Friday 27 April 2012

دورۂ چکوال

4 comments
نہیں نہ تو میرا وفاقی یا صوبائی کابینہ میں اعلیٰ عہدے پر تقرر ہو گیا ہے کہ دوروں پر روانہ ہو جاؤں اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی میں شمولیت اختیار کر کے جلسے جلوسوں والے 'طوفانی' دورے شروع کئے ہیں۔ بس گزشتہ روز چکوال جانے کا اتفاق ہوا جسے میں نے دورۂ چکوال کا نام دے دیا۔ دورانِ سفر بہت سے دلچسپ چیزیں مشاہدے میں آئیں۔
پہلی یہ کہ جی۔ٹی۔روڈ سے چکوال کے لئے لنک روڈ پر مڑتے ہی عمارتوں کی دیواروں پر جلی حروف میں 'ہم راجہ پرویز اشرف تو اہم وفاقی وزارت ملنے پر دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں' کے پیغامات لکھے نظر آئے۔ اور اگر میں یہ کہوں کہ دونوں اطراف پر ہر دوسری دیوار پر یہ پیغام لکھا ہوا ہے تو اس میں ہر گز مبالغہ نہیں ہو گا۔ مجھے سفر کبھی بھی فاصلے کے حساب سے یاد نہیں رہتا لیکن ہماری منزل چکوال کے مین شہر سے کچھ پہلے تھی اور سیدھی سڑک پر ہمیں وہاں پہنچتے تقریباؐ ڈیڑھ گھنٹا لگ گیا۔ اور اس ڈیڑھ گھنٹے کے دوران یہ پیغام ہر دوسری دیوار پر لکھا دکھائی دیا۔ اور کہیں کہیں بینرز بھی نظر آئے۔ اللہ ہماری قوم کو ہدایت دیں۔ جہاں مبارکباد دینے کا موقع ہوتا ہے یا جو واقعی اس کے مستحق ہوتے ہیں انہیں معتوب قرار دے دیا جاتا ہے اور جو اداروں اور نظام کا بیڑہ ڈبو دیتے ہیں ان پر مبارک سلامت کے ڈونگرے برسا ددیتے ہیں اور پھر ملکی حالات و واقعات پر رونا دھونا بھی فُل ٹائم جاری رہتا ہے۔ اسی لئے میں اپنی قوم اور اپنے لئے میں ہمیشہ یہ کہتی ہوں۔
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

خیر اگلا مشاہدہ یہ تھا کہ اس تمام راستے میں اتنے زیادہ سکول دیکھے کہ ابھی تک میری حیرانگی ختم نہیں ہو رہی۔ سڑک کے ساتھ ساتھ سرکاری اور غیرسرکاری ہر طرح کے سکولوں کی بھرمار ہے۔ صبح صبح اتنے زیادہ بچے پیدل اور گاڑیوں پر دیکھ کر میں نے اپنی روایتی قومی جذباتی پن سے کام لیتے ہوئے چکوال اور پھر پاکستان کی شرح خواندگی کو 100 فیصد سے بھی زیادہ قرار دے دیا۔ :daydream سکولوں خصوصاً پرائیویٹ سکولوں کی مشرومنگ تو ماشاءاللہ ہر شہر میں
ایسی ہی ہے اور جس کے پاس کوئی ڈگری یا ہنر نہیں ہے یا کوئی کام نہیں ہے لیکن تھوڑا بہت سرمایہ بھی ہے، دو کمروں کا مکان کرایے پر لیکر ایک سکول کھول لیتا ہے۔ اور پھر آہستہ آہستہ اپنا مکان کئی منزلہ بنا لیتا ہے 'ھذا من فضل ربی' کی تختی لگا کر۔ جو بات مجھے دلچسپ لگی وہ ان سکولوں کے نام تھے۔
برائٹ پبلک سکول
ریڈینٹ ہاؤس سکول
تعمیرِ ملت پبلک سکول
انٹرنیشنل سکول سسٹم
اکیڈمی آف سائنس اینڈٖ ریسرچ (اور یہ سکول واقعتاؐ دو کمروں پر مشتمل تھا جہاں کوئی دیوار کوئی صحن کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا)
دا برینز سکول اینڈ کالج
برائٹ روز سکول
ڈیفوڈلز سکول
ینگ سکالرز سکول سسٹم
دی ایجوکیٹرز
دا سٹی سکول سسٹم
بیکن ہاؤس سکول سسٹم
بحریہ فاؤنڈیشن
اف۔۔اس کے علاوہ بھی بہت سے۔ لیکن اب نام یاد نہیں آ رہے۔ کیونکہ جاتے ہوئے صبح جلدی نکلے تھے تو میں آدھی سوئی ہوئی تھی اور آتے ہوئے تھکی ہوئی تھی کہ نوٹس نہیں لے سکی اور نہ تصویریں۔
تیسری اہم بات ایک باہمت و بہادر خاتون سے ملاقات تھی۔ انتہائی خوبصورت لہجے میں بولنے والی یہ خاتون دکھنے میں بھی اتنی ہی اچھی لگ رہی تھیں۔ اور جب تک انہوں نے خود نہیں بتایا۔ مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ ان کا ایک بازو کندھے سے کٹا ہوا ہے۔ انہوں نے دوپٹہ اس طرح اوڑھ رکھا تھا کہ بازو کا نہ ہونا محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ بہرحال یہ خاتون ایک کامیاب خاتونِ خانہ بھی ہیں اور پیشہ ورانہ زندگی میں بھی اتنی ہی کامیاب ہیں۔
یہ خاتون 2005ء کے زلزلے میں آزاد کشمیر یونیورسٹی مظفر آباد میں پڑھتی تھیں۔ زلزلے میں ان کے ہاسٹل کی عمارت منہدم ہوئی تو یہ اٹھائیس گھنٹے ملبے کے نیچے دبی رہیں۔ باہر نکالنے کے بعد جب انہیں راولپنڈی شفٹ کیا گیا تو ان کے بازو کے ٹشوز میں اس بری طرح ٹوٹ پھوٹ ہو چکی تھی کہ بازو کاٹ دیا گیا۔ کچھ دنوں بعد پشت کی سائیڈ سے پیپ رسنے لگی اور مزید ٹیسٹ ہوئے تو معلوم ہوا کہ ان کی دو پسلیاں بھی ٹوٹ چکی تھیں اور اندورنی طور پر زخم اس طرح خراب ہو رہے تھے کہ میجر سرجری کے بغیر کچھ کرنا ناممکن تھا۔ پیٹ اور پشت دونوں طرف سے سرجری کی گئی۔ اور اب ان کے جسم کے پچاس فیصد سے بھی زیادہ حصے پر آپریشن کے ٹانکے لگے ہوئے ہیں۔ لیکن انہوں نے مایوس ہونے کے بجائے اپنی تعلیم مکمل کی اور پھر جاب بھی شروع کر دی۔ 2009ء میں ان کو مصنوعی بازو لگایا گیا لیکن وہ اس کو استعمال میں لاتے ہوئے جب بہت زیادہ کام کرنے لگیں تو اس کا اثر پھر پشت کے مسلز پر پڑا اور وہ پھٹنے لگے۔ سو اب وہ اس بازو کو استعمال نہیں کرتیں۔ ان کی شادی ایک بہت اچھے اور سلجھے ہوئے آدمی سے ہوئی جنہوں نے ان کی معذوری کو ان کے لئے طعنہ نہیں بنایا اور اب یہ خاتون اپنا گھر خود سنبھال رہی ہیں اور ساتھ ساتھ قائدِ اعظم یونیورسٹی سے ایم فل میں داخلے کی فہرست لگنے کی منتظر ہیں۔بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو مختصر سی ملاقات میں بھی آپ کو متاثر کر جاتے ہیں اور ہھر ان کا خیال اور ان کی مثال ذہن میں ہمیشہ تازہ رہتی ہے۔ میرے لئے یہ خاتون بھی ایسی ہی ایک مثال تھیں۔ جنہوں نے ایک دفعہ بھی یہ نہیں کہا کہ 'میں ہی کیوں' یا 'مجھے بہت مشکل یا تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔' مسکرتے لبوں اور نم آنکھوں والی یہ مثال مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کو اسی طرح حوصلہ و ہمت عطا کرتے رہیں اور وہ زندگی میں یونہی کامیابیاں سمیٹتی رہیں۔ ثمَ آمین