کے شوہر کو زیادتی کا احساس ہو گیا ہے حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ نئی بہو نے سوتیلی بیٹی کی پرورش اور جائنٹ فیملی سسٹم میں رہنے سے انکار کر دیا تھا۔ یوں آمنہ ایک بٹے ہوئے گھر میں زندگی گزار رہی ہیں۔۔


کردار اور جگہ مختلف سہی لیکن چاروں کہانیاں ایک سی ہیں۔۔۔ معاشرہ کوئی بھی ہو۔۔۔ مذہب کچھ بھی ہو۔۔۔ طبقہ کوئی بھی ہو۔۔۔ خسارہ عموماً عورت کے حصے آتا ہے۔۔۔


ایسے جھگڑوں میں دونوں میں سے کوئی بھی فریق مظلوم ہو سکتا ہے۔۔کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔۔۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عورت کے مظلوم ہونے کا تناسب ہمیشہ سے زیادہ ہے۔۔۔ پڑھی لکھی ہے تو اس کی تعلیم کو بھی طعنہ بنا لیا جاتا ہے اور ان پڑھ ہے تو جاہل کا نام دے دیا جاتا ہے۔۔۔معاشرے اور خاندان میں مرد کو اگر افضل درجہ ملا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرنے میں ناکام کیوں ثابت ہوتا ہے۔۔۔ یہ افضل درجہ اس کے عورت کی نسبت زیادہ باظرف ہونے کا متقاضی ہے۔۔ عورت ہر حال میں مرد کی ذمہ داری ہے اور اگر مرد اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی ادا کرے تو بہت سے جھگڑوں کا وجود آپ ہی آپ ختم ہو جائے گا۔۔۔

24 comments:

  • 7 December 2007 at 01:55

    بات ٹھیک ہے۔ شاید کبھی کبھی مرد بھی اتنے باظرف ہوتے ہیں۔

  • 7 December 2007 at 05:16

    [...] نے “قوفیوں” کے کہنے پر ایک تحریر لکھ دی۔ اس کے بعد فرحت نے بھی لکھی اور تو اور قبلہ و کعبہ حضرت مولانا قدیر [...]

  • 7 December 2007 at 08:15

    فرحت صاحبہ ، میں نہیں کہتا کہ مرد قصوروار نہیں لیکن آپ نے جتنے واقعات بیان کیے( وہ ترکش صاحبہ کو چھوڑ کر) ان سب میں ساس نامی خاتون کا بھی کچھ نہ کچھ ہاتھ ضرور تھا۔ اسلئے مرد کو اکیلے قصوروار قرار دینا ذیادتی ہوگی۔ خاص کر جن واقعات کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ اور ہاں اس جرم میں مرد اکیلا قصوروار اسلئے بھی نہیں کہ مرد کی تربیت ایک خاتون ہی کرتی ہے۔ بہرحال یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ خواتین کے استحصال میں براہ راست مرد زیادہ قصوروار ہیں۔
    اُمید ہے آپ اس بحث کو مزید آگے بڑھائیں گی۔

  • 7 December 2007 at 09:57

    اصل بات یہ ہے کہ اکثر مسلمان صرف نام کے رہ گئے ہیں ۔ دین سے دوری اور دولت سے محبت انسان کو دکھ یا تکلیف کے علاوہ شائد ہی کچھ دے سکے ۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ شادی کو بربادی میں خود میاں بیوی اور دونوں کے والدین بدلتے ہیں ۔ اگر میاں بیوی ہی صبر اور عقل دونو کو اکٹھا استعمال کریں تو ٹوٹتا گھر بچ سکتا ہے مگر کیا ہو انا کا یا پھر نام نہاد محبت کا جو دم نہیں لینے دیتے ۔ مندرجہ ذیل کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟
    http://iftikharajmal.urdutech.com/?page_id=1028

  • 7 December 2007 at 13:14

    [...] کہ مرد کو کیسے اس بدنام زمانہ عمل سے روکا جائے۔ ابھی تک فرحت صاحبہ ، بدتمیز[نام کے] صاحب اور قدیر صاحب اس موضوع پر اپنی [...]

  • 7 December 2007 at 19:38
    بوچھی :

    سلام ،
    بہت خوب ، بہت اچھا لیکھا ھاے فرھات،

  • 7 December 2007 at 19:39
  • 8 December 2007 at 07:45

    میں جو لکھنے آیا تھا، وہ مجھ سے پہلے ساجد اقبال ہی لکھ گئے ہیں۔ کبھی آپ بھی غور کیجئے گا کہ عورت کی جتنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، اس عورت پر ہونے والے ظلم کی شاید 80 فیصد وجہ عورت ہی ہوتی ہے کہ ایک عورت ہی دوسری عورت کی کاٹ کرتی نظر آتی ہے، اس سے حسد کرتی ہے۔
    ہمارے معاشرے ہی میں آپ دیکھیں۔۔۔ ساس/ بہو کے جھگڑے صرف کہانیاں نہیں حقیقت ہیں۔ ماں چاہتی ہے کہ بیٹا پہلے کی طرف صرف اسی کا ہو رہے۔ بیوی چاہتی ہے کہ اس کا شوہر اس کو وقت دے۔ اور یوں مرد دونوں کے بیچ پھنس جاتا ہے۔ اب اس حالت میں مرد جس طرف بھی جائے، دوسری طرف سے اس پر ظلم کرنے کے نعرے لگتے ہیں۔۔۔ اگر مرد اپنی بیوی کی طرف ہوجائے تو ماں طعنہ دیتی ہے کہ سفید خون ہے، میں نے اتنی محنت، محبت سے پال پوس کر بڑا کیا لیکن شادی ہوتے ہی بیوی کا غلام ہوگیا۔۔۔ پھر وہ جادو/ ٹونے کے الزامات بھی انہی گھروں میں لگتے ہیں تو عورتوں ہی کی جانب سے۔۔۔۔ دوسری طرف اگر مرد اپنی ماں کی طرف ہوجائے تو تب بیوی کا واویلا ہوتا ہے، الگ گھر لینے کی فرمائشیں ہوتی ہیں۔۔۔ مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح عورت پر ہونے والے ظلم کا ذمہ دار صرف اور صرف مرد کو قرار دیدیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔
    معذرت۔۔۔ کہ تبصرہ کچھ طویل اور شاید تلخ بھی ہوگیا۔۔۔ میں تحفظِ حقوقِ مرداں کا بہت بڑا علمبردار ہوں۔۔۔ اسی لیے۔۔۔۔ :razz:

  • 8 December 2007 at 10:46
    بوچھی :

    راہبر ، میں آپکی بات سے اتفاق نہیں کرتی مرد اگر سمجھدار ہو تو ایسی نوبت کبھی نہیں آنے دیتا ،۔/ ۔ بھلے اک طرف اسکی ماں ہو ، اور دوسری طرف اسکی بیوی ،۔۔ ۔ اگر مرد چاہے تو ان دونوں رشتوں میں بیلینس رکھ کر سمجھداری سے کام لیتے ہوئے سب کچھ ٹھیک رکھ سکتا ہے ، اگر اسکی نیت ہو کہ سب ٹھیک رہے تب ،۔ ۔ ۔۔ اگر اسکی نیت خراب ہو وہ خود اپنی بیوی سے چھٹکارا چاہ رہا ہو دل ہی دل میں ،۔۔ اور کسی اور عورت کی طرف متوجہ ہونا چاہ رہا ہو تو پھر کوئی کچھ نہیں کرسکتا ،۔۔ ایسے میں گھر کے جھگڑے ۔ ۔۔ ماں ۔۔۔ بیوی کے جھگڑوں کو وہ بیناد بنا کر ، راہ فرار چاہتا ہے اور جب مرد خود یہ چاہ رہا ہو تو پھر وہ یہ رشتے سلجھانے کی بجائے ہمیشہ توڑا کرتا ہے کہ اسکی اپنی نیت میں کھوٹ ہوتا ہے ۔

  • 8 December 2007 at 14:58

    [...] ہے۔ قدیر نے بھی مضامین لکھے۔ اور میرا پاکستان نے بھی۔ فرحت کا موضوع قدرے مختلف [...]

  • 8 December 2007 at 17:06

    "اس عورت پر ہونے والے ظلم کی شاید 80 فیصد وجہ عورت ہی ہوتی ہے کہ ایک عورت ہی دوسری عورت کی کاٹ کرتی نظر آتی ہے، اس سے حسد کرتی ہے۔"

    yeh baat mein ne itni baat sunni hai aur buhut tajziya bhi kiya. aurat doosri aurat ki dushman hoti hai ya saas bahu aik doosre ko bardasht nahi kertein; yeh darasal aurat k ander k aik durr ki waja se hai. hamare haan her aurat kisi mard per inhisaar kerti hai, paise k liye, izzat k liye, maqam k liye. lehaza aap samjhiye k mard aik sahara hai aur agar sahar aik ho aur sahara lene wale 5 aur un 5 mein se aik aap hain to zahir hai aap koshish karein ge k aap ziada behtar position mein hon, aisi position jo aap ko behtar sahara de sake. yehi soch dar asal saas bahu k jhagron ya nand bhawaj ki takrar, ghareloo sazishon ki waja hoti hai. lehaza yeh kehna k aurat ki fitrat aisi hai aik buhut na insafi ki baat hai. aik aisa insaan jo apne khayalat ka khul ker izhaar na ker sake, her faisle k liye doosron ka mohtaj ho, uss ki zindagi aik chote se daire mein ghoomti ho aur phir aap uss se tawaqo karein k woh be gharz aur be loas ho ker soche to maaf kijiye ga aap kuch ziada hi demand ker rahe hein. iss sub k bawajood aurat apne tamam farz poore ker rahi hai aur hatt_ul_imkan be gharzi ka muzahira ker rahi hai to yeh uss ki buhut bari kamiyabi hai.

  • 9 December 2007 at 14:48

    aurat hi aurat ki dushman ka falsafe se mujhe aik ikhtilaf hai k iss falsafe mein sirf amal dekha gaya hai mal k peeche k moharrikaat nahi. dekhiye buniyadi taour per aurat k liye aik mard ka sahara hona be had zaroori hai. hamara haan izaat aur muqam lene k liye mard ka hi sahara lena parta hai warna aurat kia aur uss ki bisat kiya. lehaza her aurat chahti hai k uss ko ziada se ziada mazboot sahara mila. jo bhi insan iss position mein ho ga woh zahir hai k apni jaga secure kerne ki koshish kare ga. yehi soch aurat ko aurat se larati hai. maan ko yeh darr k beta kahin mujhe na chor de aur mera martaba kum na ho jaey aur biwi ko yeh khauf k shohar mere sath na hua to mein to agle din sarak per khari hongi. issi waja se aurat doosri aurat se dushmani kerti hai takeh ziada se ziada support mere pass rahe. ubb aap unbiased ho ker sochein to aap ko aurat itni ghalat bhi nahi lage gi. aik insan jis ki sari umar aik doosre insan per takiya ker ke guzarni ho uss se iss se ziada kia insaf chahte hein aap? beherhaal khwateen phir bhi buhut sare mawaqe per buhut ache tareeqe se halaat ko handle ker rahi hain lehaza unki mehnat aur qurbani ko pehchanna behad zaroori amar hai

  • 10 December 2007 at 03:40

    باجو! یہ سمجھداری کی بات صرف مرد ہی پر کیوں ٹوٹ جاتی ہے؟ جب عورت اس بات کی دعویدار ہے کہ وہ مرد کے برابر ہے تو اس کو بھی برابر سمجھداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اس کو بھی سمجھنا چاہئے کہ مرد نے دونوں رشتے ساتھ لے کر چلنے ہیں۔ وہ کیوں چاہتی ہے کہ مرد دوسرے رشتے نظر انداز کرکے صرف اسی کا ہو رہے۔

  • 10 December 2007 at 14:42
    Virtual Reality :

    شاکر عزیز: جو بات میں کہنا چاہ رہی تھی اس کو صرف آپ نے ٹھیک سمجھا ہے۔۔میں تنقید برائے تنقید کی عادی نہیں ہوں۔۔۔میرا پوائنٹ صرف یہ ہے کہ مرد باظرف کیوں نہیں ہے۔۔جبکہ اس کو دعوٰی ہے کہ عورت کی نسبت وہ زیادہ عقل و شعور رکھتا ہے اور عورت کی نسبت جذباتی طور ہر زیادہ مضبوط ہوتا یے۔۔

  • 10 December 2007 at 14:46
    Virtual Reality :

    بدتمیز: آپ کی تحریر پر تبصرہ تو اسے تفصیلاً پڑھ کر کروں گی ۔۔امید ہے کہ ہمیشہ کی طرح آپ نے لوجیکل بات ہی لکھی ہو گی لیکن میری یہ تحریر ہر گز جواب عرض نہیں تھی۔۔۔ :)

  • 10 December 2007 at 15:01
    Virtual Reality :

    ساجد اور راہبر: آپ کا کہنا بجا کہ عورت پر ہونے والے ظلم میں زیادہ ہاتھ ایک عورت کا ہی ہوتا ہے۔۔۔ اور میں اس امر کی انکاری بھی نہیں ہوں ایسا ہوتا تو میں اپنے بیان میں "ساس" کے کردار کا ذکر ہی نہ کرتی۔۔ یہ بھی درست کہ مرد دونوں فریقین کے بیچ پس جاتا ہے۔۔۔ لیکن اگر آپ میری تحریر دوبارہ پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ میرااصل پوائنٹ مرد کا 'باظرف' نہ ہونا ہے۔۔میرا کہنا ہے کہ جتنی اہم حیثیت ہو ذمہ داری اور ظرف بھی اسی تناسب سے بڑھتے ہیں۔۔۔ مرد کو افضل قرار دیا گیا۔۔تو اس کو اپنی ذمہ داری کو بہترین طریقے سے نبھانے کی کوشش کرنی چاہئیے۔۔۔ اگر بچے آپس میں لڑ رہے ہوں تو 'بڑے' بیٹھ کر تماشا نہیں دیکھتے بلکہ مسئلے کو سلجھانے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔۔اسی طرح اگر بیوی اور ماں دونوں میں ناچاقی اور نااتفاقی ہے تو بجائے کانوں میں روئی ٹھونسنے کے دونوں فریقین کے ساتھ متوازن رویہ برقرار رکھنا مرد کی ذمہ داری ہے۔۔۔ بحث شروع ہو ہی گئی ہے تو ساجد کے کہنے کے مطابق میں اس کو مزید آگے بڑھانا چاہوں گی۔۔۔

  • 10 December 2007 at 15:07
    Virtual Reality :

    بوچھی : آپ نے ٹھیک کہا کہ اگر مرد چاہے تو توازن برقرار رہ سکتا ہے اور یہی گھریلو سکون کی بنیاد ہے۔۔۔

    ماوراء: میں بھی یہی کہہ رہی ہوں کہ میرا موضوع یہ نہیں ہے کہ مرد عورت کو کیوں گھورتے ہیں۔۔۔ میں تو ذمہ داری کی بات کرتی ہوں جو افراد پر عائد ہوتی ہے۔۔۔
    woman in a men's world: آپ کا کہنا بالک درست ہے کہ عورت چاہے ماں ہو ،بہن ہو یا بیوی اس کی دنیا ایک ہی محور کے گرد گھومتی ہے اور جب وہ محور اپنا مقام برقرار نی رکھ سکے تو ان دنیاؤں میں بھونچال آنا فطری بات ہے۔۔۔

  • 10 December 2007 at 15:13
    Virtual Reality :

    اجمل انکل آپ نے بالکل ٹھیک کہا کہ خوشگوار گھریلو زندگی کا انحصار فریقین کے عقل و فہم پر ہے لیکن عموماً ہوتا یہی ہے کہ اگر دونوں فریقین ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔۔برداشت اور تحمل کامیاب زندگی کی بنیاد ہیں جو کہ ہم لوگوں میں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔۔۔

  • 10 December 2007 at 15:20
    Virtual Reality :

    عمار: حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو مجھے بتائیے کہ آپ نے آج تک کتنی عورتوں کو 'برابری' کا نعرہ لگاتے سنا ہے۔۔۔ماسوائے این جی اوز اور نام نہاد سوشل ورکرز کے۔۔۔ ہمیں پہلے برابری کی تعریف پر متفق ہونا ہو گا۔۔۔ کیونکہ جو میرے نزدیک عورت کی 'آزادی' اور 'برابری' ہے ہو سکتا ہے میرے ساتھ بیٹھی خاتون اس سے بالکل مختلف سوچتی ہوں۔۔ :)

  • 11 December 2007 at 04:39

    ہاں، یہ بھی ٹھیک ہے کہ پہلے برابری کی تعریف کا تعین کرلینا چاہئے۔ مردوں کی حمایت میں میرے بولنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ میں تمام قصور عورتوں پر رکھتا ہوں لیکن جب آج کل کی نام نہاد این۔جی۔اوز اور ترقی پسند خیال کے حامل لوگ اس موضوع پر بولتے ہیں تو خود وہ بھی انتہا پسندی کا ثبوت دیتے ہیں۔
    ممکن ہے کہ میں اس معاملہ میں کچھ زیادہ حساس ہوں۔ میں عرصہ سے ٹی۔وی ڈرامے نہیں دیکھا کرتا لیکن اگر کبھی اتفاقا ایک دو منظر دیکھنے کو مل جائیں تو اکثر اوقات یہی دکھایا جارہا ہوتا ہے کہ مرد بے انتہا ظلم کررہا ہے اور عورت چپ کرکے محبت و وفا کا پتلا بنی سہہ رہی ہے۔ پچھلے دنوں دو ڈرامے تو میری نظر سے ایسے گزرے کہ دونوں میں شوہر کو نفسیاتی مریض دیکھایا گیا کہ وہ اپنی بیوی پر بے پناہ ظلم کرتا ہے، مارتا پیٹتا ہے۔ یہ ایک سوچ، ایک فکر دی جارہی ہے لوگوں کو۔۔۔ عورتوں کو اشتعال دلانے والی سوچ۔۔۔ ایک منفی پروپیگنڈا۔۔۔ ٹھیک ہے کہ ایسے واقعات حقیقت میں بھی ہوتے ہیں لیکن صرف یہی کچھ تو نہیں۔ اور بھی ہزار عوامل ہیں۔۔۔ پھر ہم ایک نکتہ کو لے کر اتنی انتہا تک کیوں چلے جاتے ہیں؟
    کہنے کا حاصل صرف یہ کہ ایسے معاملات میں صرف ایک پر انگلی اٹھاکر خود کو بری الذمہ سمجھنا مناسب نہیں۔ بہتر ہے کہ دونوں جانب ہی سے خامیاں تسلیم کی جائیں۔

  • 17 December 2007 at 05:12

    [...] راشد کامران صاحب نے 3 دسمبر 2007ء کو فرحت صاحبہ نے 6 دسمبر 2...عورت کی مجموعی مظلومیت پر لکھا جو کہ ایک الگ تحقیق طلب ہے ۔ قدیر احمد صاحب نے 7 دسمبر 2007ء کو اپنے آپ کو بدتمیز کہنے والے صاحب نے 7 دسمبر 2007ء کو میرا پاکستان والے صاحب نے 7 دسمبر 2007ء کو ماوراء صاحبہ نے 9 دسمبر 2007ء کو [...]

  • 28 January 2008 at 13:01

    Global Gender Attitudes

    I count the reasons why I won't raise my daughter in Pakistan. The attitudes of Pakistanis towards women leave a lot to be desired and women don't have much opportunity there.

  • 13 June 2009 at 17:09

    وہی عورت اور مرد کا جھگڑا ۔۔

    پہلی سیدھی سی بات ہے جی ۔۔ شادی کرو تو سوچ کے کرو کے شادی کر رہے کو کہ مزاق ۔۔۔

    یہ جن لوگوں کہ بارے میں تحریریں لکھی جاتی ہیں نا

    یہ لوگ

    مذاق مزاق ( فلرٹیشن ۔۔ ) میں پیار کرتے ہیں ۔۔ اسی مزاق کو اپنی انا بنا کر پھر شادی کرتے ہیں ۔۔ اسی شادی میں پھر جب باد میں جاکر بہت سے ایسے راز افشا ہوجاتے ہیں جو شادی سے پہلے دونوں ہی ایک دوسرے کو کھو دینے کے ڈر سے چھپائے ہوے ہوتے ہیں ۔۔ تب کیا ہوتا ہے ۔۔ وہی ۔۔ جو سب جانتے ہیں ۔۔ ( اور میں کیا جانتا ہو وہ یہ کہ اس طرح سے ہم میں سے کچھ پھر انی بڑوں کو دیکھتے ہیں جو لو میرج کے بعد ڈھشم ڈھشم ۔۔۔ پھر کچھ لوگو کا اس سچے اور ایک عزیم جزبے سے اعتبار اٹھ جاتا ہے جسے محبت کہتے ہیں )

    اور پھر آتی ہے ارینج میریجز ۔۔۔ شروع کمپرومائیز سے ۔۔ شرم نہیں آتی کہتے ہوے ان لوگو کو کہ کمپرومائیز میں شادی کی ۔۔ اسی میں بچے بچیاں بھی پوگئے جنہے پھر شاید یہ کبھی نہیں کہو ہوگہ ان پیرنٹس نے کہ تم کمپرومائیز کا نتیجہ ہو

    نمبر دو ۔۔ یہ کیا بات ہہ کہ عورت بری یا مرد برا ۔۔ اللہ تعلی نے برابر بنایا ہے دونوں کو ۔۔ ہا مرد کو زرا باہر سے طاقت ور بنایا ہے تو عورت کو اندر سے

    یہ بس پاکستان ہے جناب ۔۔۔ یہاں پر ۔۔ مرد صرف اس وجی سے ڈومینیٹ ہیں کیونکہ جی عورتیں نہیں ہیں ۔

    ہانجی ۔۔ عورتیں گر آگے آنا چاہے گی تو ہی تو آگے آئینگی ۔۔ مرد کیا اب کھینچ کر لے کر آئیں ۔۔ ہر کریٹو کام جو مرد کرتے ہیں وہ کام کرنے کے لیے عورت کو کہو تو اس کے پاس ایک سو ریڈی میڈ ایکسکیوزز تیا ہوتے ہیں ۔۔ آپ ہی بتائیں ۔۔ کتنی خواتین ہیں جو بلاگنگ سے زیادہ ۔۔ خواتیں ڈایجسٹ والی کہانیاں پرھنے اور سٹار پلس کو کو ترجیح دیتی ہیں ۔۔ جن میں کیا خوب آئیڈیاز پیدا کیے جاتے ہیں ۔

    مرد کوئی فرشتہ نہیں سو عورت بھی کوئی پری نہیں ۔۔ دونوں اپنی اپنی جگہ ستم ڈھاتے ہیں خود پر بھی اور دوسروں پر بھی ۔

  • 3 September 2010 at 09:10

    مرد کے واقعات کافی اچھے بیان کئے
    واقعی مرد ظالم ہی ہوتے ہین

    کیا کریں مار ڈالین سب مردوں کو
    یا پھر اتنا سب پڑھ کر سب خود کشی کر لیں خود ہی
    ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ لڑکیاں شادی کرنا ہی چھوڑ دیں

    کیوں کہ اکثریت مرد ظالم ہی ہوتے ہیں
    اور وہ بدلنا بھی نہین چاہتے
    اور پھر کیا کرین
    آپ سب لوگوں کی پوسٹ کا کیا اثر لیں

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔