Thursday, 1 July 2021

پاکستانی یکساں قومی نصاب۔ پرانے ٹرک کی نئی بتی

0 comments

: یکساں قومی نصاب کی چنیدہ خوبیاں

۔۔۔ یکسانیت کے بجائے تفریق کا فروغ ہو گیا۔ وژن سے لے کر اس کے عملی نفاذ تک ، اتنے تفرقے آ گئے کہ یکساں تو الگ اب قومی نصاب بھی چل گیا تو بڑی بات ہے۔

۔۔۔ بہتی گنگا میں ہر کوئی ہاتھ دھوئے جا رہا ہے۔ معیار کس بَلا کا نام ہے، کچھ سمجھ نہیں پا رہے۔ ۔۔

۔۔۔ کھلم کھلا بولیاں لگائی جا رہی ہیں۔ اور یہ ان بولیوں کا خراج طلبہ کے والدین کی جیبوں سے پورا کیا جائے گا۔ 


برسبیلِ تذکرہ:  'قومی نصاب' ہمیشہ سے ہی یکساں ہوتا ہے اور ہمارا بھی یکساں ہی تھا۔ اگر کبھی کسی کو اسے دیکھنے یا اس کا بغور مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہو تو وہ اس بات کی تائید کرے گا۔

Friday, 27 March 2020

COVID-19 Diaries - کرونا ڈائری۔ آج کی سچ 3

0 comments
کاش میرے ملک کے
 تمام شہری ایسے قرنطینہ کا وقت یوں بے فکری سے اور لطف
اندوز ہوتے گزار سکتے۔

   

Tuesday, 24 March 2020

COVID-19 Diaries - کرونا ڈائری۔ آج کی سوچ 2

0 comments
ایک تو ویسے ہی سارا گھر 'سماجی فاصلے' پرعمل پیرا ہوتے ہوئے گھر بیٹھا ہے۔ پھر بالآخر عثمان بزدار صاحب بھی جاگ گئے ہیں اور لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا ہے۔ لیکن ہمارے دفتر والوں کا ابھی کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ایسے میں دفتر بیٹھے میں یہی سوچ رہی ہوں کہ لوگوں کو حالات کی سنگینی کا احساس کیسے دلوایا جائے۔ کیا دو تین چھینکیں مارنے سے کوئی ڈرے گا؟

COVID-19 Diaries - کرونا ڈائری۔ آج کی سوچ 1

0 comments
سو ایک طویل عرصے کے بعد واپسی ہوئی بھی تو کس صورت میں۔ دنیا بھر میں اس وقت کرونا وائرس کی دہشت پھیلی ہوئی ہے۔ اور کیا ترقی یافتہ و ترقی پذیر، ہر ملک اس عفریت کا سامنا کرتے ہوئے یکساں مشکلات کا شکار ہے۔
بات پاکستان کی ہو تو معلوم نہیں اسے حالات کی ستم ظریفی کہنا چاہیے، ارباب اختیار کی نااہلی، عوام کی غیر سنجیدگی یا کچھ اور۔ اس وقت پوری قوم کا ذہن ماؤف ہے سو اس تحقیق کو کسی اور وقت کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں۔

میں یہاں ایک عام پاکستانی شہری کی روزمرہ کے احساسات شامل کرنے کی کوشش کروں گی۔

وزارتِ منصوبہ بندی، قومی منصوبہ بندی کمیشن اور نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ میں کتنے دنوں سے اس چیز کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ کاش کوئی سمجھا دے۔

 

Friday, 7 September 2018

بلاعنوان

0 comments
آج سے تقریبا ساڑھے سات برس پہلے یہ نظم دُکھے دل کے ساتھ  پوسٹ کی تھی۔ گزشتہ کل جب ساری قوم یومِ دفاع و شہدائے پاکستان منا رہی تھی، میرے ذہن میں پھر اسی کلام کےالفاظ گونج رہے تھے۔


فوجی بینڈ کی دھن ہر پاکستانی کے دل میں ایک خاص جوش و جذبہ جگاتی ہے اور انسان مزید پُرعزم ہو جاتا ہے لیکن اب میرے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔  بلکہ اس سال جس قدر جوش و جذبہ اور جگہ جگہ اشتہار، بِل بورڈ اور بینرز کی فراوانی دیکھنے کو مل رہی تھی مجھے اتنی ہی خاموشی اور دکھ محسوس ہو رہا تھا۔ نجانے کیوں؟  کیا یہ وطن سے لگاؤ اور محبت میں کمی ہونے کی نشانی ہے یا میں کچھ زیادہ ہی حقیقت پسند ہو گئی ہوں یا آخری بات یہ ہو سکتی ہے کہ یہ ایک بور انسان ہونے کی معراج ہے۔ 


Wednesday, 23 August 2017

اللہ کا شُکر!!!

1 comments
چند دن پہلے بازار جانے کا اتفاق ہوا۔   میں ایک دکان سے باہر نکلی تو  ایک چھوٹا سا  بچہ ہاتھ میں 14 اگست کے بیج اور چھوٹے جھنڈے پکڑے سامنے آ گیا۔ میں عموما ایسے بچوں سے ضرور کچھ خریدتی ہوں کہ کم از کم وہ ہاتھ تو نہیں پھیلا رہے۔ میں نے اس سے ایک بیج اور جھنڈا  خرید لیا۔۔ کافی دیر کے بعد وہی بچہ مجھے پارکنگ میں ملا اور کچھ خریدنے کو کہا۔ میرے یہ کہنے پر کہ بیٹا میں نے ابھی تو آپ سے چیزیں لی ہیں، اس بچے نے نہایت تمیزدارانہ انداز میں یہ کہتے ہوئے معذرت کی 'سوری آنٹی،  میں غلطی سے دوبارہ آ گیا'۔ اس کی اسی معذرت نے میرا دل موہ لیا اور میں نے اس سے بات چیت شروع کی۔
میں: بآپ پڑھتے ہو؟
بچہ: جی
میں: کس سکول میں؟
بچہ: ہماری گلی میں اقرا پبلک سکول ہے۔ وہاں جاتا ہوں۔ پہلی جماعت میں پڑھتا ہوں۔
میں: شاباش۔ پڑھنا نہیں چھوڑنا۔ آپ بہت اچھے بچے ہو۔ ان شاءاللہ بہت آگے جاؤ گے۔
بچہ: جی۔  میری  فیس زیادہ ہے اور امی اکیلی کام کرنے والی ہیں۔ اس لیے کہتی ہیں کہ چھٹی والے دن یہ کام کر لیا کرو تو ہمارے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ میں چھٹی والے دن اسی طرح مارکیٹ میں چیزیں بیچتا ہوں۔
میں: آپ لوگ یہیں قریب ہی رہتے ہیں؟
بچہ: نہیں آنٹی۔ میں کھنہ پل کے پاس رہتا ہوں۔
میں: وہ تو کافی دور ہے۔ آنا جانا کیسے ہوتا ہے؟
بچہ: جی۔ وہاں سے وین پر بیٹھ کر آتا ہوں۔ کچھ راستہ پیدل چلتا ہوں۔
میں: تو بیٹا کیا آپ کے پاس وین کے خرچے کے بعد کچھ بچت ہوتی بھی ہے یا نہیں؟
بچہ: 'بس اللہ کا شکر ہے۔ اچھا گزارہ ہو جاتا ہے۔'
میں ایک نو  دس سالہ بچے سے ایسا خوبصورت اور بامعنی جملہ سننے کی ہر گز توقع نہیں کر رہی تھی۔
 اس  کا 'اللہ کا شکر ہے' اس دن میرے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ مجھے اٹھتے بیٹھتے اس کا مطمئن انداز اور قناعت بھرا لہجہ یاد آتا ہے اور میں خود اپنے بارے میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہوں کہ میں کتنی بار اس خوبصورتی سے اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں۔ میرے تو  ہر شکر کے ساتھ 'اب مجھے یہ چاہیے' کا دم چھلا لگا ہوتا ہے اور میرا 'اللہ کا شکر ہے' عموما آٹو پر سیٹ ایک جملہ ہوتا ہے، نہ اس میں شکر کی کیفیت ہوتی ہے اور نہ قناعت کا رنگ۔ اور پھر میرے دل سے اس کے لیے دعائیں نکلتی ہیں کہ اتنے چھوٹا ہونے کے باوجود اس نے مجھے کتنا بڑا سبق سکھایا۔

واپس آتے ہوئے جب میں نے اس کی تھوڑی سی مدد کرتے ہوئے کہا کہ امی کو دینا تو اس نے   پیسے جرابوں میں رکھتے ہوئے ایک بار پھر بہت پیارے انداز میں کہا کہ 'میں ہر چیز امی کو دیتا ہوں۔'
مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ میں نے جس مقصد کے لیے اس کی مدد کی وہ پورا ہوا یا نہیں لیکن میں نے بہت دعاکی کہ اللہ تعالیٰ اسے  ہر برائی سے محفوظ رکھے اور اسے بہت کامیابیاں دے۔

Wednesday, 23 November 2016

سوچوں کا الجھا ریشم!

1 comments
بہت عرصہ ہو گیا دریچہ کھول کر بلاگنگ کی دنیا میں جھانکے ہوئے۔ ایک وقت تھا کہ بے ربط سوچوں کو بے ربط اندازمیں ہی سہی، لیکن الفاظ دینا ایسا مشکل نہیں لگتا تھا لیکن اب تو یہ حال ہے کہ الفاظ میں معمولی سا ربط بنانے میں ہی گھنٹوں گزر جاتے ہیں اور زندگی اس قدر تیز چلتی جاتی ہے کہ سوچوں کے اس ڈھیر کو چھوڑ فورا بھاگم بھاگ اگلے سٹاپ کی طرف بھاگنا پڑتا ہے۔ مجھے یاد ہے سکول کے دنوں میں کسی ڈرامے میں ایک شعر سنا تھا  جو فورا ذہن سے چپک گیا۔ 
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے سے جدا کس کو کریں
یہ وہی دن تھے جب اردو کی ٹیچر کی کوششوں سے ہم سب کا اردو زبان سے لگاؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ سو جہاں کچھ نیا دیکھنے یا پڑھنے کو ملتا فورا اردو کی کلاس میں ذکر کیا جاتا اوراس شعر کا مطلب  بھی انہی سے پوچھا۔ میری استاد نے بہت اچھا سمجھایا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ بیٹا اس شعر کی سمجھ آپ کو تب زیادہ اچھی آئے گی جب آپ عملی زندگی میں قدم رکھیں گی۔ اور اب مجھے یہ شعر اور اپنی اردو کی مس دونوں ہی اکثر یاد آتی ہیں۔ 

خیر۔ کبھی کبھی سوچوں کے الجھے ریشم کو سلجھانے کا موڈ بن ہی جاتا ہے۔ اسی موڈ کے زیرِ اثر آج بلاگ کھول کیا یہ سوچتے ہوئے کہ کچھ لکھا جائے۔ میرا خیال ہےابھی لیے اتنا سلجھاؤ کافی ہے۔ نیٹ پریکٹس ہو گئی۔ اب اگلی پوسٹ کی تیاری کرنی چاہیے۔