یومِ آزادی
اگر 1947ء میں اس خطہ کے لوگوں نے قربانیاں دیں تو آج 2013ء میں بھی پاکستانی ویسی ہی قربانی ، اسی عزم و حوصلے کے ساتھ دے رہے ہیں۔ ہم آج بھی اس نظم کی تفسیر ہیں جو شاعر نے قیامِ پاکستان کے لئے کہی تھی۔
یہ وہی دن ہے یارو کہ جس روز ہم
ساتھ قائد کے اپنے ملائے قدم
سبز پرچم پہ نظریں جمائے ہوئے
اپنے سینے سے قرآں لگائے ہوئے
مال و زر چھوڑ کر ، بام و در چھوڑ کر
خوں میں ڈوبے ہوئے ہمسفر چھوڑ کر
شہرِ اغیار سے مسکراتے ہوئے
حمد پڑھتے ہوئے نعت گاتے ہوئے
مثلِ بادِ بہاری چلے آئے تھے
آمدِ فصلِ گُل کی خبر لائے تھے
یہ وہ منزل ہے جس کے لئے عمر بھر
کارواں کارواں ، رہ گزر رہ گزر
ایک پوری صدی روز و شب مستقل
اہلِ فکر و نظر اور اربابِ دل
ہاتھ میں ہتھکڑی ، پاؤں میں بیڑیاں
آپ اپنی اٹھائے ہوئے سُولیاں
ہر قدم اِک نیا زخم کھاتے ہوئے
ہر نئے موڑ پر سر کٹاتے ہوئے
تنگ و تاریک راہوں پہ چلتے رہے
فاصلے قربتوں میں بدلتے رہے
رحمٰن کیانی ----
تنگ و تاریک راہوں پہ چلتے رہے
فاصلے قربتوں میں بدلتے رہے
بہت خوب نظم ہے اور واقعی آج بھی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
یہ رحمٰن کیانی صاحب آپ کے عزیز تھے؟
بہت شکریہ عاطف بٹ۔ کبھی کبھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ وقت ایک جگہ ٹھہر سا گیا ہے۔
نہیں رحمٰن کیانی سے میرے رشتہ دار نہیں ہیں لیکن ان کی شاعری کہیں نہ کہیں پڑھنے کو مل جاتی ہے۔ :)
جی بالکل ایسا ہی ہے۔
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ