آج ہمارا ٹی کیفے والے چاچا کافی دینے آئے تو گیس کی لوڈشیڈنگ اور قیمت بڑھنے، سی این جی والوں کی ہڑتال، اور گزشتہ دو دنوں سے ٹرانسپورٹ کے مسائل کے بارے میں بتانے لگے۔ بات کرتے کرتے انہوں نے کہا کہ ہم لوگ اوپر والوں اور اختیار رکھنے والوں کو الزام دیتے ہیں جو کسی حد تک تو درست ہے لیکن ہم اپنی ذاتی اور انفرادی حیثیت میں بھی تو اپنے فرائض کی بجاآوری میں کوتاہی کرتے ہیں۔ جب بجلی اور گیس قسمت سے ہمیں بغیر تعطل کے ملتی ہے تو اکثریت اسے انتہائی لاپرواہی سے استعمال کرتی ہے۔ بات سے بات نکلی تو کسی نے کہا کہ ہم جن لوگوں میں رہتے ہیں یا جن کے ساتھ کام کرتے ہیں ان سے بہت کچھ سیکھتے ہیں اور وہ ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ سو ہمیں کوشش کرنی چاہئیے کہ دوسروں سے سیکھیں بھی اور انہیں اچھی بات بتائیں بھی۔ اس بات پر ان چاچا نے دو بہت اچھی باتیں سنائیں۔
(یہ صاحب سابق فوجی ہیں اور بہت سے بڑے افسروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سب میں ایک جنرل صاحب اور ان کے خاندان سے سیکھے گئے سبق کو کبھی نہیں بھول سکتے۔)
1۔ "فوج میں کام کرتے ہوئے میں نے کافی عرصہ ایک جنرل صاحب کے گھر کام کیا۔ جنرل صاحب کی بیگم صاحبہ نے مجھے کبھی نہیں ٹوکا اور نہ ڈانٹا سوائے ایک موقعے کے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ میں اکثر کچن یا کسی کمرے سے نکلتے ہوئے بتی جلتی ہی چھوڑ دیتا ہوں۔ تو انہوں نے ایک دن مجھے بلا کر کہا 'یہ جو بجلی ہم جلا رہے ہیں اس کی ادائیگی ہماری جیب سے نہیں بلکہ عوام کے پیسوں سے ہوتی ہے۔ اگر ہم یوں ہی بجلی ضائع کرتے رہے تو ہمیں تو شاید فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن ان لوگوں کے لئے بہت مشکل ہو جائے گی۔اور اس کے ذمہ داروں میں میں اور تم بھی شامل ہوں گے۔'
چاچا کا کہنا تھا کہ وہ 20 سال پہلے ملا یہ سبق آج تک خود بھی نہیں بھولے اور دوسروں کو بھی اسی بھولنے نہیں دیتے۔
دوسری بات: "میں سگریٹ بہت پیا کرتا تھا۔ ایک دن جنرل صاحب کے بیٹے نے، جو اس وقت 10-12 سال کا ہوگا، مجھے کو سگریٹ پیتے دیکھا۔ جب میں سگریٹ ختم کر چکا تو اس نے پوچھا۔ 'صاب۔ آپ کے پاس ایک روپیہ ہے؟'۔ میں جواب دیا کہ ہے تو اس نے مجھے پیسے نکالنے کو کہا۔ پھر اس نے مجھ سے ماچس مانگی جو میں نے دے دی۔ بچے نے تیلی جلائی اور میرے ہاتھ میں پکڑے نوٹ کو آگ لگانے لگا۔ میں نے فورا ہاتھ پیچھے کیا اور کہا 'یہ کیا کر رہے ہیں پیسے جلا رہے ہیں۔ ضائع ہو جائے گا۔' اس پر وہ بچہ بولا۔ جو آپ سگریٹ پی رہے ہیں وہ بھی تو آپ اپنا پیسہ جلا رہے ہیں۔' ۔ بچے کی بات نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں نے اس دن کے بعد سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا۔ ایک چھوٹے سے بچے نے مجھے جس طرح سمجھایا شاید میں کبھی بھی سمجھ نہ سکتا۔"
میں یہ بات کسی اور سے سنتی تو اسے مبالغہ آرائی سمجھتی (کیونکہ بڑے افسران چاہے وہ کسی بھی ادارے سے ہوں، ایسی سلجھی ہوئی سوچ کم ہی دیکھنے میں آتی ہے)، لیکن آج کی گفتگو کے بعد میرا یقین ایک بار پھر اس بات پر پختہ ہو گیا ہے کہ ایک چھوٹی سی کوشش کسی کی زندگی میں بہت بڑی مثبت تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے اور ہم کسی بھی وقت کسی سے بھی کوئی اچھی بات سیکھ سیکھتے ہیں قطع نظر ان کی عمر، مرتبے اور حیثیت کے۔ چاچا کو ان کی مالکن اور ایک بچے نے جو سکھایا وہ میں نے ان سے سیکھا اور اب مجھے چاہئیے کہ اس پر عمل بھی کروں اور دوسروں کو بھی بتاؤں۔
محفوظات
معلومات
یہ بلاگ متلون مزاجی کا بہترین عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ بے ربط سوچوں اور باتوں کا شاہکار نمونہ ہے۔
تازہ تبصرے
حالیہ تحاریر
Translate
Ad Banner
دریچہ ہائے خیال
Way Out!
Wednesday, 4 January 2012
مثبت سوچ
فرحت کیانی
1/04/2012 03:06:00 pm
5
comments
اس تحریر کو
خیال آرائیاں
کے موضوع کے تحت شائع کیا گیا ہے
5 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اچھی سوچ رکھنے والے اور دوسروں تک پہنچانے والے آج کے زمانے میں نعمت ہیں۔ ہم دوسروں کو گندا کہتے ہیں پر اپنے گند پر فخر کرتے ہیں۔
کوشش کے مد میں اٹھائے جانے والے کسی بھی قدم کو چھوٹا سمجھ کر ترک نہیں کر دینا چاہیئے۔ بعض اوقات کوئی بہت عام سے، چھوٹی سی کہی سنی بات یا کہیں پہ لکھی یا کہیں سے پڑھی بات بہت اھم تبدیلی لے آتی ہے کسی کی زندگی میں۔
بہت اچھی بات شئر کی آپ نے۔
مثبت سوچ رکھنے سے بہت فرق پڑتا ہے آپ کی زندگی میں بھی اور ان کی زندگی میں بھی جو آپ سے کسی نہ کسی طرح منسلک ہیں۔ لیکن مثبت سوچ کی ترویج زرا مشکل کام ہے ۔
پھر بھی کیا خوب کہا ہے گلزار صاحب نے کہ " کوشش کرنے والوں کی ہار نہیں ہوتی۔"
کافی والے چچا کی طرح کے لوگ بہت کم رہ گئے ہيں اور جو ہيں وہ گوشہ نشينی اختيار کر چکے ہيں ۔ کيونکہ آج کے پڑھے لکھے اُن کی بات پر توجہ دينا تو درکنار اُلٹا اُن کا مذاق بنانے کو تيار رہے ہيں ۔ لکھتے لکھتے مجھے اپنے دادا جان کی ايک بات ياد آئي جو اُنہوں نے مجھے بڑے پيار سے بتائی تھی اور مين کبھی نہيں بھولا "بيٹا ۔ جس نے سيکھنا ہوتا ہے وہ نالی کے گندے کيڑے سے بھی سبق ليتا ہے اور جس نے نہيں سيکھنا اُسے عطّار کی دکان پر بيٹھ کر بھی خوشبو کا پتہ نہيں چلتا"۔ ميرے دادا جان 1955ء ميں فوت ہوئے جب ميں بارہويں جماعت ميں پہنچا تھا
سب سے پہلے تو بہت مبارک ہو کہ اب تک اردو ٹیک پر بلاگ قائم ہے۔ فوراٰ سے پیشتر بیک اپ لے لیں۔
بہت عمدہ تحریر ہے اور ایک دفعہ پھر بہت لطف آیا پڑھ کر ۔
میں نے بھی دوبارہ جہانزیب کی سائٹ سے اور معاونت سے بلاگ سیٹ کیا ہے۔