Sunday 28 June 2015

فرائض اور ہم!

2 comments
 بعض اوقات کچھ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کچھ کہے بغیر  نہیں رہ سکتا. روزہ ایک فرض عبادت ہے اور فرض عبادت کیسی ہی کٹھن کیوں نہ محسوس ہو اسے خوشدلی سے ادا کرنا ہی اس کی کامیابی ہے لیکن ہم لوگ جو دنیاوی خداؤں کے سامنے کچھ کہنے سے پہلے دس بار اس کے ممکنہ اثرات و نتائج کے بارے میں سوچتے ہیں اور پهر انتہائی نپی تلی بات کرتے ہیں کہ کہیں انہیں ناگوار نہ گزرے ، اللہ تعالیٰ کے احکام کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے ایک بار بهی نہیں سوچتے کہ یہ بات اللہ کو ناگوار نہ گزرے.  سو ادهر رمضان شروع ہوا نہیں ادهر روزے کے بارے میں ایسے ایسے ٹیکسٹ میسج فارورڈ ہونا شروع ہو گئے کہ بعض اوقات افسوس کے ساتھ حیرت بهی ہوتی ہے ..کیا ہم اس عبادت کی فرضیت اور روح کے بارے میں لاعلم ہیں اور یہ حیرت اس وقت دو چند ہو جاتی ہے جب ایسی بات یا مذاق کسی باعلم و باعمل شخصیت کی جانب سے ہو.  آج دن میں مجهے ایسا ہی ایک ٹیکسٹ ملا جس میں روزے کی شدت کے بارے میں مذاق کے انداز میں بات کی گئی تهی اور یہ ٹیکسٹ جن کی طرف سے آیا وہ چاہے دنیاوی طور پر باعلم نہ ہوں لیکن عموماً ان کی باتوں اور پیغامات میں دین سے لگاؤ کافی نمایاں ہوتا ہے. اور ابهی ابهی مغرب کے بعد ایسا ہی ٹیکسٹ ایک ایسی شخصیت کی طرف سے ملا جو دنیاوی طور پر بهی انتہائی باعلم ہیں اور دینوی طور پر بهی. ماشاءاللہ حج اور عمرے ہی سعادت بهی حاصل کی ہوئی ہے لیکن ان کے ٹیکسٹ میں بهی بعینہ وہی بات تهی. وہی فارورڈڈ پیغام کلچر جہاں ہم ایک لمحہ بهی غور کیے بغیر پیغام آگے بھیجنا اپنا فرض سمجھتے ہیں.
نجانے مجهے کیوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں مار ہی اس لیے کها رہے ہیں کہ ہم ہر سطح پر اور ہر حیثیت میں 'فرائض' کو مذاق میں اڑانے کے عادی ہو گئے ہیں.