Wednesday 16 March 2016

ٹریفک جام!

1 comments
یوں تو میں مرفی صاحب کے بہت سے قوانین کی مداح ہوں لیکن ایک قانون جو مجھے روزانہ چند مخصوص اوقات میں یاد آتا ہے وہ ہے کہ جب آپ ایک طویل قطار کو چھوڑ کر چھوٹی قطار میں شامل  ہوں تو وہ طویل ترین ہو جاتی ہے. اور اس کی پہلی عملی مثال مجھے ہر صبح دفتر جاتے ہوئے دیکھنے کو ملتی ہے. اس وقت پچھلے آدھے گھنٹے سے میں اس اژدھام کا حصہ ہوں جہاں سامنے بڑے بورڈ پر 'چار قطاریں بنائیں' کا بورڈ لگا ہے اور اس وقت مجھے بمپر تا بمپر اور دروازہ تا دروازہ 8 قطاریں دکھائی دے رہی ہیں. اور مرفی کے قانون کا عملی مشاہدہ بھی ہو رہا ہے. کہ جب یہ آگے رکاوٹوں کے پاس پہنچتی ہی تو 8 قطاروں کو پھر 4 ہی بننا ہوتا ہے تو گردن تا گردن مقابلہ جاری ہے اور مجھے لگتا ہے یو ٹرن تک کے میرے 20 قدم گاڑی پر ابھی مزید 20 منٹ لے جائیں گے.  اور یہاں گاڑیوں کے رینگنے کے مقابلہ ابھی بہت دیر چلنے کا امکان ہے.
بہرحال  یہ روز کا معمول ہے. جس دن خوش قسمتی سے اس جگہ سے نکلنے میں صرف 10 سے 15 منٹ لگیں تو جیسے ہی میں دفتر کے مرکزی دروازے میں داخل ہوتی ہوں. دونوں گارڈز پہلے گھڑی کو دیکھتے ہیں پھر مجھے اور پھر سلام دعا کے بعد پہلا تبصرہ ہوتا ہے، آج ٹریفک کم تھی؟
لیکن مجھے اس رش اور تاخیر پر زیادہ پریشانی نہیں ہوتی کیونکہ اب یہ معمول کا حصہ بن گئی ہے. ویسے بھی جس نے لندن کی ٹریفک بھگت لی وہ صبر کا عادی ہو جاتا ہے. فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں آپ کی گاڑی اپنی قطار میں رہتے ہوئے رینگتی ہے یہاں آپ سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی طرح ایک سے دوسری قطار میں چھلانگ لگاتے رہتے ہیں. اب بطور پاکستانی اتنا تو حق بنتا ہی ہے. انفرادیت بھی کسی چڑیا کا نام ہے آخر.
سو میرا تجربہ کہتا ہے کہ جب آپ ایسے رش میں پھنس جائیں تو بجائے پریشان ہونے کے وہ کام کر لیں جو عام حالات میں کرنے کی فرصت نہیں ملتی. اور چیزوں کو مثبت انداز میں دیکھیں. مثلا:
درزی، دھوبی، موچی جس جس کی خبر لینی ہو اسے فون کرنے کا اور کوفت ختم کرنے کا اس سے اچھا کوئی موقع نہیں. خوب تسلی سے خبر لی جا سکتی ہے.
 بٹوے کی صفائی کرنا. اس سے نہ صرف یہ کہ فالتو پرچیاں ، کاغذ وغیرہ سے چھٹکارا ملے گا بلکہ ایسی ایسی بچھڑی چیزوں سے ملاپ ہو گا جنہیں آپ 'تم نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے' گا گا کر یاد کیا کرتے تھے.
اگر آپ واٹس ایپ کے متاثرین میں شامل ہیں تو فون گیلری کھولنے اور یہ جاننے کا سنہری موقع کہ کیا کیا خزانے جمع ہیں فون میں تصویروں اور ویڈیوز کی صورت میں جن کے بارے میں آپ کو علم ہی نہیں تھا اور ان میں سے کئی تو اتنے لوگوں نے فارورڈ کی ہوں گی کہ 'ہر سو، ہر جگہ، جا بجا' والا حساب ہو گا. اور آپ اس جہان میں ایسے گم ہو جائیں کہ 'میں وہاں ہوں جہاں سے مجھ کو بھی کچھ اپنی خبر نہیں آتی' کی تفسیر ہو جائیں گے.
فون کی صفائی: وہ ہٹ دھڑم پروموشنل پیغامات جن کو آپ کا فون ہزار کوشش کے باوجود بلاک نہیں کر سکتا اور وہ ہمارے 'ہر دل عزیز' مارننگ شوز اور ٹاک شوز کے میزبانوں کی طرح 'مان نہ مان، میں تیرا مہمان' پر عمل کرتے جوتوں سمیت فون میں گھسے چلے آتے ہیں، کو فون سے دیس نکالا دینے کے لیے یہ بہترین وقت ہے.
گاڑی کا جائزہ:  اکثر گاڑی کا جائزہ لینے کا موقع نہیں ملتا اور یہ کام بھی ٹریفک کے چلنے کا انتظار کرتے ہوئے کیا جا سکتا ہے. اگر آپ ڈرائیور نہیں ہیں تو جو بھی مسئلہ نظر آتا ہے ڈرائیور کو بڑھا چڑھا کر بتائیں لیکن اپنے رسک پر کیونکہ ڈرائیور اگر اصلی والا ڈرائیور ہے تو وہ جی جی کر کے بات سن لے گا اور گھر کے افراد میں سے کوئی گاڑی چلا رہا ہے تو آپ کا تبصرہ دو طرفہ تبادلہ خیال کی شکل اختیار کر سکتا ہے جس کے بعد سڑک خالی ہوتے ہی آپ کی گاڑی پاکستانی رکشہ کی طرح ہوا میں اڑتی جائے گی اور گاڑی کے ساتھ ساتھ انسانوں کے انجر پنجر ڈھیلے ہونے کے کافی امکانات ہو سکتے ہیں.
اور اگر گاڑی آپ خود چلا رہے ہیں تو جائزے میں سامنے آنے والے مسائل کو دوسروں کی نظر میں نہ آنے دینے کے لیے غور و فکر کے لیے مراقبہ کرنے کا بھی یہی بہترین وقت و موقع ہے.
 ابھی تک اتنا ہی لکھ سکی ہوں کہ اب ٹریفک رینگنا شروع ہو رہی ہے. باقی مثبت مشغولیت کے بارے میں پھر کبھی سہی.
ویسے مذاق برطرف، اس وقت کو بنا کوفت گزارنے کا سب سے بہتر حل تسبیح کرنا ہے. اور ایک آزمودہ نسخہ یہ بھی ہے. ٹریفک یا اسی جیسی رکاوٹ کے وقت سورہ قریش یا تیسرے کلمے کا ورد.
اللہ تعالٰی ہم سب کی مشکلات آسان فرمائیں. آمین