Wednesday 4 January 2012

مثبت سوچ

5 comments
آج ہمارا ٹی کیفے والے چاچا کافی دینے آئے تو گیس کی لوڈشیڈنگ اور قیمت بڑھنے، سی این جی والوں کی ہڑتال، اور گزشتہ دو دنوں سے ٹرانسپورٹ کے مسائل کے بارے میں بتانے لگے۔ بات کرتے کرتے انہوں نے کہا کہ ہم لوگ اوپر والوں اور اختیار رکھنے والوں کو الزام دیتے ہیں جو کسی حد تک تو درست ہے لیکن ہم اپنی ذاتی اور انفرادی حیثیت میں بھی تو اپنے فرائض کی بجاآوری میں کوتاہی کرتے ہیں۔ جب بجلی اور گیس قسمت سے ہمیں بغیر تعطل کے ملتی ہے تو اکثریت اسے انتہائی لاپرواہی سے استعمال کرتی ہے۔ بات سے بات نکلی تو کسی نے کہا کہ ہم جن لوگوں میں رہتے ہیں یا جن کے ساتھ کام کرتے ہیں ان سے بہت کچھ سیکھتے ہیں اور وہ ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ سو ہمیں کوشش کرنی چاہئیے کہ دوسروں سے سیکھیں بھی اور انہیں اچھی بات بتائیں بھی۔ اس بات پر ان چاچا نے دو بہت اچھی باتیں سنائیں۔
(یہ صاحب سابق فوجی ہیں اور بہت سے بڑے افسروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سب میں ایک جنرل صاحب اور ان کے خاندان سے سیکھے گئے سبق کو کبھی نہیں بھول سکتے۔)
1۔ "فوج میں کام کرتے ہوئے میں نے کافی عرصہ ایک جنرل صاحب کے گھر کام کیا۔ جنرل صاحب کی بیگم صاحبہ نے مجھے کبھی نہیں ٹوکا اور نہ ڈانٹا سوائے ایک موقعے کے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ میں اکثر کچن یا کسی کمرے سے نکلتے ہوئے بتی جلتی ہی چھوڑ دیتا ہوں۔ تو انہوں نے ایک دن مجھے بلا کر کہا 'یہ جو بجلی ہم جلا رہے ہیں اس کی ادائیگی ہماری جیب سے نہیں بلکہ عوام کے پیسوں سے ہوتی ہے۔ اگر ہم یوں ہی بجلی ضائع کرتے رہے تو ہمیں تو شاید فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن ان لوگوں کے لئے بہت مشکل ہو جائے گی۔اور اس کے ذمہ داروں میں میں اور تم بھی شامل ہوں گے۔'
چاچا کا کہنا تھا کہ وہ 20 سال پہلے ملا یہ سبق آج تک خود بھی نہیں بھولے اور دوسروں کو بھی اسی بھولنے نہیں دیتے۔

دوسری بات: "میں سگریٹ بہت پیا کرتا تھا۔ ایک دن جنرل صاحب کے بیٹے نے، جو اس وقت 10-12 سال کا ہوگا، مجھے کو سگریٹ پیتے دیکھا۔ جب میں سگریٹ ختم کر چکا تو اس نے پوچھا۔ 'صاب۔ آپ کے پاس ایک روپیہ ہے؟'۔ میں جواب دیا کہ ہے تو اس نے مجھے پیسے نکالنے کو کہا۔ پھر اس نے مجھ سے ماچس مانگی جو میں نے دے دی۔ بچے نے تیلی جلائی اور میرے ہاتھ میں پکڑے نوٹ کو آگ لگانے لگا۔ میں نے فورا ہاتھ پیچھے کیا اور کہا 'یہ کیا کر رہے ہیں پیسے جلا رہے ہیں۔ ضائع ہو جائے گا۔' اس پر وہ بچہ بولا۔ جو آپ سگریٹ پی رہے ہیں وہ بھی تو آپ اپنا پیسہ جلا رہے ہیں۔' ۔ بچے کی بات نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں نے اس دن کے بعد سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا۔ ایک چھوٹے سے بچے نے مجھے جس طرح سمجھایا شاید میں کبھی بھی سمجھ نہ سکتا۔"

میں یہ بات کسی اور سے سنتی تو اسے مبالغہ آرائی سمجھتی (کیونکہ بڑے افسران چاہے وہ کسی بھی ادارے سے ہوں، ایسی سلجھی ہوئی سوچ کم ہی دیکھنے میں آتی ہے)، لیکن آج کی گفتگو کے بعد میرا یقین ایک بار پھر اس بات پر پختہ ہو گیا ہے کہ ایک چھوٹی سی کوشش کسی کی زندگی میں بہت بڑی مثبت تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے اور ہم کسی بھی وقت کسی سے بھی کوئی اچھی بات سیکھ سیکھتے ہیں قطع نظر ان کی عمر، مرتبے اور حیثیت کے۔ چاچا کو ان کی مالکن اور ایک بچے نے جو سکھایا وہ میں نے ان سے سیکھا اور اب مجھے چاہئیے کہ اس پر عمل بھی کروں اور دوسروں کو بھی بتاؤں۔