Tuesday 26 October 2010

سیڈ- Seasonal Affective Disorder

7 comments
اللہ اللہ کر کے گرمیاں ختم ہونے کے آثار دکھائی دیئے۔ پہلے دو دن تو مزاج خاصا خوشگوار رہا لیکن کل سے مجھے شک ہونے لگا ہے کہ سردیاں آنے سے پہلے ہی میں SAD کا شکار ہونے لگی ہوں۔ اصل میں دو تین دن پہلے ایک میگزین میں 'ڈپریشن' کے بارے میں مضون پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ مزید ستم یہ کہ اگلے ہی دن کچھ ڈپریسڈ لوگوں سے ملاقات بھی ہو گئی جن کو ڈپریشن سے نکالنے کی کوشش میں لگتا ہے کہ میں خود بھی ڈپریس ہو گئی ہوں کیونکہ شام تک مجھے یوں محسوس ہونے لگا تھا جیسے موجودہ حالات میں ڈپریس ہونا میرا قومی اور انسانی فرض ہے۔ چنانچہ شعوری اور لاشعوری کوشش کت بعد بالآخر مجھے کسی حد تک کامیابی حاصل ہو ہی گئی۔۔۔ کیونکہ کل دن میں میری ایک کولیگ کسی کام سے میرے پاس آئی تو کچھ اس طرح کا مکالمہ ہوا۔
کولیگ: 'تم ٹھیک ہو؟'
میں: '' بالکل'
کولیگ: 'لگ نہیں رہیں۔'
میں: 'کیوں ۔ بہت تھکی ہوئی ہوئی لگ رہی ہوں؟'
کولیگ: ' نہیں۔ بہت اَکی ہوئی (بیزار) لگ رہی ہو۔'
میں: 'واؤ۔ تمھارا مطلب ہے۔ ڈپریشن۔ گڈ"

چنانچہ کل شام میں نے گھر میں بھی اعلان کر دیا کہ میں شدید ڈپریس ہوں اس لئے میرا خاص خیال رکھا جائے۔ یہ ذپریشن اصل والی ٹینشن میں اس وقت بدلا جب مجھے احساس ہوا کہ موسم تو کافی ٹھنڈا ہو گیا ہے اور میرے چند نئے لباس جومیں کافی دن سے سلے رکھے ہیں وہ یوں ہی پڑے رہ جائیں گے۔ اب میں دوبارہ اکتوبر کے آنے کا انتظار تو نہیں کر سکتی۔ کیا معلوم تب تک زندگی ہے بھی نہیں اور میرے اتنے اچھے کپڑے اگر کسی اور کو مل گئے تو مجھے کیا فائدہ۔ :hmm: اس مہا ٹینشن کے بعد مجھے لگا کہ SAD نے حملہ کر دیا ہے۔
ویسے تو میں ہر سال اس بیماری کا شکار ہوتی ہوں لیکن ایسا شدید سردیوں میں ہوتا ہے خصوصاً جن دنوں میں پاکستان سے باہر ہوں۔ شروع میں مجھے لگتا تھا کہ میں پاکستان کو مس کر رہی ہوں لیکن بعد میں میرے GP نے بتایا کہ یہ Seasonal Affective Disorder (SAD) ہے۔ جس میں انسان میری طرح دنیا سے بیزار ہو جاتا ہے۔ نیند بہت آتی ہے اور بھوک بہت لگتی ہے۔  کام کرنے کو بالکل بھی دل نہیں چاہتا۔ ویسے میرے گھر والوں کے خیال میں آخری تین علامات تو میرے اندر تمام سال موجود رہتی ہیں :sh حالانکہ سیڈ کے مریض کے لئے صبح اٹھنا بہت مشکل ہوتا ہے جو کہ میرے ساتھ مسئلہ نہیں ہے۔ میں صبح تو اٹھ جاتی ہوں آرام سے۔ لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ دو بجے چھٹی کے بعد رات ہو جایا کرے تا کہ دن میں سو کر شام میں اٹھنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہے :smile
سیڈ کے علاج میں سب سے موثر فوٹو تھراپی ہے جس میں مریض کو کچھ دیر کے لئے تیز روشنی کے سامنے بٹھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ادویات بھی دی جاتی ہیں۔ وقتی طور پر روزمرہ معمولات میں تبدیلی بھی مزاج درست کر دیتی ہے۔
ویسے میں سچ مچ میں سیڈ کا شکار نہیں ہوتی بس وقتی طور پر winter blues کے زیرِ اثر ضرور آتی ہوں :confused وہ بھی ایک آدھ دن کے لئے۔
لیکن آجکل مجھے کچھ شک ہو چلا ہے کہ پاکستانی عوام و خواص دونوں بری طرح SAD کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں اور اس میں موسم کی قید نہیں ہے۔ دیکھیں ناں وہی قوم جس کو اقبال مرحوم نے کتنی دقتوں سے جگایا تھا ایک بار پھر اسی طرح خوابِ غفلت میں کھوئی پڑی ہے۔ ہمارے ساتھ کیا کچھ نہیں ہو رہا۔ امن و سلامتی تو ایک طرف رہی۔ ہمارے سامنے ہمارے اپنے لوگ قدرتی آفات کا شکار ہیں اور ہمیں پروا نہیں۔ ہمارے بچے اور نوجوان بلکہ پورا معاشرہ اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو رہا ہے ہمیں احساس نہیں ہو رہا۔ اور حکمرانوں اور رہنماؤں کی بھوک ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ سب کچھ ہڑپ کر لینے کے باوجود انہیں لگتا ہے کہ وہ ابھی بھی بھوکے ہیں۔ اور مزید یہ کہ مین حیث القوم ہم انتہائی سُست قوم ہوتے جا رہے ہیں۔ کام میں دل نہیں لگتا اور تقریر و تحریر میں سب سے آگے (میری طرح )۔ :party
اللہ جانے ہمارے اس SAD کا کیا علاج ہو گا اور وہ کون سی روشنی ہو گی جو ہماری فوٹو تھراپی کے لئے موثر ثابت ہو گی۔ :-s

7 comments:

  • 26 October 2010 at 11:56

    پاکستانی بے بس تو تھے ہی

    اب بے حس بھی ہوگئے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا، لیکن یہ خود ساختہ بے حسی بھی کہاں تک چل سکے گی، معاملات تو دن بدن بد سے بد تر ہوئے جا رہے ہیں، ڈپریشن نہ ہو تو پھر کیا ہوگا۔

  • 26 October 2010 at 13:21
  • 26 October 2010 at 19:11

    آپ کی درج شدہ علامات کے مطابق تو میں بھی سارا سال اسی مرض کا شکار رہتا ہوں۔
    :)

  • 27 October 2010 at 15:38

    یہ بے حسی اُن تواتر سے رونما ہونے والے سانحوں کا ردعمل ہے جو بےحس اور ظالم سیاستدانوں اور جابر حکمرانوں نے ہم پر مسلط کئے ہیں۔ ہم ایک سکوت اوڑھنے کے سوا کیا کر سکتے ہیں۔ ہمارے نطق و بیان پر ایسی آہنی سلاخیں گڑی ہوئی ہیں جس نے ہم کو عاجز کر رکھا ہے لیکن ہم اس کی بیگار ڈہونے پر مجبور ہیں اور ایک ایسے نظام میں جینے پر مجبور ہیں جو زلزلے میں سر پر آن پڑنے والے ملبے کی مانند ہے۔۔۔۔ اللہ ہی ہم پر رحم کرے

  • 28 October 2010 at 16:44

    آپ کے تايا محترم کی وفات کا پڑھ کر دُکھ ہوا ۔ ہر کسی کا وقت مقرر ہے ۔ ہم راضی برضا اللہ ہيں ۔ اللہ آپ کے تايا محترم کو جنت ميں اعلٰی مقام عطا کرے اور پسماندگان کو صبرِ جميل عطا کرے ۔ آمين

  • 10 November 2010 at 11:55
    فرحت کیانی :

    آمین۔
    بہت شکریہ اور بلاگ پر خوش آمدید سعود! :)

  • 10 November 2010 at 11:55
    فرحت کیانی :



    محمد احمد: پاکستانی بے بس تو تھے ہی
    اب بے حس بھی ہوگئے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا، لیکن یہ خود ساختہ بے حسی بھیکہاں تک چل سکے گی، معاملات تو دن بدن بد سے بد تر ہوئے جا رہے ہیں، ڈپریشن نہ ہو تو پھر کیا ہوگا۔  



    درست کہہ رہے ہیں احمد آپ :-(






    محمد وارث: آپ کی درج شدہ علامات کے مطابق تو میں بھی سارا سال اسی مرض کا شکار رہتا ہوں۔   




    :) میں سمجھ رہی تھی کہ سیڈ کا شکار صرف میں ہی ہوں۔




    نویدظفرکیانی: یہ بے حسی اُن تواتر سے رونما ہونے والے سانحوں کا ردعمل ہے جو بےحس اور ظالم سیاستدانوں اور جابر حکمرانوں نے ہم پر مسلط کئے ہیں۔ ہم ایک سکوت اوڑھنے کے سوا کیا کر سکتے ہیں۔ ہمارے نطق و بیان پر ایسی آہنی سلاخیں گڑی ہوئی ہیں جس نے ہم کو عاجز کر رکھا ہے لیکن ہم اس کی بیگار ڈہونے پر مجبور ہیں اور ایک ایسے نظام میں جینے پر مجبور ہیں جو زلزلے میں سر پر آن پڑنے والے ملبے کی مانند ہے۔۔۔۔ اللہ ہی ہم پر رحم کرے  



    بجا کہا نوید۔ اللہ ہم پہ رحم فرمائے۔ نہ جانے یہ سکتہ کب ٹوٹے گا اور اس قوم میں کچھ زندگی کی رمق دکھائی دے گی :-s




    افتخار اجمل بھوپال: آپ کے تايا محترم کی وفات کا پڑھ کر دُکھ ہوا ۔ ہر کسی کا وقت مقرر ہے ۔ ہم راضی برضا اللہ ہيں ۔ اللہ آپ کے تايا محترم کو جنت ميں اعلٰی مقام عطا کرے اور پسماندگان کو صبرِ جميل عطا کرے ۔ آمين  



    ثمَ آمین اور بہت شکریہ انکل۔ اللہ کی رضا میں راضی رہنا ہی تو ہمارا ایمان ہے۔ زندگی رکتی تو نہیں لیکن جانے والوں کی کمی بھی پوری نہیں ہوتی۔

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔