2009ء میں بحثیتِ پاکستانی اتنا کچھ کھویا ہے کہ شمار کرنا مشکل ہے۔ وطن سے دُور رہ کر بھی سکون نہیں اور وطن میں رہ کر بھی ایک دھڑکا لگا رہتا ہے۔ کتنا عجیب لگتا ہے جب قدم قدم پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہتھیار بند افراد سے سامنا ہوتا ہے۔ جب ہر کوئی اپنے آس پاس موجود لوگوں کو مشتبہ نظروں سے دیکھتا ہے۔ جب اخبار اٹھاتے، خبریں سنتے ہوئے اور کسی کا فون آتے ہی بے اختیار منہ سے خدا خیر کرے نکلتا ہے۔ :-( پھر بھی زندگی رواں دواں ہے۔ اور امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چُھوٹا :smile ۔ مشکل حالات کے باوجود اپنا گھر اپنا ہی ہے۔ اپنا تو یہی یقین ہے کہ جو مزہ اپنے چوبارے ، نہ بلخ نہ بخارے۔ :) ۔ اللہ کرے آنے والا سال پاکستان اور ہم سب کے لئے امن و سلامتی کا پیامبر ثابت ہو۔ ثمَ آمین :pray
اس سال زندگی مصروف سے مصروف تر ہوتی گئی۔ سارا سال ہی جیسے سفر میں گزر گیا۔ بہت سے پرانے دوستوں سے رابطہ بحال ہوا جن میں سراسر قصور انہی لوگوں کا تھا کہ میں جہاں بھی ہوں وہ مجھے ڈھونڈ نکالتی ہیں۔ اسی طرح بہت سے اچھے لوگ شاید ناراض ہو گئے ہیں کہ ان سے رابطہ برقرار رکھنے میں سستی ہو گئی :confused ۔ اللہ کرے 2010ء میں یہ ناراض لوگ اپنی ناراضگی بھول جائیں۔ :cry:
اسی دعا کے ساتھ کہ سب کے ناراض دوست مان جائیں، نئی کامیابیاں نصیب ہوں اور دل سکون و اطمینان کی دولت سے مالا مال ہو جائیں۔ نئے سال کی آمد پر سب کے لئے نیک خواہشات کا تحفہ۔ :flwr
نئے سال کے لئے قرارداد بنانے کا کم از کم مجھے کوئی فائدہ نہیں ہوتا کہ میں وہ سب کام کر لیتی ہوں جن کا نئے سال کے ایجنڈے سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا جبکہ قرارداد کا حشر ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ اقوامِ متحدہ میں کشمیر کے متعلق داخل کردہ یادداشتوں کا۔ :sadd:
خوش آمدید 2010ء اور الوداع 2009ء
میں سال کا آخری سورج ہوں
میں سب کے سامنے ڈوب چلا
کوئی کہتا ہے میں چل نہ سکا
کوئی کہتا ہے کیا خُوب چلا
میں سب کے سامنے ڈوب چلا
اس رخصتِ عالم میں مجھ کو
اک لمحہ رخصت مل نہ سکی
جس شب کو ڈھونڈنے نکلا تھا
اس شب کی چاہت مل نہ سکی
یہ سال کہاں، اک سال کا تھا
یہ سال تو اک جنجال کا تھا
یہ زیست جو اک اک پَل کی ہے
یہ اک اک پَل سے بنتی ہے
سب اک اک پَل میں جیتے ہیں
اور اک اک پَل میں مرتے ہیں
یہ پَل ہے میرے مرنے کا
میں سب کے سامنے ڈوب چلا
اے شام مجھے تُو رخصت کر
تُو اپنی حد میں رہ لیکن
دروازے تک تو چھوڑ مجھے
وہ صبح جو کل کو آئے گی
اک نئی حقیقت لائے گی
تُو اُس کے لئے، وہ تیرے لئے
اے شا،م! تُو اتنا جانتی ہے
اک صبحِ امید ، آثار میں ہے
اک در تیری دیوار میں ہے
اک صبحِ قیامت آنے تک
بس میرے لیے بس میرے لیے
یہ وقت ہی وقتِ قیامت ہے
اب آگے لمبی رخصت ہے
اے شام جو شمعیں جلاؤ تم
اک وعدہ کرو ان شمعوں سے
جو سورج کل کو آئے یہاں
وہ آپ نہ پَل پَل جیتا ہو
وہ آپ نہ پَل پَل مرتا ہو
وہ پُورے سال کا سورج ہو
اے شام مجھے تو رخصت کر!
کلام: لطیف ساحل