Thursday, 18 July 2013

سلام ٹیچر!!!!

6 comments
یہ پوسٹ پچھلے کچھ عرصہ سے ڈرافٹس میں پڑی تھی۔ آج پوسٹ کر رہی ہوں کہ آج ہی اپنی یونیورسٹی کی طرف ای میل ملی ہے اور یادوں کا ایک نیا دریچہ کُھل گیا۔

۔ 
کچھ عرصہ پہلے میرے کزن کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں اور ان دنوں پاکستان میں میرا چھوٹا بھائی 'جیو' کا کردار ادا کرتے ہوئے لمحہ بہ لمحہ خبریں ہم تک پہنچاتا تھا۔ ایک دن اس نے لکھا کہ آج امی اور تائی اماں ہماری ہونے والے بھابھی کو ملنے گیئں تھیں اور واپسی پر دونوں ان کی بہت تعریف کر رہی تھیں۔ اس کے بعد اس نے وہ جملہ لکھا جسے ہم نے متفقہ طور پر 'سنہری الفاظ' تسلیم کر لیا۔ اس نے لکھا' ویسے میری نامعقول رائے میں شادی سے پہلے اور مرنے کے بعد ہر کسی کی تعریفیں ہوتی ہیں۔' اور اب میں سوچتی ہوں کہ واقعی ایسا ہے۔ ہم دوسروں کی اچھائی کا اعتراف کرنے یا ان کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اکثر اس وقت کا انتظار کرتے ہیں جب وہ ہم سے دور ہو جائیں۔ میں بھی ایسی ہی ہوں۔ بہت دنوں سے سوچ رہی تھی کہ ان سب کا شکریہ ادا کروں جنہوں نے مجھے زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھایا۔ لیکن یہ سوچ شاید سوچ رہتی اگر کل رات مجھے وہ خبر نہ ملتی جس نے مجھے شدید اداس کر دیا ہے۔ استاد کے بارے میں اگر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیں فرش سے عرش تک لے جاتا ہے تو اس میں کچھ مبالغہ نہیں۔ مائیک رڈل  بھی ایک ایسا ہی استاد تھا جس کا شاگرد ہونا ہی بڑی بات اور اچھا شاگرد ہونے کی سند حاصل کر لینا بہت بڑا اعزاز تھا۔ اور یہ اعزاز مجھے حاصل ہوا۔ مائیک سے میں نے اپنے پوسٹ گریجویشن میں ڈیزائن کی کلاس پڑھی۔
یونیورسٹی میں اتفاق سے  میری پہلی کلاس ہی مائیک کے ساتھ ہوئی۔ کلاس شروع ہونے سے کچھ پہلے ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ اور میری کورس لیڈر نے مائیک سے میرا تعارف کروایا تو اس وقت یونیورسٹی میں میرا پہلا دن تھا۔ جب میری کلاسز شروع ہوئیں تو میں پاکستان میں تھی اور میرے برطانیہ واپس پہنچنے تک ہماری کلاسز شروع ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔پہلی کلاس ڈیزائن کی تھی۔ استادِ محترم سے تعارف تو کلاس شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے ہو چکا تھا لیکن سب کے آنے کے بعد باضابطہ طور پر نئے آنے والوں سے تعارف کے لئے کہا گیا۔ مجھ سے پہلے ایک نائجیریئن بھائی نے اپنے بارے میں بتایا اور اختتام اس جملے کے ساتھ کیا 'اور میں عیسائی ہوں'۔ اگلی باری میری تھی۔ میں نے اپنا تعارف کروایا اور جیسے ہی میں خاموش ہوئی مائیک نے میرے سر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ 'اور میں دیکھ سکتا ہوں کہ تم مسلمان ہو۔' ان دنوں برطانوی ایم پی جیک سٹرا کا برطانوی مسلم خواتین کے نقاب کے بارے میں متنازعہ بیان پر بہت لے دے ہو رہی تھی۔ مائیک نے بھی اسی حوالے سے مجھ سے یہ بات کہی۔ اب مجھے تو بقول میرے قریبی افراد کے بولنے کا موقع ملنا چاہئیے۔ اللہ دے اور بندہ لے۔ سو میری تقریر شروع ہو گئی حجاب ، اسلام اور جیک سٹرا کے بیان پر۔ اور جب رکی تو مائیک نے مسکراتے ہوئے کہا۔ شاباش مجھے لگتا ہے تمہیں 'آرگیومنٹ اور کاؤنٹر آرگیومنٹ' کا کانسپٹ کافی حد تک معلوم ہے۔ ڈیزرٹیشن (تھیسس( کرنے میں تمہیں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ یہ آغاز تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ استادِ محترم اپنے شاگردوں سے کوئی بھی بات بلامقصد نہیں کرتے بلکہ اس کے ڈانڈے کسی نہ کسی طور ان کی کلاس اور مضمون سے ضرور ملتے ہیں۔ ہفتے میں دو دن کلاس اور دو دن ٹیوٹوریلز ہوتے تھے اور اگرچہ ان چار دنوں میں تین تین گھنٹے کی کلاس کے بعد ہم سب کے سر درد کی شدت سے پھٹ رہے ہوتے تھے لیکن اب میں سوچتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ جتنا میں نے ان کلاسز میں سیکھا شاید ہی کسی اور جگہ سے سیکھا ہو۔ پہلے دن ہونے والی بحث سے مجھے یوں لگا تھا جیسے میرے لئے یہ کلاس اٹینڈ کرنا سب سے مشکل ہو گا لیکن پھر یوں ہوا کہ آخری سٹودںٹس-فیکلٹی میٹنگ میں اعتراف کر رہی تھی کہ مائیک رڈل نے مجھے بات کو پرکھنا اور اپنا نقطہ نظر بہتر طریقے سے پیش کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ اور یہ اللہ کے کرم کے بعد مائیک ہی کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ تھا کہ میری ہر اسائنمنٹ اور کام بہترین ہوتا گیا۔ میں شاید اپنے استاد کا اس طرح شکریہ نہیں ادا کر پائی جیسا کہ کرنے کا حق تھا۔ اور اب تو شاید کبھی بھی نہیں کر سکوں گی۔ لیکن جو کچھ میں نے سیکھا اور اب اسے اپنی عملی زندگی میں اس سے فائدہ اٹھا رہی ہوں وہ بھی شاید شکریہ اور احسانمندی کی ایک قسم ہے۔ مائیک ایک دہریہ بھی تھا اور مجھے نہیں معلوم کہ مجھے ایک دہریے کے لئے کیا دعا کرنی چاہئیے لیکن وہ میرا استاد بھی تھا۔ ایک ایسا استاد جس نے نظریاتی و مذہبی اختلاف ہونے کے باوجود مجھے بہترین طریقے سے پڑھایا اور سکھایا۔ تھینک یو مائیک۔ 
۔  I owe a lot of my success to your input. How could I possibly thank you enough!!!!

6 comments:

  • 19 July 2013 at 11:28

    بہت اچھا لگا یہ جان کر کہ آپ کو استادی اور شاگردی کے مقامات کا پتا ہے
    اور میرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ جب انسان مثبت ساچ کی بلندی پر پہنچتا ہے تو یا وہ دہریہ ہوجاتا یا پھر واقعی میں ایک مومن ہوجاتا ہے
    اللہ آپ کو خوش رکھے

  • 20 July 2013 at 10:53

    واقعی ! بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔ خاص طور پر اساتذہ کا شکریہ تو ادا ہو ہی نہیں سکتا۔

    یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ ہم انتظار ہی کرتے رہتے ہیں اور ہمیں اس وقت تک کسی کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا جب تک وہ ہم سے دور نہ ہو جائے۔ ذوالقرنین بھائی نے ایک بہت اچھی نظم شئر کی تھی اس حوالے سے۔ طوالت کے خوف سے صرف لنک لگا رہا ہوں۔


    http://www.urduweb.org/mehfil/threads/quotes-images.54104/page-12#post-1227312

    پتہ نہیں لنک اس تبصرے میں فعال بھی ہوگا یا نہیں۔

  • 20 July 2013 at 15:32

    بہت خوب! آپ خوش قسمت ہیں کہ مائیک رڈل جیسا استاد ملا اور یقیناً مائیک بھی بختاور تھا کہ آپ جیسی شاگرد ملی۔
    میرا ماننا ہے کہ جس طرح ڈی این اے کے ذریعے کچھ خصلتیں موروثی طور پر ہماری ذات کا حصہ بن جاتی ہیں اسی طرح ایک اچھے استاد کی صحبت اور راہنمائی بھی ہونہار شاگردوں پر ایسا اثر ڈالتی ہے جس کا سلسلہ ایک صدقہء جاریہ کی صورت میں چلتا رہتا ہے۔

  • 23 July 2013 at 09:49

    بہت شکریہ فراز۔ مجھے اپنی زندگی میں بہت اچھے اور حوصلہ بڑھانے والے اساتذہ ملے۔ جنہوں نے مجھے اپنا آپ پہچاننا سکھایا۔
    :)

  • 23 July 2013 at 09:57

    محمد احمد: بالکل۔ مجھے اکثر خیال آتا ہے کہ جو کام ہم کسی کے دور ہو جانے کے بعد کرتے ہیں اگر ان کی موجودگی میں کر لیں تو ان کو بھی کتنا اچھا لگے۔ اور شکریہ ادا کرنے میں کچھ زیادہ محنت بھی نہیں لگتی۔ لیکن پھر بھی بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ ہم بروقت کسی کا شکریہ ادا نہیں کر پاتے۔
    ربط دینے کے لئے جزاک اللہ احمد۔ بہت اچھی نظم ہے اور حسبِ حال بھی ہے۔ واقعی بعض اوقات عرصہ گزر جاتا ہے اور ہم اپنے عزیزوں سے سلام دعا کرنے سے بھی قاصر ہوتے ہیں جب کہ درمیان میں اتنا فاصلہ اور وقت بھی نہیں ہوتا۔ :)

  • 23 July 2013 at 09:59

    عاطف بٹ : جزاک اللہ۔ مائیک کا تو نہیں معلوم لیکن میں واقعی خوش قسمت تھی کہ مجھے مائیک سے کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ :)

    استاد کی شخصیت کا اثر واقعی ہم پر بہت گیرا ہوتا ہے۔ ایسے ہی تو انہیں معمارِ قوم نہیں کہا گیا نا۔ :)

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔