Saturday 29 November 2008

سمندر

2 comments













سمندر


سمندر دُور تک پھیلی ہوئی اک نیلگوں وُسعت


سمندر زندگی ہے


زندگی کا استعارہ ہے


ہواؤں کو نمی دیتا


سمندر!


ساحلوں کا لمس پیتا


ہزاروں سینکڑوں لعل و گوہر


موتی ، صدف پارے


بچھاتا ساحلوں کی ریت پر


اپنے خزانوں کو لُٹاتا


لکھ داتا


سمندر استعارہ ہے سخاوت کا


Wednesday 26 November 2008

آساں نہیں زیست کی منزل سے گزرنا

4 comments

آساں نہیں زیست کی منزل سے گزرنا


اس راہ میں کچھ مرحلے دُشوار بہت ہیں


پُر درد گزر جائیں تو بے کار ہیں صدیاں


لمحے جو سکوں بخش پوں دو چار بہت ہیں

Tuesday 25 November 2008

جمود

3 comments









ٹھہرے پانی میں کنکر پھینک کر معمولی حرکت تو پیدا کی جا سکتی ہے، مستقل بہاؤ نہیں۔

Friday 21 November 2008

خفگی نامہ

8 comments


اگر میں اس مہینے کے شروع میں ‘یہ مہینہ کیسا گزرے گا‘ یا ‘ستاروں کے مطابق‘ قسم کی کوئی پیش گوئی پڑھتی تو مجھے یقین ہے میرے سٹار میں کچھ ایسا لکھا ہوتا۔ ‘یہ مہینہ خفگی سے بھرپور ہو گا۔ قریبی لوگوں کی ناراضگی کا شدید اندیشہ ہے۔ مہینے کے آخر تک حالات میں مزید ابتری کی طرف جا سکتے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور میرے ساتھ بعینہ کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے :quiet:


“تمہارے ماموں کا فون آیا تھا۔ تم نے کتنے دنوں سے ان سے بات نہیں کی؟ ابھی فون کرو اور ویک اینڈ پر ان لوگوں کی طرف چکر لگا لو۔“ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان جملوں پر اکتفا نہیں کیا میری والدہ نے بلکہ ساتھ ٹھیک ٹھاک ڈانٹ سے بھی تواضع ہوئی۔ :cry:


“تم کہاں غائب ہو۔ نہ کوئی فون، نہ ٹیکسٹ، نہ ای- میل۔ اتنی لاپرواہ تو نہیں تھیں تم، دس دفعہ کال کرو تو ایک بار جواب ملتا ہے۔۔۔۔۔میں تم سے شدید ناراض ہوں۔“ اس قسم کی باتیں مجھے آج کل تواتر سے سننے کو مل رہی ہیں۔ اب تو میں شرمندہ ہو ہو کر بھی تھک گئی ہوں۔ :sh حالانکہ میں باقاعدگی سے سب کی خیر خبر رکھتی ہوں۔ اگر کسی وجہ سے کسی کا فون سن نہ سکوں تو پہلی فرصت میں جواب دیتی ہوں۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے واقعی ایسا ہو رہا ہے۔ وجہ بھی کچھ خاص نہیں سوائے تھوڑی سی مصروفیت کے۔ بہرحال شکر ہے کہ نومبر ختم ہو رہا ہے اور سب کی خفگیاں بھی :)



ان ناراضگیوں کے بارے میں سوچتے سوچتے مجھے احساس ہوا کہ میں خود بھی ان دنوں ہر وقت خفا ہونے کی کوشش میں رہتی ہوں۔روزانہ ہی اتنی باتیں مل جاتی ہیں ناراض ہونے کو۔



صبح جاگو تو موسم دیکھ کر خود بخود موڈ آف ہو جاتا ہے۔ ہر وقت بارش یا گہرے بادل چھائے رہتے ہیں۔ اور اکثر شام سے پہلے ہی شام ہو جاتی ہے۔ سب کام ادھورے رہ جاتے ہیں۔


پاکستانی چینلز آن کرو تو بریکنگ نیوز دیکھ کر خفا ہونا پڑتا ہے۔ اچھا خاصا پروگرام چل رہا ہوتا ہے اور کئی بار تو خبروں میں ہی بریکنگ نیوز یا نیوز الرٹ اڑتا ہوا آتا ہے کہیں سے۔۔اور خبر ہوتی ہے ‘وزیرِ اعظم جلسے کے پنڈال میں پہنچ گئے۔ اب وہ سٹیج کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ :o ‘


اس خفگی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب اچھا خاصا کام کرتے کرتے موذیلا فائر فاکس کا موڈ آف ہو جاتا ہے اور زرداری انکل کی طرح دھڑلے سے آگے بڑھنے سے انکار ہو جاتا ہے۔ اور میں مسلم لیگ ن کی طرح انتظار ہی کرتی رہ جاتی ہوں۔ جب سے میں نے Kaspersky انسٹال کیا ہے۔ فائر فاکس میں جی میل اور دوسری کچھ سائٹس اتنا مسئلہ کر رہی ہیں۔ بھائی بھی مصروف ہے اور اس بات پر میں پھر خود سے خفا ہو جاتی ہوں کہ میں اتنی نالائق کیوں ہوں۔ کچھ سیکھ لیا ہوتا تو اپنے ہی کام آتا :blush:



اور اب آج کی آخری اور سب سے بڑی ناراضگی اپنے بلاگ سے ہے۔ پتہ نہیں کیا ہوا کہ میرے بلاگ سے Recent Commentsاور Recent Track Backs سب غائب ہو گئے۔ اس کی وجہ بھی میرا ہی کوئی کارنامہ ہو گا شاید۔ اور اب ان کو کیسے واپس لانا ہے یہ مجھے معلوم نہیں۔ اس لئے یہ ناراضگی بھی میری اپنی طرف ہی ری ڈائریکٹ ہو رہی ہے :-s



میں سوچ رہی ہوں کہ میں وہ گانا ڈھونڈ کر اپنی voice mail میں ریکارڈ کر لوں اور خود بھی سارا دن سنتی رہا کروں۔۔ ‘ کسی بات پر میں کسی سے خفا ہوں۔۔۔میں زندہ ہوں پر زندگی سے خفا ہوں۔ :lashbtng ‘

Wednesday 19 November 2008

نظم جوگی (خوشی محمد ناظر)

3 comments




جوگی


نغمۂ حقیقت



کل صبح کے مطلعِ تاباں سے جب عالم بقعۂ نور ہوا
سب چاند ستارے ماند ہوئے، خورشید کا نور ظہور ہوا
مستانہ ہوائے گلشن تھی، جانانہ ادائے گلبن تھی
ہر وادی وادیٔ ایمن تھی، ہر کوہ پہ جلوۂ طور ہوا
جب بادِ صبا مضراب بنی، ہر شاخِ نہال رباب بنی
شمشاد و چنار ستار ہوئے، ہر سرو و سمن طنبور ہوا
سب طائر مل کر گانے لگے، مستانہ وہ تانیں اُڑانے لگے
اشجار بھی وجد میں آنے لگے، گلزار بھی بزمِ سرُور ہوا
سبزے نے بساط بچھائی تھی اور بزمِ نشاط سجائی تھی
بن میں، گلشن میں، آنگن میں، فرشِ سنجاب و سمور ہوا
تھا دل کش منظرِ باغِ جہاں اور چال صبا کی مستانہ
اس حال میں ایک پہاڑی پر جا نکلا ناظر دیوانہ
چیلوں نے جھنڈے گاڑے تھے، پربت پر چھاؤنی چھائی تھی
تھے خیمے ڈیرے بادل کے، کُہرے نے قنات لگائی تھی
یاں برف کے تودے گلتے تھے، چاندی کے فوارے چلتے تھے
چشمے سیماب اگلتے تھے، نالوں نے دھوم مچائی تھی
اک مست قلندر جوگی نے پربت پر ڈیرا ڈالا تھا
تھی راکھ جٹا میں جوگی کی اور انگ بھبوت رمائی تھی
تھا راکھ کا جوگی کا بستر اور راکھ کا پیراہن تن پر
تھی ایک لنگوٹی زیبِ کمر جو گھٹنوں تک لٹکائی تھی
سب خلقِ خدا سے بیگانہ، وہ مست قلندر دیوانہ
بیٹھا تھا جوگی مستانہ، آنکھوں میں مستی چھائی تھی
جوگی سے آنکھیں چار ہوئیں اور جھک کر ہم نے سلام کیا
تیکھے چتون سے جوگی نے تب ناظر سے یہ کلام کیا
کیوں بابا ناحق جوگی کو تم کس لیے آ کے ستاتے ہو؟
ہیں پنکھ پکھیرو بن باسی، تم جال میں ان کو پھنساتے ہو؟
کوئی جگھڑا دال چپاتی کا، کوئی دعویٰ گھوڑے ہاتھی کا
کوئی شکوہ سنگی ساتھی کا، تم ہم کو سنانے آتے ہو؟
ہم حرص ہوا کو چھوڑ چکے، اِس نگری سے منہ موڑ چکے
ہم جو زنجیریں توڑ چکے، تم لا کے وہی پہناتے ہو؟
تم پُوجا کرتے ہو دھن کی، ہم سیوا کرتے ہیں ساجن کی
ہم جوت لگاتے ہیں من کی، تم اُس کو آ کے بجھاتے ہو؟
سنسار سے یاں مُکھ پھیرا ہے، من میں ساجن کا ڈیرا ہے
یاں آنکھ لڑی ہے پیتم سے، تم کس سے آنکھ ملاتے ہو؟
یوں ڈانٹ ڈپٹ کر جوگی نے جب ہم سے یہ ارشاد کیا
سر اُس کے جھکا کر چرنوں پر، جوگی کو ہم نے جواب دیا
ہیں ہم پردیسی سیلانی، یوں آنکھ نہ ہم سے چُرا جوگی
ہم آئے ہیں تیرے درشن کو، چِتون پر میل نہ لا جوگی
آبادی سے منہ پھیرا کیوں؟ جنگل میں کِیا ہے ڈیرا کیوں؟
ہر محفل میں، ہر منزل میں، ہر دل میں ہے نورِ خدا جوگی
کیا مسجد میں، کیا مندر میں، سب جلوہ ہے “وجہُ اللہ” کا
پربت میں، نگر میں، ساگر میں، ہر اُترا ہے ہر جا جوگی
جی شہر میں خوب بہلتا ہے، واں حسن پہ عشق مچلتا ہے
واں پریم کا ساگر چلتا ہے، چل دل کی پیاس بجھا جوگی
واں دل کا غنچہ کِھلتا ہے، گلیوں میں موہن ملتا ہے
چل شہر میں سنکھ بجا جوگی، بازار میں دھونی رما جوگی
پھر جوگی جی بیدار ہوئے، اس چھیڑ نے اتنا کام کیا
پھر عشق کے اِس متوالے نے یہ وحدت کا اِک جام دیا
اِن چکنی چپڑی باتوں سے مت جوگی کو پھسلا بابا
جو آگ بجھائی جتنوں سے پھر اس پہ نہ تیل گرا بابا
ہے شہروں میں غل شور بہت اور کام کرودھ کا زور بہت
بستے ہیں نگر میں چور بہت، سادھوں کی ہے بن میں جا بابا
ہے شہر میں شورشِ نفسانی، جنگل میں ہے جلوہ روحانی
ہے نگری ڈگری کثرت کی، بن وحدت کا دریا بابا
ہم جنگل کے پھل کھاتے ہیں، چشموں سے پیاس بجھاتے ہیں
راجہ کے نہ دوارے جاتے ہیں، پرجا کی نہیں پروا بابا
سر پر آکاش کا منڈل ہے، دھرتی پہ سہانی مخمل ہے
دن کو سورج کی محفل ہے، شب کو تاروں کی سبھا بابا
جب جھوم کے یاں گھن آتے ہیں، مستی کا رنگ جماتے ہیں
چشمے طنبور بجاتے ہیں، گاتی ہے ملار ہوا بابا
جب پنچھی مل کر گاتے ہیں، پیتم کی سندیس سناتے ہیں
سب بن کے برچھ جھک جاتے ہیں، تھم جاتے ہیں دریا بابا
ہے حرص و ہوا کا دھیان تمھیں اور یاد نہیں بھگوان تمھیں
سِل، پتھر، اینٹ، مکان تمھیں دیتے ہیں یہ راہ بھلا بابا
پرماتما کی وہ چاہ نہیں اور روح کو دل میں راہ نہیں
ہر بات میں اپنے مطلب کے تم گھڑ لیتے ہو خدا بابا
تن من کو دھن میں لگاتے ہو، ہرنام کو دل سے بھلاتے ہو
ماٹی میں لعل گنواتے ہو، تم بندۂ حرص و ہوا بابا
دھن دولت آنی جانی ہے، یہ دنیا رام کہانی ہے
یہ عالَم، عالَمِ فانی ہے، باقی ہے ذاتِ خدا بابا




ترانۂ وحدت



جب سے مستانے جوگی کا مشہورِ جہاں افسانہ ہوا
اُس روز سے بندۂ ناظر بھی پھر بزم میں نغمہ سرا نہ ہوا
کبھی منصب و جاہ کی چاٹ رہی، کبھی پیٹ کی پوجا پاٹ رہی
لیکن یہ دل کا کنول نہ کِھلا اور غنچۂ خاطر وا نہ ہوا
کہیں لاگ رہی، کہیں پیت رہی، کبھی ہار رہی، کبھی جیت رہی
اِس کلجگ کی یہی ریت رہی، کوئی بند سے غم کے رہا نہ ہوا
یوں تیس برس جب تیر ہوئے، ہم کارِ جہاں سے سیر ہوئے
تھا عہدِ شباب سرابِ نظر، وہ چشمۂ آبِ بقا نہ ہوا
پھر شہر سے جی اکتانے لگا، پھر شوق مہار اٹھانے لگا
پھر جوگی جی کے درشن کو ناظر اک روز روانہ ہوا
کچھ روز میں ناظر جا پہنچا پھر ہوش رُبا نظّاروں میں
پنجاب کے گرد غباروں سے کشمیر کے باغ بہاروں میں
پھر بن باسی بیراگی کا ہر سمت سراغ لگانے لگا
بنہال کے بھیانک غاروں میں، پنجال کی کالی دھاروں میں
اپنا تو زمانہ بیت گیا، سرکاروں میں درباروں میں
پر جوگی میرا شیر رہا پربت کی سونی غاروں میں
وہ دن کو ٹہلتا پھرتا تھا ان قدرت کے گلزاروں میں
اور رات کو محوِ تماشہ تھا انبر کے چمکتے تاروں میں
برفاب کا تھا اک تال یہاں یا چاندی کا تھا تھال یہاں
الماس جڑا تھا زمُرّد میں، یہ تال نہ تھا کہساروں میں
تالاب کے ایک کنارے پر یہ بن کا راجہ بیٹھا تھا
تھی فوج کھڑی دیوداروں کی، ہر سمت بلند حصاروں میں
یاں سبزہ و گل کا نظارہ تھا اور منظر پیارا پیارا تھا
پھولوں کا تخت اتارا تھا، پریوں نے ان کہساروں میں
یاں بادِ سحر جب آتی تھی، بھیروں کا ٹھاٹھ جماتی تھی
تالاب رباب بجاتا تھا، لہروں کے تڑپتے تاروں میں
کیا مستِ الست نوائیں تھیں ان قدرت کے مِزماروں میں
ملہار کا روپ تھا چشموں میں، سارنگ کا رنگ فواروں میں
جب جوگی جوشِ وحدت میں ہرنام کی ضرب لگاتا تھا
اک گونج سی چکّر کھاتی تھی، کہساروں کی دیواروں میں
اس عشق و ہوا کی مستی سے جب جوگی کچھ ہشیار ہوا
اس خاک نشیں کی خدمت میں یوں ناظر عرض گزار ہوا
کل رشکِ چمن تھی خاکِ وطن، ہے آج وہ دشتِ بلا جوگی
وہ رشتۂ اُلفت ٹوٹ گیا، کوئی تسمہ لگا نہ رہا جوگی
برباد بہت سے گھرانے ہوئے، آباد ہیں بندی خانے ہوئے
شہروں میں ہے شور بپا جوگی، گاؤں میں ہے آہ و بکا جوگی
وہ جوشِ جنوں کے زور ہوئے، انسان بھی ڈنگر ڈھور ہوئے
بچوں کا ہے قتل روا جوگی، بوڑھوں کا ہے خون ہَبا جوگی
یہ مسجد میں اور مندر میں، ہر روز تنازع کیسا ہے؟
پرمیشر ہے جو ہندو کا، مسلم کا وہی ہے خدا جوگی
کاشی کا وہ چاہنے والا ہے، یہ مکّے کا متوالا ہے
چھاتی سے تو بھارت ماتا کی دونوں نے ہے دودھ پیا جوگی
ہے دیس میں ایسی پھوٹ پڑی، اک قہر کی بجلی ٹوٹ پڑی
روٹھے متروں کو منا جوگی، بچھڑے بِیروں کو ملا جوگی
کوئی گرتا ہے، کوئی چلتا ہے، گرتوں کو کوئی کچلتا ہے
سب کو اک چال چلا جوگی، اور ایک ڈگر پر لا جوگی
وہ میکدہ ہی باقی نہ رہا، وہ خم نہ رہا، ساقی نہ رہا
پھر عشق کا جام پلا جوگی، یہ لاگ کی آگ بجھا جوگی
پربت کے نہ سوکھے روکھوں کو یہ پریم کے گیت سنا جوگی
یہ مست ترانہ وحدت کا چل دیس کی دھن میں گا جوگی
بھگتوں کے قدم جب آتے ہیں، کلجُگ کے کلیش مٹاتے ہیں
تھم جاتا ہے سیلِ بلا جوگی، رک جاتا ہے تیرِ قضا جوگی
ناظر نے جو یہ افسانۂ غم رُودادِ وطن کا یاد کیا
جوگی نے ٹھنڈی سانس بھری اور ناظر سے ارشاد کیا
بابا ہم جوگی بن باسی، جنگل کے رہنے والے ہیں
اس بن میں ڈیرے ڈالے ہیں، جب تک یہ بن ہریالے ہیں
اس کام کرودھ کے دھارے سے ہم ناؤ بچا کر چلتے ہیں
جاتے یاں منہ میں مگر مچھ کے، دریا کے نہانے والے ہیں
ہے دیس میں شور پکار بہت اور جھوٹ کا ہے پرچار بہت
واں راہ دکھانے والے بھی بے راہ چلانے والے ہیں
کچھ لالچ لوبھ کے بندے ہیں، کچھ مکر فریب کے پھندے ہیں
مورکھ کو پھنسانے والے ہیں، یہ سب مکڑی کے جالے ہیں
جو دیس میں آگ لگاتے ہیں، پھر اُس پر تیل گراتے ہیں
یہ سب دوزخ کا ایندھن ہیں اور نرگ کے سب یہ نوالے ہیں
بھارت کے پیارے پُوتوں کا جو خون بہانے والے ہیں
کل چھاؤں میں جس کی بیٹھیں گے، وہی پیڑ گرانے والے ہیں
جو خون خرابا کرتے ہیں، آپس میں کٹ کٹ مرتے ہیں
یہ بیر بہادر بھارت کو، غیروں سے چھڑانے والے ہیں؟
جو دھرم کی جڑ کو کھودیں گے، بھارت کی ناؤ ڈبو دیں گے
یہ دیس کو ڈسنے والے ہیں، جو سانپ بغل میں پالے ہیں
جو جیو کی رکھشا کرتے ہیں اور خوفِ خدا سے ڈرتے ہیں
بھگوان کو بھانے والے ہیں، ایشور کو رجھانے والے ہیں
دنیا کا ہے سُرجن ہار وہی، معبود وہی، مختار وہی
یہ کعبہ، کلیسا، بت خانہ، سب ڈول اسی نے ڈالے ہیں
وہ سب کا پالن ہارا ہے، یہ کنبہ اسی کا سارا ہے
یہ پیلے ہیں یا کالے ہیں، سب پیار سے اس نے پالے ہیں
کوئی ہندی ہو کہ حجازی ہو، کوئی ترکی ہو یا تازی ہو
جب نیر پیا اک ماتا کا، سب ایک گھرانے والے ہیں
سب ایک ہی گت پر ناچیں گے، سب ایک ہی راگ الاپں گے
کل شام کھنّیا پھر بن میں مرلی کو بجانے والے ہیں
آکاش کے نیلے گنبد سے یہ گونج سنائی دیتی ہے
اپنوں کے مٹانے والوں کو کل غیر مٹانے والے ہیں
یہ پریم سندیسہ جوگی کا پہنچا دو ان مہاپرشوں کو
سودے میں جو بھارت ماتا کے تن من کے لگانے والے ہیں
پرماتما کے وہ پیارے ہیں اور دیس کے چاند ستارے ہیں
اندھیر نگر میں وحدت کی جو جوت جگانے والے ہیں
ناظر یہیں تم بھی آ بیٹھو اور بن میں دھونی رما بیٹھو
شہروں میں گُرو پھر چیلوں کو کوئی ناچ نچانے والے ہیں
شاعر: خوشی محمد ناظر:

بشکریہ صریرِ خامۂ وارث

Tuesday 18 November 2008

Flowers are Red!! Zain Bhikha

0 comments

Just loving it :)




Flowers are Red!!



(watch on youtube)

(Original track by Harry Chapin)



The little boy went first day of school
He got some crayons and started to draw
He put colors all over the paper
For colors was what he saw
And the teacher said.. What you doin' young man
I'm paintin' flowers he said
She said... It's not the time for art young man
And anyway flowers are green and red
There's a time for everything young man
And a way it should be done
You've got to show concern for everyone else
For you're not the only one

And she said...
Flowers are red young man
Green leaves are green
There's no need to see flowers any other way
Than they way they always have been seen

But the little boy said...
There are so many colors in the rainbow
So many colors in the morning sun
So many colors in the flower and I see every one

Well the teacher said.. You're sassy
There's ways that things should be
And you'll paint flowers the way they are
So repeat after me.....

And she said...
Flowers are red young man
Green leaves are green
There's no need to see flowers any other way
Than they way they always have been seen

But the little boy said...
There are so many colors in the rainbow
So many colors in the morning sun
So many colors in the flower and I see every one

The teacher put him in a corner
She said.. It's for your own good..
And you won't come out 'til you get it right
And are responding like you should
Well finally he got lonely
Frightened thoughts filled his head
And he went up to the teacher
And this is what he said.. and he said

Flowers are red, green leaves are green
There's no need to see flowers any other way
Than the way they always have been seen

Time went by like it always does
And they moved to another town
And the little boy went to another school
And this is what he found
The teacher there was smilin'
She said...Painting should be fun
And there are so many colors in a flower
So let's use every one

But that little boy painted flowers
In neat rows of green and red
And when the teacher asked him why
This is what he said.. and he said

Flowers are red, green leaves are green
There's no need to see flowers any other way
Than the way they always have been seen.

But there still must be a way to have our children say . . .



There are so many colors in the rainbow
So many colors in the morning sun
So many colors in the flower and I see every one



There are so many colors in the rainbow
So many colors in the morning sun
So many colors in the flower and I see every one



:smile

Friday 14 November 2008

گڈ گورننس زندہ باد!!!

4 comments

کچھ دن پہلے ہی ‘ کنڈہ لگانے‘ کی اصطلاح سے تعارف ہوا۔ اور آج وفاقی وزیرِ ‘محنت اور سمندر پار پاکستانی‘ سید خورشید شاہ صاحب کی بدولت اس کا عملی مظاہرہ بھی دیکھنے کو مل گیا جنہوں نے خوب دل کھول کر چراغاں کیا اپنے بیٹے کی شادی کی خوشی میں اور چراغاں کے لئے بجلی حاصل کی کنڈہ لگا کر۔




























:victry Bravo Minister Sahib

Tuesday 11 November 2008

ہنسی کھنکتی ہوئی(نیرہ نور)

0 comments


ہنسی کھنکتی ہوئی
یا بُجھی بُجھی خوشیاں
ہیں دوستی کی مہک سے
یہ رچی ہوئی گھڑیاں
مزہ انوکھا سا
آتے جاتے لمحوں میں
کتابیں گود میں پھیلی
ہیں کھوئے باتوں میں
رفاقتوں میں خزانہ
جو ہم نے پایا ہے
نہ دل پہ بوجھ ہے کوئی
نہ غم کا سایہ ہے


ہمیں یہ دُھن ہے کہ خوشبو
کو ہم تو دیکھیں گے
یقین ہے کہ ستاروں کو
بڑھ کے چُھو لیں گے
کھلا یہ راز بچھڑنا
بھی تھا بہاروں کو
کسی کے ہاتھ نہیں
چُھو سکے ستاروں کو
کبھی دریچوں میں شمعیں
جو ہم جلاتے ہیں
تو گیت لہجے خیالوں
میں گنگناتے ہیں

Monday 10 November 2008

کمرہٴ امتحان

0 comments



کمرہٴ امتحان

بے نگاہ  آنکھوں سے دیکھتے ہیں پرچے کو
بےخیال ہاتھوں سے
اَن بنے سے لفظوں پر، انگلیاں گھماتے ہیں
یا سوال نامے کو دیکھتے ہی جاتے ھیں
ہر طرف کن انکھیوں سے بچ بچا کے تکتے ہیں
دوسروں کے پرچوں کو راہ نما سمجھتے ہیں
شاید اسطرح کو ئی راستہ ہی مل جائے
بے نشاں جوابوں کا،کچھ پتا ہی مل جائے
مجھ کو دیکھتے ھیں تو
یوں جواب کاپی پر،
حاشیے لگاتے ھیں، دائرے بناتے ھیں
جیسے انکو پرچے کے سب جواب آتے ھیں

اس طرح کے منظر میں
امتحان گاہوں میں
دیکھتا ھی رہتا ھوں
نِت نئے طریقوں سے آپ لطف لیتا ہوں
دوستوں سے کہتا تھا!

کس طرف سے جانے یہ
آج دل کے آنگن میں اِک خیال آیا ہے
سینکڑوں سوالوں کا ایک سوال آیا ہے
وقت کی عدالت میں
زندگی کی صورت میں
یہ جو تیرے ہاتھوں میں، اک سوال نامہ ہے
کس نے یہ بنایا ہے
کس لئے بنایا ہے
کچھ سمجھ میں آیا ہے؟
زندگی کے پرچے کے
سب سوال لازم ھیں
سب سوال مشکل ھیں!

بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتا ہوں پرچے کو
بے خیال ہاتھوں سے
اَن بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتا ہوں
حاشیے لگاتا ہوں
دائرے بناتا ہوں
یا سوال نامے کو دیکھتا ہی جاتا ہوں!!

امجد اسلام امجد

Sunday 9 November 2008

شاعر ہے رہنما بھی ہے اقبال ہمارا

3 comments












بچے کی دُعا

لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

دُور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے

ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے

ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت

جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب

علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

دردمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو

نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو

علامہ محمداقبال (رح).




آج نو نومبر ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال کا یومِ پیدائش۔ ویسے عالمِ بالا میں علامہ اقبال افسوس ہی کرتے رہتے ہوں گے کہ ان کے لوگ کیسی نالائق قوم ثابت ہوئے ہیں۔ :shy:


بہرحال۔ اللہ سے بہتری کی امید رکھنی چاہئیے ہمیشہ۔ شاید ہم بھی کبھی فخر کے ساتھ یومِ اقبال منا سکیں۔


Friday 7 November 2008

بس یونہی کچھ!!!

6 comments



ایک آنٹی سے ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ کافی عرصہ پہلے جب وہ لوگ برطانیہ آئے تو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔کھانے پینے کے لئے حلال چیزیں آسانی سے نہیں ملتی تھیں۔ اس کے علاوہ گھر سے باہر نکلتے ہی مقامی نسل پرست لوگوں سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا تھا۔ اب تو یہاں آنے والوں کے لئے زندگی بہت آسان ہے۔ کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں۔

جبکہ میں سوچ رہی تھی کہ

کیا زیادہ مشکل ہے؟

حلال اشیاء کی تلاش یا ہمہ وقت دوسروں کو صفائیاں دینا کہ ہم دہشت گرد اور شدت پسند قوم نہیں ہیں۔

اور

کیا زیادہ تکلیف دہ ہے؟

نسل پرستوں کے منہ سے اپنے لیے ‘پاکی‘ سننا یا پھر اپنے ہی ہم وطنوں کے لبوں سے پاکستان کے لئے ‘دھماکستان‘ اور ‘بمبارستان‘ کے القاب سننا۔

Thursday 6 November 2008

میرے بھی آٹھ مکان!!

12 comments








ڈفر نے آٹھ مکان سلسلے میں ٹیگ کیا۔ کھیل کے اصول کے مطابق آپ کو یہ فرض کرنا ہے اگر آپ فوراً سے جان مکین جتنے امیر ہو جائیں کہ آپکے پاس 8 مکان ہوں تو آپ کہاں چاہیں گے کہ آپکے یہ آٹھ مکان ہوں؟ اور کیوں؟‘
آپ صرف اسی ملک میں مکان بنا سکتے ہیں جہاں آپ رہتے ہیں اور میک کین بن سکتے ہیں۔ اس ٹیگ پوسٹ کے بعد 8 دوسرے بلاگرز کو ٹیگ کریں اور گھر بنانے کے لئے پراپرٹی کی قیمت کی فکر نہ کریں۔

اس سلسلے کی ایک شرط یہ ہے کہ جس ملک میں آپ رہتے ہوں وہاں ہی مکان بنا سکتے ہیں۔ میں کیونکہ پاکستان اور یوکے کے درمیان شٹل کاک بنی رہتی ہوں تو دونوں جگہ رہائش ہے۔ ویسے بھی :pak کے بغیر میرا گزرا نہیں اس لئے امید ہے کہ اس سلسلے میں مجھے کچھ رعایت دی جائے گی۔ :smile

[شورش سے بھاگتا ہوں ، دل ڈھونڈتا ہے میرا.....ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو]

یہ رہی میری لسٹ۔

1 . پہلا مکان۔ پاکستان میں اپنے گھر کے پاس ہی۔

آپ چاہے ساؤتھ پول سے بھی ہو آئیں۔ جو خوشی اپنے لوگوں کو دیکھ کر اور ان کے درمیان رہ کر ملتی ہے اس کا کوئی بدل نہیں :) ۔ ویسے ایک وجہ اور بھی ہے وہ یہ کہ کیونکہ میں مکین جتنی امیر(خیالوں میں ہی سہی) ہو رہی ہوں تواردگرد کچھ لوگ تو ہوں جن پر ٹہکا شہکا پڑ سکے۔ :daydream

2. دوسرا کوئٹہ بلوچستان میں۔

مجھے اپنے ہوش میں کوئٹہ جانے کا کبھی موقع نہیں ملا۔ وہاں جانا اور خصوصاً پشین اور حنّہ جھیل کے گردو نواح میں کچھ وقت گزارنا ہمیشہ سے میری وش لسٹ پر رہا ہے۔اللہ تعالیٰ بلوچستان پر آئی مشکلات کو ٹال دے اور اس خطے کی خوبصورتی قائم رکھے۔ آمین :pray

3. لاہور لاہور اے

جب میں پہلی بار لاہور گئی تھی تو مجھےوہاں رہنا بالکل بھی اچھا نہیں لگا تھا۔ یوں لگتا جیسے شہر کے گرد دھویں کی ایک چادر لپٹی ہوئی ہے اور رات کو آسمان اتنا دھندلا دکھائی دیتا۔ لیکن آہستہ آہستہ لاہور میرے پسندیدہ مقامات میں سے شامل ہو گیا۔ اور ایسا شامل ہوا کہ میں نے اپنا تیسرا مکان وہاں بنانے کا سوچ لیا ہے۔ اور بناؤں گی بھی نیو کیمپس کے مضافات میں۔ مجھے لگتا ہے کہ نیو کیمپس واحد ایسی جگہ ہے جہاں آپ دن کے کسی بھی وقت نہر کے کنارے بیٹھ کر مراقبہ بھی کر سکتے ہو اور کسی کی طرف سے کسی قسم کی مداخلت کا امکان نہیں ۔ بلکہ میں سوچ رہی ہوں کہ مکین جتنی امیر ہونے کے بعد میرے سورسز بہت زیادہ ہو جائیں گے تو وہیں یونیورسٹی کی حدود میں ہی جگہ حاصل کی جا سکتی ہے۔ :kool

4. میرا چوتھا ٹھکانہ ہو گا اسلام آباد۔

لوگ اکثر اسلام آباد کو کلف زدہ شہر قرار دے کر دور بھاگتے ہیں۔ لیکن کم از کم مجھے تو خاموش سا، اپنے آپ میں گُم گیانی سا اسلام آباد بہت اچھا لگتا ہے :smile ۔ ویسے تو اسلام آباد کو پسند کرنے کے لئے لوک ورثہ ہی کافی ہے۔اگر رہائش کی جگہ کی بھی چوائس ہو تو میں ایف-7 میں مکان بنواؤں گی۔ جناح سُپر کی وجہ سے :)

5. پانچواں مکان ایبٹ آباد میں۔

آلودگی سے پاک انتہائی پُرسکون جگہ۔ جہاں بولنے سے زیادہ ماحول کی خاموشی کو محسوس کرنے میں مزہ آتا ہے۔ شہری افراتفری سے الگ تھلگ اس جگہ کا اپنا ہی ایک مخصوص مزاج ہے سبک خرام ندی سا۔ ۔ یہاں تو اگر کبھی مجھے مستقل بھی رہنا پڑے تو میں بلا تردد رہ جاؤں۔ :smile

6. چھٹا مکان ہو گا خانس پور میں۔

ہم لوگ خانس پور ایک فیلڈ ٹرپ پر گئے تھے۔ اتنا خوبصورت علاقہ شاید ہی میں نے کبھی دیکھا ہو۔ :) پہلی کرن سے لے کر شام غروب ہونے تک سورج کی روشنی درجنوں رنگ بدلتی ہے۔ دو ہفتے سے زیادہ قیام میں میں یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ وہاں کی صبح زیادہ دلکش ہوتی ہے یا شام۔ بہرحال خانس پور کے گرد و نواح میں بھی ایسی ہی قدرتی خوبصورتی بکھری پڑی ہے۔ ۔ واک کا موڈ ہو تو گھر سے نکلو اور گلیات کی طرف روانہ ہو جاؤ۔ یہاں مری جیسا شور شرابا نہیں ہے بلکہ لگتا ہے جیسے زندگی میں ایک ٹھہراؤ سا آ گیا ہو۔ بالکل جیسے پیٹر پین کا نیور لینڈ ۔ :smile

7. ساتواں نمبر ہے سنٹرل لندن کا۔

کیونکہ پورے لندن میں مجھے یہی جگہ سب سے زیادہ پسند ہے۔ آپ اکیلے بھی ہوں تو بور نہیں ہوتے۔ لندن کی مشہور عمارات اور شخصیات اسی علاقے میں پائی جاتی ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آٹھ مکان بنانے کے بعد ان کے اخراجات بھی تو پورے کرنے ہیں ۔اس لئے سنٹرل لندن میں مکان کا دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ میں اس کو رینٹ پر سے دے دوں گی۔ چونکہ یہ لندن کا مہنگا ترین علاقہ ہے تو پاکستان والے مکانوں کے بجلی اور گیس کے بلز تو بھر سکوں گی۔ :D

8. آٹھواں اور آخری مکان آکسفورڈ میں

انگلینڈ میں میری پسندیدہ ترین جگہ۔ آپ آکسفورڈ میں داخل ہوتے جائیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ تاریخ میں سفر کر رہے ہیں۔جیسے وقت کئی صدیاں پیچھے چلا گیا ہے۔ شہر کا آرکیٹکچر ، مارکیٹس ، لائبریریاں ، باغات ، میوزیم اور سب سے بڑھ کر آکسفورڈ یونیورسٹی ہر ایک جگہ جیسے کہانیاں سناتی ہے۔ :)

چلیں جی۔ خیال چودھری کی ترکیب کے مطابق انتہائی لذیذ پلاؤ تیار ہو گیا ہے:shy: ۔ اسی چکر میں میرا لنچ گول ہو گیا ۔ لیکن خیر آٹھ مکانوں کے لئے ایک وقت کے کھانے کی قربانی کیا معنی رکھتی ہے۔ ویسے میں تو یہ چھوٹی سی لسٹ بنا کر ہی تھک گئی۔ اللہ جانے لوگ حقیقت میں اتنی ڈھیر ساری جائیداد کیسے بنا لیتے ہیں۔

اردو بلاگرز پہلے ہی گنے چنے ہیں۔ آٹھ لوگوں کو ٹیگنا اتنا ہی مشکل لگتا ہے جیسے عالمی برادری میں پاکستان کے حمایتی ڈھونڈنا۔ :shy:










میں مزید شگفتہ ، ماوراء ، ہالہ اور وارث کو ٹیگ کرتی ہوں





برسبیلِ تذکرہ:



اتنی بڑی ان دنیاؤں میں

اپنے نام کی تختی والی ایک عمارت

کتنے دُکھوں کی اینٹیں چُن کر گھر بنتی ہے











Monday 3 November 2008

موجاں ای موجاں !!

8 comments






وزیرِ اعظم نے
پی ٹی وی کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد مسعود
کا استعفیٰ منظور کر لیا (آج ٹی وی)۔
یعنی بالآخر جیت شیری رحمان کی ہوئی۔

تین نومبر کا دن میرے لئے خوشیاں لے کر آیا ہے۔ ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہوں۔ شاہد مسعود (ظاہر ہے یہ تو کہنا ہی ہے آخر کو وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی جو مقرر ہو گئے ہیں۔ جب وزیرِ مملکت کے برابر عہدہ مل جائے  تو پی ٹی وی کے ایم ڈی کا عہدہ کس کو بھائے گا :daydream



یااللہ! پاکستان پر اپنا رحم فرما۔ آمین


:-s