Tuesday 26 November 2013

سلام ٹیچر!

5 comments
پاکستان میں معیارِ تعلیم کی تنزلی کا رونا کوئی نئی بات نہیں۔ آج صبح بھی میں نے یہ خبر پڑھی کہ یونیسکو نے پاکستان کو معیاری تعلیم کے لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں 120 ممالک میں 113واں نمبر دیا ہے۔ اس خبر میں اگر کچھ مثبت ڈھونڈنا ہو تو وہ یہ ہے کہ ابھی بھی ہم سات ممالک سے بہتر تعلیم دے رہے ہیں :)۔
باقی رہی پریشانی کی بات تو گھوسٹ سکولوں ، جوابدہی کی روایت کا ناپید ہونے،  ہر کسی کو سکول کھولنے کی اجازت دینے اور روایتی سرکاری انداز میں کام کرنے جیسے عناصر اس پریشانی کی وجہ ہیں۔ جس پر بہت بحث اور بات ہوتی رہتی ہے لیکن چونکہ ہم گفتار کے غازی ہیں تو یہ سب کچھ مباحثوں تک ہی محدود رہتا ہے۔

آج کی پوسٹ ہمارے ماشاءاللہ اساتذہ کرام کے بارے میں ہے۔ جب اس شعبے کو اپنانے کا معیار یہ رہ جائے کہ جو کسی اور شعبہ میں کامیاب نہ ہو سکے ، وہ استاد بن جاتا ہے تو معیار کی بات کیسے کی جائے گئ۔ ویک اینڈ کی بات ہے کہ میں اپنے بھتیجے کو جو شہر بلکہ ملک کے ایک بہترین سمجھے جانے والے سکول سسٹم میں زیرِ تعلیم ہیں ، کو کلاس ٹیسٹ کی تیاری کروا رہی تھی۔ اردو کی  کاپی اور کتاب کھول کر ہر صفحے پر مجھے اتنے دھچکے لگے جیسے شہر کی نئی تعمیرشدہ ٹوٹی ہوئی سڑک پر سفر کرتے لگا کرتے ہیں۔ صرف ایک دو مثالیں لکھوں گی۔
سوال: حضرت محمد (ص) کا روضہ مبارک کس ملک میں واقع ہے؟
جواب: آپ (ص) کا روضہ مبارک 'مدینہ منورہ' میں واقع ہے۔
یہ سوال جواب اردو کی استاد نے خود لکھوائے ہیں۔

تخلیقی لکھائی:
میرا دوست
علی میرا دوست ہے۔
یہ میرا ہم جماعت ہے۔
یہ بہت اچھا لڑکا ہے۔
یہ لاہور میں رہتا ہے۔

بندہ پوچھے کہ لکھنے والا بچہ تو اسلام آباد میں پڑھ رہا ہے۔ اور اس کا ہم جماعت دوست لاہور میں رہ رہا ہے۔ یا تو کوئی جادو ہے یا پھر کہیں سکائپ کے ذریعے تو پڑھایا نہیں جاتا۔ 
پھر یہ کہ تخلیقی لکھائی تو بچے کی اپنی کاوش ہوتی ہے۔ ٹیچر خود کیسے لکھوا رہی ہیں اور جب لکھوا رہی ہیں تو کم از کم یہ تو دیکھ لیں کہ کیا لکھوا رہی ہیں۔
یہ تو دو مثالیں ہیں۔ مزید بھی ایسے ایسے شگوفے تھے کہ ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
   
مزید اتفاق یہ  ہوا کہ اگلے ہی دن مجھے ایک آفیسر کی ایک سکول وزٹ کی رپورٹ پڑھنے کو ملی۔ جنہوں نے بچوں کے سپوکن انگلش کمیونیکیشن سکلز پر تبصرہ کچھ ایسا لکھا تھا کہ انہیں ایک جماعت میں بچے اردو پڑھتے ملے۔ انہوں نے جب ایک بچے سے ہوچھا کہ اس سبق میں کیا ہے تو بچے نے پورے سبق کا خلاصہ 'انگریزی' میں بتایا۔ (جو کہ ان آفیسر کے خیال میں بہت خوشی کی بات تھی)۔ سو انہوں نے نہ صرف وہاں اس بچے کو شاباش دی بلکہ واپس آنے کے بعد اس بچے کو اس کی اچھی انگریزی پر بطور انعام ایک عدد کتاب بھی بھیجی۔ 

یہ کسی ایک استاد یا ایک ماہرِ تعلیم یا افسرِ تعلیم کی بات نہیں ہے۔ یہ ایک پورے شعبے کی نمائندگی ہو رہی ہے۔ ہمارے اساتذہ اور سکول صرف تعلیم کو ذریعہ آمدن سمجھ رہے ہیں۔ جب تعلیم کاروبار بن جائے تو پھر معیار گرنے کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اور یہی ہمارا ا المیہ ہے۔  

Sunday 17 November 2013

میرے شہر کی سڑکوں پر جل رہے ہیں دیے خون کے!

1 comments
راولپنڈی اور اس کے باسیوں پر گزشتہ دو دنوں سے جو کچھ گزر رہی ہے اس میں مزید اضافہ ان نام نہاد رہنماؤں ، علمائے کرام اور تجزیہ نگاروں کے وہی گھسے پٹے انداز و بیانات کر رہے ہیں۔  ایک طرف ایک صاحب بھڑکیں لگا رہے ہیں کہ میں راولپنڈی کا منتخب نمائندہ ہوں۔ میں یہاں کے ہر شیعہ سنی کو پہچانتا ہوں۔ یہ سب باہر سے منگوائے گئے لوگ ہیں،۔ یہ حکومت کی ناکامی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور میرا دل چاہتا ہے کہ کاش کوئی ان موصوف کے منہ پر بڑی سی ٹیپ لگا کر ان کو ان کے سامنے ان کی اپنی اتنے سالوں کی کارکردگی اور ان کی عوام سے ہمدردی کے ثبوتوں پر مبنی فلم ہی چلا دے۔ تا کہ کچھ دیر کو ہی سہی ان کو یہ تو احساس ہو کہ سالہا سال سے انہوں نے بھی اپنے حلقے اور اپنے لوگوں کے لئے کیا کچھ کیا ہ یا کل سے اب تک لوگوں کے لئے کیا کیا ہے؟
دوسری طرف ہمارے علمائے کرام ایک کے بعد ایک آ کر اپنے گراں قدر خیالات سے عوام کو فیض یاب کئے جا رہے ہیں۔ انہیں اس سازش میں بیرونی ہاتھ دکھائی دے رہا ہے۔ انہیں خود اپنی تعلیمات رواداری اور حوصلے اور برداشت پر مبنی محسوس ہوتی ہیں اور جو کچھ ہوا اس میں سراسر حکومت اور پولیس کی کوتاہی نظر آ رہی ہے۔ اور میں سوچ رہی ہوں کہ کاش کوئی ان سے یہ پوچھ لے کہ وہ جو محرم کے دس دن اور عین 10 محرم کو بھی پورے ملک میں شام تک ملک بھر میں خیر خیریت سے تمام جلوس نکلے بھی اور ختم بھی ہوئے ، اس کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے؟ اور کوئی ان سے یہ بھی پوچھے کہ اگر سب کچھ ریاست کی ذمہ داری ہے تو وہ کیوں عوام کے جتھوں کے جتھے لیکر سڑکوں پر نکلتے ہیں؟ ان کو یہ حق کس نے دیا؟ 
اور یہ میڈیا والے جو ایک معمولی سی بات کو بریکنگ نیوز بنا بنا کر ساری قوم کے اعصاب پر سوار ہو جاتے ہیں، جو اپنی مرضی کی بات کو عوام کے ذہنوں میں ڈالنے کے لئے اس قدر مؤثر مارکیٹنگ کرتے ہیں کہ ہر پاکستانی 'پاکستان آئڈل' بننے کے لئے سڑکوں پر نکل آتا ہے ، کیا انہوں نے کبھی مروت، برداشت ، رواداری اور اخوت پسندی پر کوئی پروگرام چلایا؟ کیا انہوں نے کبھی یہ سوچا کہ ان کے اوپر کس قدر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
معلوم نہیں یہ کیسے مسلمان ہیں اور ان کا اسلام کس نے بنایا ہے؟
میرا اسلام تو مجھے دوسروں کے خیالات و عقائد کا احترام کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
میرا سلام تو مجھے کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے اس کے نتیجے کو سامنے رکھنے کی ہدایت کرتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو میری زبان ، ہاتھ یا عمل سے کسی کو نقصان پہنچے۔
میرا اسلام تو امن و سلامتی کا پیغام دیتا ہے۔ لیکن یہ کیا ہے کہ ایک مبارک مہینے کا مبارک دن ، 10 محرم الحرام جس کی اہمیت سانحہ کربلا کے علاوہ  بھی اس قدر زیادہ ہے کہ ہر مسلمان کے لئے اس کا احترام لازم ہے۔ پھر جمعۃ المبارک کا دن۔ سنی ہو شیعہ کیا دونوں کو یہ یاد دلانے کی ضرورت تھی کہ اس مہینے میں قتل و غارت گری ممنوع ہے۔ اور اس ممانعت کا احترام تو اسلام سے پہلے بھی کیا جاتا تھا۔ لیکن افسوس کہ خود کو مسلمان کہنے والوں نے اسی ماہ اور اس مبارک دن کیا کیا۔  اس دن جو ہوا اس میں جتنے لوگ مارے گئے ، ان کے تو خاندان اجڑ گئے ، پھر اس کے بعد جن کی املاک کو نقصان پہنچا ، ان کے خاندانوں کے لئے بربادی کا پیغام آ گیا، اور وہ جو دو دن سے دیہاڑی نہیں لگا سکے ، ان کے خاندان بھوک کا شکار ہو جائیں گے۔  فاقے ہوں گے یا کوئی بیمار گھر میں ایڑیاں رگڑتا رہے گا۔ فرق نہ تو کسی شیخ, خان ، شریف یا چودھری کو پڑے گا ، نہ کسی مفتی و مولانا کو پڑے گا اور نہ ہی کسی میر ، بخاری، لقمان ,شیرازی اور منہاس کو پڑے گا۔ فرق پڑے گا تو عوام کو پڑے گا ۔ اس عوام کو جسے فرقوں اور مسالک کے اختلافات کی الف بے کا بھی معلوم نہیں ہوتا لیکن وہ بھیڑ چال کا شکار ہو کر ان جلسوں کا حصہ بھی بنتے ہیں اور ان تفرقے بازیوں کا ایندھن بھی۔ تو پھر بھگتیں بیٹھ کر۔