Thursday 31 December 2009

میں سال کا آخری سورج ہوں!

9 comments
ایک اور سال بیت چلا۔ آخری دن وہی روایتی سوال خود سے اور دوسروں سے پوچھا جاتا ہے۔ یہ سال کیسا گزرا؟ کیا کھویا کیا پایا؟ جو کام کرنے کا ارادہ تھا مکمل ہوئے یا نہیں؟

2009ء میں بحثیتِ پاکستانی اتنا کچھ کھویا ہے کہ شمار کرنا مشکل ہے۔ وطن سے دُور رہ کر بھی سکون نہیں اور وطن میں رہ کر بھی ایک دھڑکا لگا رہتا ہے۔ کتنا عجیب لگتا ہے جب قدم قدم پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہتھیار بند افراد سے سامنا ہوتا ہے۔ جب ہر کوئی اپنے آس پاس موجود لوگوں کو مشتبہ نظروں سے دیکھتا ہے۔ جب اخبار اٹھاتے، خبریں سنتے ہوئے اور کسی کا فون آتے ہی بے اختیار منہ سے خدا خیر کرے نکلتا ہے۔ :-( پھر بھی زندگی رواں دواں ہے۔ اور امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چُھوٹا :smile ۔ مشکل حالات کے باوجود اپنا گھر اپنا ہی ہے۔ اپنا تو یہی یقین ہے کہ ؀ جو مزہ اپنے چوبارے ، نہ بلخ نہ بخارے۔ :) ۔ اللہ کرے آنے والا سال پاکستان اور ہم سب کے لئے امن و سلامتی کا پیامبر ثابت ہو۔ ثمَ آمین :pray

اس سال زندگی مصروف سے مصروف تر ہوتی گئی۔ سارا سال ہی جیسے سفر میں گزر گیا۔ بہت سے پرانے دوستوں سے رابطہ بحال ہوا جن میں سراسر قصور انہی لوگوں کا تھا کہ میں جہاں بھی ہوں وہ مجھے ڈھونڈ نکالتی ہیں۔ اسی طرح بہت سے اچھے لوگ شاید ناراض ہو گئے ہیں کہ ان سے رابطہ برقرار رکھنے میں سستی ہو گئی :confused ۔ اللہ کرے 2010ء میں یہ ناراض لوگ اپنی ناراضگی بھول جائیں۔ :cry:

اسی دعا کے ساتھ کہ سب کے ناراض دوست مان جائیں، نئی کامیابیاں نصیب ہوں اور دل سکون و اطمینان کی دولت سے مالا مال ہو جائیں۔ نئے سال کی آمد پر سب کے لئے نیک خواہشات کا تحفہ۔ :flwr
نئے سال کے لئے قرارداد بنانے کا کم از کم مجھے کوئی فائدہ نہیں ہوتا کہ میں وہ سب کام کر لیتی ہوں جن کا نئے سال کے ایجنڈے سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا جبکہ قرارداد کا حشر ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ اقوامِ متحدہ میں کشمیر کے متعلق داخل کردہ یادداشتوں کا۔ :sadd:


خوش آمدید 2010ء اور الوداع 2009ء

RiverJhelum

میں سال کا آخری سورج ہوں
میں سب کے سامنے ڈوب چلا
کوئی کہتا ہے میں چل نہ سکا
کوئی کہتا ہے کیا خُوب چلا
میں سب کے سامنے ڈوب چلا
اس رخصتِ عالم میں مجھ کو
اک لمحہ رخصت مل نہ سکی
جس شب کو ڈھونڈنے نکلا تھا
اس شب کی چاہت مل نہ سکی
یہ سال کہاں، اک سال کا تھا
یہ سال تو اک جنجال کا تھا
یہ زیست جو اک اک پَل کی ہے
یہ اک اک پَل سے بنتی ہے
سب اک اک پَل میں جیتے ہیں
اور اک اک پَل میں مرتے ہیں
یہ پَل ہے میرے مرنے کا
میں سب کے سامنے ڈوب چلا

اے شام مجھے تُو رخصت کر
تُو اپنی حد میں رہ لیکن
دروازے تک تو چھوڑ مجھے
وہ صبح جو کل کو آئے گی
اک نئی حقیقت لائے گی
تُو اُس کے لئے، وہ تیرے لئے
اے شا،م! تُو اتنا جانتی ہے
اک صبحِ امید ، آثار میں ہے
اک در تیری دیوار میں ہے
اک صبحِ قیامت آنے تک

بس میرے لیے بس میرے لیے
یہ وقت ہی وقتِ قیامت ہے
اب آگے لمبی رخصت ہے
اے شام جو شمعیں جلاؤ تم
اک وعدہ کرو ان شمعوں سے
جو سورج کل کو آئے یہاں
وہ آپ نہ پَل پَل جیتا ہو
وہ آپ نہ پَل پَل مرتا ہو
وہ پُورے سال کا سورج ہو
اے شام مجھے تو رخصت کر!

کلام: لطیف ساحل

Tuesday 29 December 2009

اُسے کہنا دسمبر جا رہا ہے!

5 comments

اُسے کہنا دسمبر جا رہا ہے


وہی لوگوں سے روٹی کا نوالہ
چھین لینے کی حریصانہ پراگندہ سیاست
سیاہ کاروں کے ہاتھوں میں چیختی، سسکتی ہماری ریاست
جہاں مائیں۔۔۔۔جگر گوشوں کو
اپنے خون میں ڈوبی ہوئی
لوری سناتی ہیں
جہاں پر خواب میں سہمے ہوئے بچوں کی آہیں ڈوب جاتی ہیں
یہ میرے سامنے سے کیسا موسم جا رہا ہے

اُسے کہنا دسمبر جا رہا ہے


وہی سہمے ہوئے وعدے
لہو میں تر دعائیں
لرزتی کانپتی روتی صدائیں
عبادت کرنے والوں کو بلاتی ہیں
بھلائی کی طرف آؤ
بھلائی کی طرف آؤ
مگر ایسا نہیں ہوتا
مگر ایسا نہیں ہوتا
خدا اور آدمی کے درمیان
ایک خوف کی دیوار چڑھتی اور بڑھتی جا رہی ہے
اسی جانب اندھیروں کا سمندر جا رہا ہے

اُسے کہنا دسمبر جا رہا ہے


میرا قومی خزانہ لوٹنے والوں کے پیچھے ہاتھ کس کا ہے
اور ایسے لالچی لوگوں کو حاصل ساتھ کس کا ہے
وطن والوں کی خواہش ہے
کہ یہ سب لوگ
رسنِ صبح تک پہنچیں
یا دارِ شام تک پہنچیں
یہ جس انجام کے قابل ہیں
اس انجام تک پہنچیں
کہ ذلت کی طرف ان کا مقدر جا رہا ہے

کلام: فاروق اقدس

Monday 28 December 2009

مدینے میں صبا جانا تو اتنا کام کر دینا- نعت

2 comments
مدینے میں صبا جانا تو اتنا کام کر دینا



مدینے میں صبا جانا تو اتنا کام کر دینا
رسول اللہ ﷺ کو میری غریبی کی خبر دینا
یہ کہہ دینا ، ہزاروں عیب رکھتا ہوں ، ہنر دینا
نہ دل دینا ، نہ در دینا، نہ زر دینا، نہ گھر دینا
تمہیں دیکھا کروں آٹھوں پہر ، ایسی نظر دینا
رسول اللہ ﷺ کو میری غریبی کی خبر دینا

کئے ہیں جُرم اتنے اس لیے پچھتا رہا ہوں میں
گناہوں کے بھنور میں ڈوبتا ہی جا رہا ہوں میں
چلا آیا تیرے در پر تو بیڑا پار کر دینا
رسول اللہ ﷺ کو میری غریبی کی خبر دینا

شبِ اسراء کے دولہا تمہاری دُھوم ہے گھر گھر
پلاتے ہو مئے توحید مستانوں کو بھر بھر کر
سوالی ہوں تیرے در کا ، مری جھولی کو بھر دینا
مدینے میں صبا جانا تو اتنا کام کر دینا
رسول اللہ ﷺ کو میری غریبی کی خبر دینا

نعت خواں: علی حمزہ (نُوری)

نذرِ امام حُسین (رض)

0 comments

فکرِ انسانی کو دے گی ارتقا کی روشنی

یہ مدینے کی ، نجف کی، کربلا کی روشنی

شمعیں گُل کر دی گئیں بزمِ حُسینی کی مگر

تھی شبِ عاشور میں اہلِ صفا کی روشنی

اس میں ہر نقشِ حق و باطل نظر آتا ہے صاف

کربلا کی روشنی ہے، کربلا کی روشنی

ہر قدم رکھا تصور، روضۂ شبیر کا

ہم نے راہِ کربلا میں ، رہنما کی روشنی

دل میں غم شبیر کا ، آنکھوں میں اشکِ تعزیت

ان عزا خانوں میں ، ہم نے تو سدا کی روشنی

نور چشمِ مصطفیٰ کے روضۂ پُر نُور پر

سب نے کچھ مانگا مگر، ہم نے دعا کی روشنی

شام کی راہوں میں عابد پابجولاں تھے مگر

دُور تک پھیلی ہوئی تھی ، نقشِ پا کی روشنی

مجھ کو تابندہ رکھا سوزِ غمِ شبیر نے

عمر بھر زخمِ محرم نے عطا کی روشنی

تازہ تر رکھا غمِ شبیر اشک و آہ نے

نخلِ ماتم میں رہی آب و ہوا کی روشنی

سننے والوں کو بھی کچھ نورِ سماعت مل سکے

اس لیے ہر منقبت میں ہم نوا کی روشنی

کربلا کی روشنی میں کہہ کے تابش کشھ سلا

ہم نے ایوانِ ادب میں بارہا کی روشنی

 

کلام: تابش دہلوی

Wednesday 23 December 2009

واپسی

0 comments
Back after a long visit to Azad Kashmir educational institutes with a foot sprain tale.

Couldn't resist taking snapshots of knives and guns in Bhimber.

Photobucket

Friday 11 December 2009

میں نے یہ جانا!

2 comments
“ہم لوگوں کے لئے یہی ایک مقامِ غور ہے کہ ہم زندگی فرعون کی چاہتے ہیں اور عاقبت موسیٰ کی”
‘گُمنام ادیب۔ واصف علی واصف’









“زندگی غموں اور خوشیوں کا مجموعہ ہے۔ تعلیم کا وسیع ترین مفہوم یہ ہے کہ جسم اور ذہن دونوں کی تربیت ہو اور ایسی متوازن شخصیت تشکیل پائے جو ہر طرح کے حالات میں خود کو سنبھال سکے۔ اور زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ آسانی سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو۔ یہ محض سکول کی پڑھائی اور کتابوں کے علم سے ممکن نہیں۔ اس کا انحصار زیادہ تر ماں کے رویے اور اور تربیت پر ہے۔ ماں کا فرض ہے کہ وہ بچے میں خود نظمی اور کردار کی کی مضبوطی پیدا کرنے میں مدد کرے۔ حقیقی محبت یہ نہیں کہ بچے کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کی جاتی رہے۔ بلکہ یہ ہے کہ اُسے منظم ہونا اور ضرورت کے مطابق حالات کو سمجھنا سکھایا جائے۔”
‘اندرا گاندھی۔ میرا سچ’