Tuesday 24 February 2009

ضعیف الاعتقادی

14 comments
پاکستان میں توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کی ایک سے بڑھ کر ایک مثال ملتی ہے۔ جعلی عامل کبھی ڈبل شاہ اور کبھی خود ساختہ پیر کے روپ میں لوگوں کی دُکھتی رگوں پر ہاتھ رکھ کر ان کو لُوٹتے ہیں اور پھر بھی معتبر رہتے ہیں۔ ان کے معتقدین میں عوام و خواص کی کچھ قید نہیں۔ کوئی اقتدار کے لالچ میں ان کی لاٹھیاں کھانے کو اپنے لئے مبارک تصور کرتا ہے    :daydream    تو کوئی غربت بیماری اور دیگر مصائب کے خاتمے کے لئے انہیں اپنا نجات دہندہ تصور کرتا ہے   :cry:  ۔ نتیجتا آئے روز ایسے لرزہ خیز واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔ اس ضعیف الاعتقادی کے زیرِ اثر لوگ اپنی عزت، جان، مال سب کچھ داؤ پر لگا بیٹھتے ہیں۔ لیکن دیکھنے والے پھر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے۔ لوگ اسی طرح بیوقوف بناتے بھی ہیں اور بنتے بھی ہیں۔ :-(

ہمارے پاکستان میں عمومإ  بڑی بوڑھیاں کسی کے گھر سے باہر جاتے ہوئے پیچھے سے آواز دینا بُرا شگون تصور کرتی ہیں۔ اسی طرح کالی بلی کے راستہ کاٹنے کو بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا   :hmm:  ۔ ویسے برطانیہ میں بھی کچھ مقامی لوگ کالی بلی کے بارے میں کچھ ایسا ہی سوچتے ہیں۔ برطانیہ میں ایک اور مزے کا مشاہدہ ہوا۔ اکثر برطانوی آئینے کے گرنے کو کسی مصیبت کی پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔ :D

مجھے یاد ہے پاکستان میں جی ٹی روڈ پر سفر کرتے اکثر دیواروں پر ایسے اشتہارات لکھے دکھائی دیتے تھے۔ ’عامل نجومی۔۔۔۔۔‘ اور ساتھ ہی ان کی کرامات کی تفصیل بھی درج ہوتی تھی۔ اسی طرح اخبار میں خاص طور پر اتوار میگزین میں ایسے اشتہارات دیکھنے کو ملتے تھے۔ زیادہ حیرت یہ جان کر ہوئی کہ ماشاءاللہ برطانیہ میں بھی ایشیائی خصوصا پاکستانی کمیونٹی میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ جتنے دیسی چینلز ہیں وہاں اکثر اشتہارات چل رہے ہوتے ہیں۔ “روحانی سکالر پروفیسر۔۔۔‘ آپ کے تمام مسائل کا حل وغیرہ وغیرہ۔ یا ’۔۔۔۔۔ بنگالی بابا‘۔ تھوڑے ہائی ٹیک لوگ ہیں تو موبائل نمبر کے ساتھ ساتھ ای میل پتہ بھی دیا جاتا ہے۔ سنا ہے کہ لوگ جوق در جوق ان کے “آستانوں” پر حاضری دیتے ہیں۔ اسی طرح کچھ چینلز پر کارڈز کے ذریعے قسمت اور مستقبل کا حال بتایا جاتا ہے۔ ایک پروگرام ہندو مت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کرتی ہیں اور ان کے پروگرام میں فون کرنے والوں میں ہمارے مسلم بہن بھائیوں کی بھی اچھی خاصی اکثریت ہے۔

میں سمجھتی تھی کہ یہ سب شاید برصغیر میں ہی میں دیکھنے کو ملتا ہے لیکن شاید توہم پرستی کسی نہ کسی حد تک انسانی فطرت میں شامل ہے۔ تبھی تو جہاں جائیں کوئی نہ کوئی مثال مل ہی جاتی ہے۔ فرق بس اتنا سا ہے کہ کچھ لوگ معمولی درجے کے توہم پرست ہوتے ہیں اور کچھ اس رویے کو خود پر اتنا سوار کر لیتے ہیں کہ سب کچھ گنوا بیٹھتے ہیں۔ توہم پرستی کو کسی ایک مذہب یا خطے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا۔ کسی معاشرے میں غربت، نا انصافی اور جہالت جس قدر زیادہ ہو گی، اسی قدر ایسے رویے پروان چڑھتے ہیں۔ :-s

کچھ عرصہ پہلے  چینل4 پر Dispachtes سلسلے کا پروگرام Saving the witch children of Africa دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جو نائجیریا کی Akwa Ibom State میں عیسائی آبادی کی توہم پرستانہ رویے کی وجہ سے معصوم بچوں پر ہونے والے تشدد کے بارے میں تھی۔ اس علاقے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ خاندان پر آنے والی کسی بھی ناگہانی مصیبت یا کسی کی اچانک موت کے ذمہ دار عموما اس خاندان کا سب سے چھوٹا بچہ ہوتا ہے کیونکہ اس میں شیطانی روح حلول کر جاتی ہے اور ان کے مصائب کا باعث بنتی ہے۔ جس طرح ہمارے یہاں ’جن نکالنے‘ یا ’سایہ دُور کرنے کے لئے‘ جسمانی اور ذہنی تشدد کی انتہا کر دی جاتی ہے، بالکل ایسے ہی ان بچوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یہ اقرار کرانے کے لئے کہ وہ شیطان کے چیلے ہیں اور شیطانی اثر سے دور کرنے کے لئے ان بچوں کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ گھروں سے دور رکھا جاتا ہے اور بعض اوقات موت کے گھاٹ اتارنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ ایک بچی کو پہلے اس کی ماں نے جلا کر مارنے کی کوشش کی اور بعد میں اس پر تیزاب پھینک دیا گیا۔ اسی طرح ایک اور لڑکی کے سر میں لوہے کی کیل ٹھونک دی گئی۔ :cry:

شیطانی اثرات دور کرنے کے عاملوں کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔ ہمارے جعلی پیروں اور عاملوں کی طرح وہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو لوگوں کی ضعیف الاعتقادی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور ان بچوں کو شیطان کے اثر سے آزاد کرانے کے لئے تگڑی رقوم بٹورتے ہیں۔ اسی پروگرام میں ایک خود ساختہ عامل The Bishop دکھایا گیا جو ان بچوں کے کانوں اور آنکھوں میں ایک محلول(جو کہ خالص الکوحل اور اس عامل کے اپنے خون کا مکسچر ہوتا تھا) ڈالتا تھا تاکہ وہ شیطانی آوازیں نہ سن سکیں اور نہ ہی بدروحوں کو دیکھ سکیں۔ اس کام کے لئے وہ رقم وصول کرتا تھا اور جن بچوں کے ورثاء رقم کا بند و بست نہ کر سکیں وہ ان کو اپنے پاس روک لیتا تھا تاوقتیکہ اس کو رقم کی ادائیگی نہ ہو جائے۔ اسی طرح اس نے 100 سے زیادہ بچوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا بھی اعتراف کیا۔

ڈرے سہمے زخمی بچوں کو دیکھنا اتنا تکلیف دہ تھا کہ میں نے یہ پروگرام ایک کے بجائے تین نشستوں میں دیکھا اور پھر بھی آخر تک نہیں دیکھ سکی۔ تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ اس پروگرام کے بعد ایسے مظلوم بچوں کی دادرسی کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات کئے گئے۔ اور کچھ عرصے بعد The Bishop صاحب گرفتار کر لئے گئے اور ان پر قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا :clap

افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کچھ کیوں نہیں ہوتا۔ آئے روز ایسے واقعات سامنے آتے ہیں لیکن وقتی طور پر چھوٹی موٹی کاروائی کر دی جاتی ہے اور ملزموں کو آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ پروگرام دیکھتے ہوئے مجھے وہ واقعہ یاد آ رہا تھا جب  ایک جعلی پیر نے ایک مریض کے منہ میں انگارے بھر دیئے تھے۔ تازہ ترین مثال میرپور خاص میں جعلی عامل کے ہاتھوں دو عورتوں کے قتل کی ہے۔ لیکن یہاں تو رات گئی بات گئی والا حساب ہے۔ :quiet:

Sunday 15 February 2009

ویلنٹائن ڈے اور ہمارے ذرائع ابلاغ

10 comments
اگر ہمیں شدت پسند قوم کہا جاتا ہے تو کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ ایک طرف اتنی تنگ نظری کہ درس گاہوں کو دھماکوں سے اڑا دینا اور دوسری طرف ایسی روشن خیالی کہ تہذیب کا دامن ہی ہاتھ سے چھوڑ بیٹھنا۔ تازہ ترین مثال ویلنٹائن ڈے کی ہے۔ شاید ہم لوگ اپنے قومی تہوار بھی اس قدر جوش و خروش سے نہ مناتے ہوں گے جیسے 14 فروری کا دن منایا جاتا ہے۔یہ وبا بھی پچھلے چند سالوں میں پھیلی ہے اور میڈیا کی مہربانی سے اس وقت پوری قوم مکمل طور پر اس بخار کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ قریبی رشتوں سے انسیت کا اظہار قابلِ اعتراض نہیں (حالانکہ دلوں کے تعلق کبھی بھی کسی مخصوص دن کے ،محتاج نہیں ہوتے) لیکن ہم لوگوں کی طرح اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی مثال شاید ہی کہیں اور ملے۔ کل صبح سے رات گئےتک ہر چینل پر ایک ہی راگ الاپا جا رہا تھا۔ بلکہ آج بھی یہی کچھ چل رہا ہے۔ خیر ٹی وی چینلز کے تو کیا کہنے۔ موبائل فون کمپنیاں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔
Valentine's Day is just around the corner. Find out how good is ur match with ur loved-one via 'Love-Meter'
Send ur name on۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Send lovesongs to ur valentine
1. Pehla Nasha
2. Love Mera Hit Hit
3.Guzarish
4. Ek Din Teri Rahon
Send song-no his/her mobile number to۔۔۔۔۔

یہ ہے ذرائع ابلاغ کے کاروباری اور غیر ذمہ دارانہ رویوں کی ایک اور مثال۔ :hmm: مجھے یقین ہے ان ٹیکسٹ میسجز کی وجہ سے ایک بڑی اکثریت نے فضول میں اپنا کریڈٹ ضائع کیا ہو گا۔
حیران ہوں کہ ہم لوگ غیروں کی قابلِ تقلید مثالوں کو تو درخورِاعتنا نہیں سمجھتے جبکہ غیر ضروری روایات کو پوری شدت سے اپنانا ہمارے لئے باعثِ فخر کیوں ٹھہرتا ہے؟

Saturday 7 February 2009

ممی کا لیٹر

21 comments
پیارے children!
تمہارا لیٹر ملا۔ تمہاری condition معلوم ہوئی کہ تم سب OK ہو۔ ہم سب بھی fine ہیں۔
تمہاری progress report بھی receive ہوئی۔ اور تم چاروں کے examination results دیکھے۔ بہت ہی ‌bad condition ہے۔ اردو تم چاروں کی بہت weak ہے۔ تمہیں اس subject میں کافی hard work کی ضرورت ہے۔ because یہ intermediate level تک compulsory کر دی گئی ہے۔ بہرحال تم کو اس کی طرف پھرپور attention دینی پڑے گی۔ اسی لئے میں تم لوگوں کو یہ letter اردو میں لکھ رہی ہوں تا کہ تم اپنی mother tongue سے in touch رہو۔
یہاں کافی cold ہے اسی لئے تمہارے ابو کو fever ہو گیا ہے۔ you know وہ کتنے careless ہیں۔ چار دن تک ان کا temperature کافی high رہا۔ کافی weak ہو گئے ہیں۔ عیادت کے لئے کافی guests آتے ہیں۔ that's why میں کافی tired ہو جاتی ہوں۔
یہ winter ہے۔ اس لئے چھوٹے brother کا خیال رکھنا۔ اُس کو warm شال میں wrap رکھنا کیونکہ وہ by nature کافی weak ہے اور بعض اوقات summer میں بھی cold catch کر لیتا ہے۔
تمہاری sister بہت sensitive ہے۔ میری separation برداشت نہیں کر سکتی۔ اگر وہ restless محسوس کرے تو ڈاکٹر کو فوراً call کر لینا۔ I hope کہ تم یقینا میرا letter غور سے read کر رہے ہو گے۔
تمہاری بڑی sister ہنزہ valley آنے والی ہیں۔ ان کو remind کرا دینا کہ میرا beauty box ضرور لائیں۔ lip stick ان کو choose کر دینا کیونکہ انہیں نہیں معلوم کہ مجھے کون سی suit کرتی ہے۔ میرے پاس lipstick اب finish ہو چکی ہے اور اس کے بغیر میں بڑا uneasy محسوس کرتی ہوں۔
آج کل ہر morning اور evening بس bore ہی گزرتی ہے۔ کوئی entertainment ہی نہیں ہے۔ servants تین دن کی leave پر گئے ہوئے ہیں اس لئے whole work مجھے ہی کرنا پڑتا ہے۔ early in the morning اٹھنے کی عادت ہو گئی ہے۔ آج بھی پورے ساڑھے نو بجے bed چھوڑ دیا تھا۔
okay اب میں نے اتنا long letter لکھ دیا ہے کہ تم تھکن feel کر رہے ہو گے۔
سب کو میری طرف سے wish کر دینا۔
اور اپنی اردو پر attention دینا۔
فقط!
your ever loving mother


:smile


ہمارے گھر عالمگیرین میگزین آتا تھا۔ جس میں کچھ سال پہلے یہ خط آٹھویں جماعت کے ایک طالبعلم نے لکھا تھا۔ آج ایک پرانی ڈائری کے صفحات پلٹتے ہوئے نظر پڑی تو یہاں لکھ رہی ہوں۔ افسوس کہ میں نے یہ letter اپنے پاس copy کرتے ہوئے writer کا نام note نہیں کیا تھا۔ :blush: :D

Thursday 5 February 2009

نصیب اپنا اپنا

13 comments
پاکستان میں 'اباؤں" کی کافی ورائٹی پائی جاتی ہے۔ جن میں سے چند قابلِ ذکر ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو غیرت کے نام پر بیٹیوں کو زندہ درگور کر کے اپنے سینوں پر فخر کا تمغہ سجایا کرتے ہیں۔ دوسرے جو اپنے جرائم کی بدلے میں ونی کے نام پر بیٹیوں کو بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ بیٹیاں ہوتی کس لئے ہیں بھلا۔  :quiet: لیکن اب کچھ عرصے سے انتہائی مشفق قسم کے ابا بھی سامنے آئے ہیں۔ وہ جو انتہائی حساس عہدے پر فائز ہونے کے باوجود بیٹی کی محبت میں مغلوب ہو کر امتحان میں اس کے نمبر بڑھواتے ہیں اور دوہ بھی جن کی بیٹی کی سالگرہ پر اسمبلی میں مبارکباد کی قرارداد منظور کی جاتی ہے۔ اب بھی اگر لوگ کہیں کہ پاکستان میں لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟  :daydream
قصہ یہ ہے کہ مورخہ تین فروری 2009 کو آصفہ بھٹو زرداری کی سالگرہ کے موقع پر سندھ اسمبلی میں باقاعدہ قراداد منظور کی گئی۔ صوبائی وزیر اطلاعات شازیہ مری نے صدر پاکستان آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کی چھوٹی بیٹی آصفہ بھٹو زرداری کی سالگرہ کے حوالے سے مبارکباد کی قرارداد ایوان میں پیش کی جس کو ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ اور یوں جب جب سندھ اسمبلی کی کاروائی کی تاریخ پڑھی جائے گی۔ آصفہ بھٹو زرداری کا نام بھی جگمگاتا دکھائی دے گا۔ :cn ویسے پاکستانی عوام کو مبارکباد۔ لگتا ہے شہنشائیت کا دور آ گیا ہے پاکستان میں۔ Long Live the King کا نعرہ لگانے کے لئے تیار ہو جائیں۔
آصفہ کی آپی شازیہ مری کو چاہئیے کہ لگے ہاتھوں امریکی صدر براک اوبامہ کی بیٹیوں کو ایک ای میل ہی کر دیں کہ ان کا نام تو صرف ان کے ابا کی حلف برادری کی تقریب میں لیا گیا۔ پاکستانی صدر کی صاحبزادی کی سالگرہ تک بھی اسمبلی میں منائی جاتی ہے۔ تو کس کے اباجان زیادہ بااختیار ہوئے؟  :party

مشرف انکل یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ قوم سے پوچھیں کیا فرق محسوس کیا ہے عوام نے آمریت اور جمہوریت میں؟ آمر کی اماں جی کا ذکر امر ہوا سکول کی نصابی کتب میں تو منتخب صدر کی دختر کا نام محفوظ ہوا اسمبلی کی کاروائی میں۔ کُرسی پائندہ باد!!۔

جاتے جاتے ایک اور قسم یاد آئی۔ مجبور اباؤں کی قسم۔ جن کی بیٹیوں کے سر پر چھت نہیں ہوتی، ان کی درسگاہیں جلا دی جاتی ہیں، اور جو دو وقت کی روٹی مہیا کرنے کے چکر میں  بیٹیوں کی سالگرہ کی تاریخ بھی بُھول جاتے ہیں۔ ان اباؤں کے پاس اپنی بیٹیوں کو قسمت پر صبر و شکر کا سبق دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا کہ ہر بیٹی فرح حمید ڈوگر یا آصفہ تو نہیں ہو سکتی۔

Wednesday 4 February 2009

علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام!

3 comments
ماضی
تعلیمی ادارے: بے غرض اکتسابِ علم
استاد: فرض شناسی ، بے غرضی ، استغنا، قربانی ، نظم، کردار سازی
طلباء: احترام، شوق، لگن ، اخلاق


حال
تعلیمی ادارے: منعفت بخش کاروبار
استاد: مادیت پرستی ، نفع پسندی، فکرِ معاش ، فرائض سے روگردانی
طلباء: بغاوت، روایت شکنی، بے لحاظی ، بے ادبی، علم سے بیزاری

ادارے سرکاری ہوں یا پرائیویٹ ، معلمی پیشہ و کاروبار بن گئی ہے اور تعلیم محض کاغذی ڈگریوں میں اضافے کا ذریعہ۔