Saturday 30 August 2008

کیسے کیسے لوگ

14 comments
جی ٹی روڈ پر ‘ترکی ٹول پلازہ‘ سے گزرتے ہوئے سڑک کے کنارے ایک آدمی ٹانگوں پر کپڑا ڈالے بیٹھا نظر آتا تھا ، جیسے ٹانگوں سے معذور ہو۔ جگہ ایسی تھی جہاں گاڑیاں لازماً آہستہ ہوتی تھیں اور یوں لوگ کچھ نہ کچھ اس کو دے دیتے تھے۔ اتنے عرصے سے وہ جیسے اس جگہ کا حصہ بن گیا تھا۔ ایک بار وہاں سے گزرتے ہوئے اماں نے حسبِ معمول اسے دینے کے لیے پیسے نکالے لیکن بھائی نے گاڑی نہ روکی۔ اماں جلال میں آ گئیں اور ڈانٹنے لگیں۔ جب ڈانٹ کا سلسلہ رکا نہیں تو بھائی نے کافی آگے جا کر گاڑی موڑی اور اس کے پاس پہنچ کر روکنے کی بجائے اس کی طرف بڑھاتے چلے گئے۔ سب حیران کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ گاڑی جب عین اس کے سر پر پہنچی تو وہ موصوف فوراً سر پر پیر رکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے یہ بھول کر وہ ٹانگوں سے معذور ہیں۔ آنکھیں اور منہ کُھلے کے کُھلے رہ جانے کا صحیح تجربہ مجھے اس دن ہوا۔ :D بعد میں بھائی نے بتایا کہ کتنا عرصہ تو وہ بھی اس کو معذور سمجھتے رہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ دن میں ڈرامہ کر کے جو کچھ کماتا ہے شام کو سب نشے میں اڑاتا ہے اور کتنی بار منشیات فروشی کے سلسلے میں حوالات کی ہوا بھی کھا چکا ہے۔ اس کے باوجود واپس اسی جگہ پر پایا جاتا ہے۔ یہ واقعہ کچھ سال پرانا ہے اور اس کے بعد بھی میں نے اس آدمی کو اکثر اسی جگہ پر دیکھا ۔ معلوم نہیں اب بھی وہ وہیں بیٹھتا ہے یا نہیں!

لیکن یہ صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہر جگہ ہمارے لوگ نئے نئے طریقے نکال لیتے ہیں۔ میں جب شروع میں یہاں آئی تھی تو ایک بار یونیورسٹی جاتے ہوئے ٹیوب اسٹیشن پر ٹرین کا انتظار کر رہی تھی کہ ایک انکل میرے پاس آئے۔ اچھے خاصے معزز دکھتے تھے، سفید بال اور داڑھی اور سر پر نماز والی ٹوپی۔ کہنے لگے، ‘بیٹا! آپ پاکستان سے ہو؟‘۔ میرے جواب پر انہوں نے کہنا شروع کیا کہ میں یہاں نیا ہوں اور پتہ نہیں چلا رش میں کہیں بٹوہ گر گیا ہے۔ اسی میں میرا ٹریول کارڈ بھی تھا۔ اب میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے میں اپنے سٹاپ پر سٹیشن سے باہر کیسے نکلوں گا۔ مجھے شرمندگی ہو رہی ہے تو مدد کے لیے کہتے ہوئے لیکن کیا کروں‘ وغیرہ وغیرہ۔ میں ان دنوں پردیس کے غم میں ڈوبی رہتی تھی اور اچھی خاصی رقیق القلب ہوا کرتی تھی ، مدد کیوں نہ کرتی ۔ بدلے میں دعائیں لے کر اتنی خوش ہوئی کہ اگلی ٹرین بھی مس کر دی۔ :) خیر کافی دن بعد انہی انکل کو میں نے وہیں کسی انڈرگراؤنڈ سٹیشن پر دو آنٹیوں سے، جو وضع قطع سے ایشین ہی لگتی تھیں ، سے ایسے ہی پیسے لیتے دیکھا۔ غصے سے زیادہ مجھے افسوس ہوا کہ ہمارے لوگوں نے کیا کیا طریقے نکالے ہیں چیٹ کرنے کے :( گھر آ کر جس جس کو یہ بات بتائی تو حوصلہ ملنے کی بجائے خاصی عزت افزائی ہوئی۔


ویسے میرا مشاہدہ ہے کہ بغیر محنت کے کمائی کے طریقوں میں پاکستانی بیچارے مغرب سے ماٹھے ہی ہیں۔ جتنا ترقی یافتہ ملک اتنا ہی مختلف طریقہ۔ جیسے تانیہ ہیڈ جس نے 9/11کے بعدان19 بچ جانے والوں میں ایک ہونے کا دعویٰ کیا جو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے 78 ویں منزل پر موجود تھے۔ اور چھے سال تک بہادری، ہمت اور حوصلے کی علامت کے طور پر پہچانی جاتی رہی۔ نیویارک کے سابقہ اور موجودہ میئرز اور گورنر کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر سروائیورز نیٹ ورک کی صدر بن گئی اور گراؤنڈ زیرو کے لیے رضاکار ٹور گائیڈ بھی۔ستمبر 2007 میں نیویارک ٹائمز نے نے انکشاف کیا کہ اس میں کچھ حقیقت نہیں ہے۔ اصل کہانی بہت مزے کی ہے۔ میں تو ان خاتون کے story telling skills کی باقاعدہ فین ہو گئی ہوں :D بہرحال یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں کیا۔ بلکہ ایک سائیکالوجسٹ کے مطابق وہ شاید ان لوگوں میں سے ہے جو low self esteem کا شکار ہوتے ہیں اور ردِ عمل کے طور پر خود کو ایک آئیڈیل فرضی شخصیت کیے طور پر پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

تانیہ نہ سہی لیکن Mario Mastellone نے 9/11 Victims' Compensation Fund سے ایک ملین ڈالر وصول کیے کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی کا ایک اہم مہرہ (herniated disc )ناکارہ ہو گیا ہے ۔ لیکن ایک دن کسی فنکشن میں ڈانس کرنے کے شوق نے ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ اسی طرح Steven Chin Leung نے فراڈ کے ایک پرانے مقدمے سے چھٹکارا پانے کے لیے خود کو مردہ ظاہر کیا اور اپنا بھائی بن کر ڈیتھ سرٹیفیکٹ حاصل کیا۔ Fred Parisi نے بھی خود کو ریسکیو ورکر ظاہر کر کے ہیرو کے طور پر پیش کیا جو بعد کی تحقیقات میں زیرو ہوگیا۔ بعد میں ان سب کو سرکاری مہمان بنا لیا گیا.

اور اب عظیم برطانیہ جہاں کے لوگوں کی اصول پسندی اور ایمان داری کی ہم لوگ مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ انکل John Darwin مارچ2002 میں اپنے گھر کے کچھ دور ساحلِ سمندر سے غائب ہوگئے۔ ایک سال کی تلاش کے بعد سرکاری طور پر مردہ قرار دے دیئے گئے اور ان کی بیگم آنٹی ڈارون نے شوہرِ نامدار کی لائف انشورنس کے اڑھائی لاکھ پاؤنڈز حاصل کرلیے۔ ساتھ ہی انکل کی سابقہ دو نوکریوں کی پنشن اور مور گیج انشورنس پالیسی کی رقوم بھی سمیٹیں اور پانامہ کو کوُچ کر گئیں۔ دسمبر دو ہزار سات میں ڈارون انکل لندن کے ایک پولیس اسٹیشن میں اچانک نمودار ہو کر کہنے لگے ۔' مجھے لگتا ہے کہ میں گُم ہو گیا ہوں۔' :D اپنی شامت کو خود آواز دے بیٹھے بیچارے ، کیونکہ کچھ دن بعد ہی انٹرنیٹ پر ان کی سن دو ہزار چھ میں اپنی بیگم کے ساتھ پانامہ میں لی گئی ایک تصویر نمودار سامنے آئی۔ تفتیش ہوئی اور معلوم ہوا کہ انشورنس کی رقوم حاصل کرنے کے لیے انکل آنٹی نے مل کر یہ ڈرامہ کیا۔ اور اس ڈرامے کے ڈراپ سین کے بعد دونوں کو جیل یاترا میں مصروف کر دیا گیا۔

سوچتی ہوں ہم پاکستانی تو فراڈ میں بھی ابھی تک پرانے طریقوں پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں۔




Friday 29 August 2008

ایس ایم ایس اور مسڈ کالز کلچر

12 comments
کل پاکستان اپنی کزن کی بیٹی سے بات ہوئی تو اس کا پہلا شکوہ تھا۔۔‘خالہ! میں آپ کو اتنے ایس ایم ایس کرتی ہوں ۔ آپ جواب دے دیتی ہیں لیکن خود سے ایسے اچھے اچھے ایس ایم ایس کیوں نہیں کرتیں۔‘ اس کو تو میں نے مطمئن کر دیا لیکن تب سے یہی سوچ رہی ہوں کہ ہمارے یہاں موبائل فون سہولت اور ضرورت سے زیادہ ایک ایسی تفریح بن گیا ہے جو وقت اور پیسے کا ضیاع بھی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کام کی بات ہو تو بندہ کچھ کہے بھی۔  اب فارورڈڈ ٹیکسٹ میسجز کا کیا جواب دیا جائے۔ اور جب آپ کو تھوک کے حساب سے ایسے میسجز ملیں تو کیا کریں؟ پاکستان میں تو مجھے یہی فکر لگی رہتی تھی کہ اگر کسی کو جواباً کوئی اچھا سا ٹیکسٹ نہ بھیجا گیا تو شدید ناراضگی کا اندیشہ ہے۔ اسی طرح ایک اور بیماری ‘مسڈ کال‘ دینے کی ہے۔ خصوصاً بچہ پارٹی میں۔ ہر وقت فون ہاتھ میں ہے اور مسڈ کالز دی جا رہی ہیں۔ آدھی بیل گئی اور کاٹ دی۔۔ ستم یہ کہ اس عمل کو بار بار دہرایا جاتا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ اگلا بندہ مصروف ہوگا، سو رہا ہوگا یا کسی ایسی جگہ پر بھی ہو سکتا ہے جہاں فون اس طرح بار بار بجنا اس کے لیے خفت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ویسے بچوں کے علاوہ اچھے خاصے سمجھدار لوگوں کو بھی میں نے ایسا کرتے دیکھا ہے۔ ہماری ایک رشتہ دار کی عادت تھی کہ ایسے وقت میں رنگ کرتی تھیں کہ بندہ سوچ بھی نہ سکتا کہ شرارت کی جا رہی ہے۔ سب شش و پنج میں پڑ جاتے تھے کہ معلوم نہیں واقعی فون کر رہی ہیں یا ڈمب کال ہے۔ نتیجہ یہ کہ اگر فون سن لو تو فوراً شکوہ کہ یہ تو مسڈ کال تھی۔ فون اٹینڈ کیوں کیا؟ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ نہیں اٹینڈ کیا تو بعد میں خبر لی کہ اتنا ضروری کام تھا فون کر رہی تھی سُنا کیوں نہیں!!

ایسی بےسروپا حرکتوں کی وجہ سے کسی کا کتنا بڑا نقصان ہو سکتا ہے اس پر ہم لوگوں نے شاید کبھی غور نہ کیا ہو۔ مجھے پہلے بھی اس بات سے چڑ تھی اور اب ایک انتہائی تکلیف دہ تجربے سے گزرنے کے بعد تو مجھے اس حرکت پر شدید غصہ آتا ہے۔ تقریبا٘ ساڑھے تین سال پہلے کی بات ہے۔ میری ایک کزن کی عادت تھی کہ رات کو جب تک سوتی نہ ,سب کو بیلز دیتی رہتی تھی۔ مجھے کیونکہ صبح جلدی اٹھنا ہوتا تھا اس لیے جلدی سو جاتی تھی۔ اب سوتے ہوئے اگر فون بج گیا اور نیند ٹوٹ گئی تو میں دوبارہ سو نہیں‌ سکتی اور میرے سر میں انتہائی شدید درد بھی ہونے لگتا ہے۔ سو میں نے حل یہ نکالا کہ رات کو فون سائلنٹ موڈ پر کر دیتی تھی۔ اس صبح اتفاق سے میری آنکھ معمول سے کافی پہلے کھل گئی ٹائم دیکھنے کے لیے فون اٹھایا تو ابو کی دو کالز تھیں۔ جو کہ غیرمعمولی بات تھی۔ نیچے بھاگی تو ابو کو نڈھال سا جاگتے ہوئے پایا۔ اماں کچن میں ابو کے لیے کچھ بنا رہی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ساری رات ابو بےچین رہے ہیں۔ اتفاق سے ایک دن پہلے اماں کی طبیعت بھی کافی خراب تھی اور اس رات وہ بھی مسکن دوا کے زیرِ اثر تھیں اس لیے وہ اٹھ بھی نہیں سکیں۔ مزید ستم یہ کہ بھائی بھی آفس کے کام سے شہر سے باہر تھے۔ علامات سے مجھے شک ہوا کہ شاید انجائنا کا مسئلہ ہے۔ بھائی کو فون کر کے بتایا۔ ڈاکٹر کو بلایا۔ ہاسپٹل گئے اور معلوم ہوا کہ ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ لیکن ابو کی اچھی صحت اور قوتِ ارادی کی وجہ سے انہوں نے پوری رات اس درد کو برداشت کر لیا۔ انہیں صحت کی طرف سے کبھی کوئی ہلکا سا مسئلہ بھی نہیں ہوا تھا اس لیے وہ یہی سمجھتے رہے کہ یونہی ذرا سی طبیعت خراب ہے۔ اور کسی کو نہیں جگایا۔ میرا کمرہ بھی اوپر ہے۔ شاید کسی وقت بہت تکلیف میں ابو نے میرا نمبر ملایا ہوگا لیکن مجھے کیا پتہ چلتا، میرا فون تو خاموش تھا :( وہ دن میری زندگی کا سب سے برا دن تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہم پرکرم کیا اور خیریت رہی لیکن میں اب بھی اکثر سوچتی ہوں کہ اگر میرا فون سائلنٹ پر نہ ہوتا تو ابو کو اتنی تکلیف نہ اٹھانی پڑتی :(

اور اس واقعے کے بعد خاندان کے ایسے تمام موبائل ہولڈر بچوں، بڑوں کی تو میں نے وہ کلاس لی کہ اب کوئی بھول کر بھی ایسا نہ کرتا ہوگا لیکن مجھے لگتا ہے کہ فضول میں ٹیکسٹ میسجز کرنا اور مس کالز دینا اکثر لوگوں کی ایک عام عادت بن گئی ہے۔

Thursday 28 August 2008

کیوں بھلا؟؟؟

11 comments


 



ہمیں گلاس آدھا خالی ہی کیوں نظر آتا ہے؟؟؟

Sunday 24 August 2008

پکوڑے

16 comments

ویسے تو میں پکوڑہ کھاؤ مہم میں زیادہ ذوق و شوق سے حصہ لے سکتی ہوں۔ لیکن فی الحال شگفتہ نے 'پکوڑہ بناؤ'میں مصروف کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بہترین ترکیب تو بدتمیز نے شگفتہ کو پہلے ہی بتا دی ہے۔ اور میرے خیال میں بھی یہی سب سے کارآمد ترکیب ہے وقت اور محنت دونوں کی بچت



شگفتہ! ہمارے گھر میں ہر ایک کی اپنی ہی پسند ہے اس لیے مختلف قسموںکے پکوڑے بنتے ہیں۔ بیسن کا آمیزہ (batter) تو سب کے لیے ایک سا ہوتا ہے جس میں کبھی آلو، کبھی سبزی، کبھی چکن وغیرہ ڈالے جاتے ہیں۔



بیسن کا آمیزہ:


اجزاء:


میں کھانا بناتے ہوئے باقاعدہ ناپ تول کی بجائے اندازے سے مقدار لیتی ہوں۔ (اس لیے اگر کہیں کمی بیشی نظر آئے تو پیشگی معذرت)



بیسن: ۲۵۰۔۳۰۰ گرام


لال مرچ: ۱ چائے کا چمچ


( میں کُٹی ہوئی ثابت مرچ ڈالتی ہوں)


ہلدی: آدھا چائے کا چمچ


نمک: حسبِ ضرورت


سفید زیرہ: آدھا چائے کا چمچ


چاٹ مصالحہ: حسبِ پسند


خشک دھنیہ(موٹا موٹا پسا ہوا) : آدھا چائے کا چمچ


بیکنگ پاوڈر: ایک چٹکی


میتھی دانا: ایک چوتھائی چائے کا چمچ


کڑی پتے(تازہ)


ادرک/لہسن پیسٹ: ایک چائے کا چمچ


باریک کٹی ہوئی ہری مرچ( آپشنل)


ہرا دھنیہ


کوکنگ آئل: حسبِ ضرورت




ترکیب:


فرائنگ پین میں ڈیڑھ سے دو چمچ آئل گرم کریں۔ چوتھائی چمچ میتھی دانا اور چھ/سات کڑی پتے ڈال کر بگھار تیار کر لیں۔ اسی دوران بیسن میں تھوڑا سا پانی ڈالیں اور پھر بگھار بھی شامل کر لیں۔ اچھی طرح مکس کر لیں۔ لال مرچ، ہلدی، نمک، زیرہ، خشک دھنیہ، چاٹ مصالحہ، میٹھا سوڈا شامل کر لیں۔ تھوڑا تھوڑا پانی ڈال کر بیسن مکس کریں اور بیٹر تیار کرلیں۔ ہری مرچ اور ہرا دھنیہ بھی ڈال دیں۔ پکوڑے بنانے سے کچھ دیر پہلے آمیزہ تیار کر کے رکھ دیں تو پکوڑے خستہ بنتے ہیں۔



*اکثر لوگ پکوڑوں میں ادرک،لہسن نہیں ڈالتے لیکن میں ڈالتی ہوں۔ مجھے پکوڑوں میں ادرک کا ذائقہ بہت پسند ہے اس لیے میں تازہ ادرک کدوکش کر کے ڈالتی ہوں۔ اماں اور بھابھی اجوائن بھی ڈالتی ہیں پکوڑوں میں۔



اب اس آمیزے کو استعمال کرتے ہوئے کوئی سے بھی پکوڑے بنا لیں۔ :)



۱۔آلو کےسادہ پکوڑے:


ایک میڈیم سائز آلو چھیل کر اس کے باریک قتلے کاٹ لیں ۔ آئل گرم کریں اور آلو کے قتلے اچھی طرح بیسن میں ڈبو آئل میں ڈال دیں۔ گولڈن براؤن ہونے پر نکال لیں۔



 


۲۔چکن اور آلوکے پکوڑے:



*چکن بون لیس: باریک لمبے پیس کاٹ لیں (جیسے فرنچ فرائز کے لیے آلو کاٹتے ہیں


اصلی ترکیب میں چکن کو پہلے ابالنا ضروری نہیں۔ لیکن اس صورت میں آپ کو پکوڑوں کو کافی دیر تک ہلکی آنچ پر پکانا پڑتا ہے۔ اس لیے میں چکن کو پہلے ہی ابال لیتی ہوں)


*آلو: چھیل کر فرنچ فرائز کی طرح لمبائی میں کاٹ لیں۔



بیسن کے مکسچر میں چکن اور آلو شامل کر لیں اور اچھی طرح مکس کر لیں۔ کوکنگ آئل گرم کریں اور چمچ سے مکسچر آئل میں ڈال کر پکوڑے فرائی کر لیں۔( اگر چکن اُبلا ہوا نہیں ہے تو ہلکی آنچ پر کافی دیر تک فرائی کرنا ہو گا تاکہ چکن کچا نہ رہ جائے)


گولڈن ہونے پر پکوڑے نکال لیں۔


اگر چاہیں تو چکن اور آلو کے ساتھ بینگن بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔



۳۔ ڈبل روٹی کے پکوڑے:


سادہ ڈبل روٹی کے سلائسز لیں۔سخت کنارے کاٹ لیں۔ اب سلائسز کو مستطیل یا تکون کسی بھی شکل کے ٹکڑوں میں کاٹ لیں۔


ان ٹکڑوں کو بیسن میں اچھی طرح ڈبو کر گرم آئل میں گولڈن براؤن ہونے تک فرائی کریں۔




۴۔ پیازکے پکوڑے:


ایک بڑا پیاز چھیل کر چھلے دار (رنگز کی شکل میں) کاٹ لیں اور بیسن میں ڈبو کر فرائی کر لیں۔


 





اور اب ان پکوڑوں کو اپنی پسند کی کسی بھی چٹنی کے ساتھ نوش کریں۔ اور مجھے کھانے کی دعوت دینا نہ بھولیں۔ :)


ویسے مجھے آلو کے سادہ پکوڑے اور سبزی کے پکوڑے پسند ہیں۔ جو بھی سبزی فریج میں موجود ہو میرے پکوڑوں کی فلنگ بن جاتی ہے :)




Saturday 23 August 2008

ماضی حال ساتھ ساتھ

5 comments

کتنی بار ایسا ہوتا ہے کہ جس کام کے لیے میں نیٹ آن کرتی ہوں وہ وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے اور میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہوں۔ :)
ایسے ہی کچھ دن پہلے ہوا جب کلک کلک کھیلتے میں ایک جگہ پہنچی جہاں لوگ 'تب' اور 'اب' کے بیچ حائل برسوں کے فرق مٹانے کی کوشش کر رہے تھے۔ :D

تب




اب




۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تب





اب



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



تب



اب



کتنے سارے لوگوں کا ماضی اورحال یہاں موجود ہے۔


آئیڈیا مجھے بہت مزے کا لگا۔ اور میں نے سوچا ہے کہ اس بار میں نے گھر جا کر پرانی البمز کھولنی ہیں اور سب کو کم از کم ایک بار 'تب' اور 'اب' ضرورکِھلانا ہے۔ :D


Wednesday 20 August 2008

؟؟؟؟؟

5 comments

کیا ہوتا اگر
× جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کو آؤٹ آف ٹرن ترقی نہ دی جاتی
×پرویز مشرف کا دو میں سے کم از کم ایک ہی کورٹ مارشل وقت پر ممکن ہو جاتا
× پاکستان کی تاریخ میں کسی شریف الدین پیرزادہ کا نام شامل نہ ہوتا

Monday 18 August 2008

The Arrow of Time

3 comments

بیونس آئرس، ارجنٹینا کے رہائشی ڈائیگو اور سسی کی شادی 17 جون 1976 کو ہوئی۔ ان کے تین بیٹے ہیں اور ہر سال 17 جون کو سب کی تصویریں لینا ایک خاندانی روایت بن گئی ہے۔


17 جون 1976 کو دونوں کچھ ایسے تھے۔

 


 


اور17 جون 2008 کو ایسے۔



 


اب بندہ سوچتا ہے کہ بیچ کے تیس سالوں میں یہ سب کیسے لگتے ہوں گے؟ تو اس کا جواب یہاں موجود ہے۔ ۔اتنا اچھا لگتا ہے دیکھ کر۔ :) مزید مزہ تب آتا ہے جب 2008 میں ان کے بیٹے نکولس کی تصویر پر کلک کیا جائے.


quite inspirational. isn't it :D

Thursday 14 August 2008

آج تمھاری سالگرہ ہے!

5 comments

14 اگست میری زندگی میں دوہری حیثیت کا حامل ہے۔ پاکستان کا یومِ آزادی اور میری امی کا یومِ پیدائش ہونے کی وجہ سے۔ دونوں ہی میری ذات کے اہم ترین حصے ہیں۔ ماں اس دنیا میں میرے وجود کا باعث اور پاکستان اس وجود کی پہچان۔ ماں آخرت میں جنت کی ضمانت اور پاکستان دنیا میں میری جنت۔ ماں ان چند افراد میں شامل جن کا دامن میری تمام تر خامیوں, نالائقیوں اور کمزوریوں کے باوجود میرے لیے کشادہ رہتا ہے۔ پاکستان کا دامن بھی تو ایسے ہی تمام پاکستانیوں کے لیے قطع نظر ان کی اچھائی، برائی، کامیابی، ناکامی کے وا رہتا ہے۔

سالگرہ مبارک میری اچھی پیاری اماں!


اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ ایسے ہی ہمارے سر پر قائم رکھے (آمین)

 


 


سالگرہ مبارک پیارے پاکستان



پاکستان اس وقت جن مسائل کا شکار ہے ان کی سنگینی اپنی جگہ لیکن میرے لیے پاکستان ہمیشہ امید اور خوشی کا نام رہا ہے۔ شاید میرا شمار خوش امید لوگوں میں ہوتا ہے جن کو یقین ہے کہ اگر ہم پاکستان بنا سکتے ہیں، اسے بگاڑ سکتے ہیں تو ہم اسے سنوار بھی سکتے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ دوسروں کو نصیحت کرنے کی بجائے ہم میں سے ہر ایک اپنی ذات سے تبدیلی کا آغاز کرے۔ اگر میری گلی ٹوٹی پھوٹی ہے تو بجائے حکومت کو کوسنے کے میں خود اس کی مرمت کے لیے کچھ کروں تو آہستہ آہستہ کتنے ہی لوگ میرے ساتھ مل جائیں گے۔ اور یہ عمل ایک گلی سے نکل کر محلے ،شہر اور ملک تک پھیل سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے مستقل مزاجی اور مثبت سوچ شرط ہے۔

اللہ تعالیٰ پاکستان اور پاکستانیوں کی مشکلات دور فرمائے اور ان کی راہیں آسان فرمائے (آمین)


 


ایک بار پھر ہم سب کو یومِ آزادی بہت مبارک ہو۔


 


 


جُگ جُگ جیے میرا پیارا وطن!

سالگرہ مبارک مشرف انکل!

7 comments

مشرف انکل!
پہلے تو سالگرہ کی مبارک قبول کیجئے۔ میں نے آپ کو گیارہ اگست کو ہی مبارکباد دینی تھی لیکن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی آپکی سالگرہ کے موقع پر تیاریاں دیکھنے میں اتنی محو ہوگئی کہ موقع ہی نہیں ملا۔

 


خیر ۔ آج آپ کو ایوانِ صدر میں منعقدہ تقریب میں دیکھا تو خیال آیا کہ میں نے تو آپکو ہیپی برتھ ڈے کہا ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپکو صحت اور لمبی عمر عطا کرے تاکہ آپ ملک و قوم کے مفاد میں کیے گئے اپنے فیصلوں کے دوررس اثرات دیکھ کر اپنے آپ کو ‘شاباش‘ دے سکیں۔ آمین




انکل جی! میرا کتنی بار دل چاہتا ہے کہ آپ سے پوچھوں پچھلے نو سال سے آپ پاکستان کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ آپ تھکتے نہیں ہیں؟ مجھے معلوم ہے آپ کا جواب وسیم اکرم جیسا نہیں ہو گا کہ ‘نہیں، میں سگریٹ نہیں پیتا‘۔۔ کیونکہ میں نے کسی انگلش چینل پر آپ کے انٹرویو میں آپ کو کہتے سنا تھا کہ جب آپ ذہنی طور پر ڈسٹرب ہوتے ہیں تو سگریٹ یا سگار سلگا لیتے ہیں ذہنی یکسوئی کے لیے۔ آج بھی تو آپ کے ہاتھ میں سگار تھا جب رات گیارہ بجے ایوانِ صدر میں یومِ آزادی کے سلسلے میں تقریب ہو رہی تھی۔ اور آپ پروگرام کو بھی ویسے انجوائے نہیں کر رہے تھے جیسے پہلے کرتے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ آپ ذہنی طور پر کہیں اور تھے۔ میں ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ ایک اور چینل پر ‘جنرل کیانی‘ انکل کاکُول اکیڈمی میں ‘آزادی پریڈ‘ کی سلامی لیتے نظر آئے۔ شاید اسی لیے وہ آج آپ کی تقریب میں شامل نہیں تھے۔ ہممم اب میں سمجھی۔۔۔آپ کو اپنی وردی یاد آ رہی ہوگی۔ آج وردی ہوتی تو ان کی جگہ آپ وہاں موجود ہوتے۔ ویسے بھی شیروانی کی لچک، وردی کی ‘اکڑ‘ کا مقابلہ کہاں کر سکتی ہے۔ اگر آپ اس لیے اداس تھے تو واقعی یہ اداس ہونے والی بات تھی :(

 


 



اور اس بار آپ نے کیا خود کم مہمان بلائے تھے؟ مجھے لگتا ہے کہ آپ نے ہوشربا مہنگائی دیکھتے ہوئے کم خرچ بالا نشین والا نسخہ اپنا لیا ہے اسی لیے تو  اس بار تقریب میں کم لوگ تھے۔ اچھا کیا! وردی والے بھی نہیں تھے کہ آپ ان کے درمیان سویلین لباس میں کیا اچھے لگتے۔ رہے سلمان تاثیر اور نواب مگسی ۔۔تو انہیں یقیناً اسلام آباد کے لیے جہاز میں جگہ نہیں ملی ہوگی۔ لوگ تو ایسے ہی باتیں بناتے ہیں کہ ایک اپنی پارٹی کی وجہ سے نہیں آئے اور دوسرے صدارت کے متوقع امیدوار ہونے کی وجہ سے۔
اور انکل آپ کو کیا ہوا کہ آپ نے آج تقریر بھی اردو میں کر دی۔ بالکل مزا نہیں آیا۔ اردو تو عوام کی زبان ہے۔ یاد ہے ناں جب مزارِ قائد کے احاطے کی توسیع کے موقع پر آپ نے انگریزی میں خطاب کیا تھا اور ساتھ ساتھ ایک ترجمان نے اردو ترجمہ کیا تھا۔ آپ تو بس انگریزی بولتے ہی اچھے لگتے ہیں۔ پھر آج آپ گزشتہ کئی سالوں کی طرح سٹیج پر گلوکاروں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بھی نہیں گئے۔ کتنا اچھا لگتا تھا جب آپ کے ایک طرف علی عظمت دوسری طرف سلمان احمد اور درمیان میں آپ ۔سب مل کر لمحات کو یادگار بنا دیتے تھے اور ہم دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے تھے کہ ہمارے چیف کتنے ملنسار اور خوش مزاج ہیں۔

ویسے انکل جی آپ نے کتنا عرصہ پاکستان کے لیے اتنے بڑے بڑے کام کیے۔ دو دو عہدوں کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ آپ کو کچھ وقت اپنے لیے بھی نکالنا چاہئیے۔ لیکن جب تک آپ اس ایوانِ صدر میں رکے رہیں گے آپ کہاں اپنے آپ کے لئے وقت نکال سکیں گے۔ آپ ایسا کریں کسی پُرفضا مقام پر شفٹ ہو جائیں۔ رہی پاکستان اور عوام کی فکر تو انہیں خود بھی کچھ کرنے دیں۔ سب کچھ آپ کی ذمہ داری تو نہیں ہے۔ ویسے جب آپ تقریب سے خطاب کر رہے تھے تو مجھے کسی نے کہا کہ ہو سکتا ہے صبح 14 اگست کی مناسبت سے یا ایک دو دن بعد آپ قوم کو کوئی تحفہ دیں کیونکہ آپ کی باڈی لینگوئج اور ٹون کچھ بتا رہی تھی۔ میں نے کہا آپ تو بذاتِ خود ہمارے لیے ایک ‘تحفہ‘ ہیں۔۔مزید کی کیا ضرورت۔ ویسے اگر آپ نے کوئی تحفہ دینا ہوا تو اس کا اعلان کرتے ہوئے اپنا مُکا ہوا میں ضرور لہرائیے گا۔ بہت اچھے لگتے ہیں ایسا کرتے ہوئے۔


اچھا انکل اب ختم کرتی ہوں۔ ابھی باتیں تو بہت ہیں لیکن معلوم نہیں آپ کے پاس اتنا وقت اور فرصت ہو گی یا نہیں کہ میرا خط پڑھ سکیں۔

Saturday 2 August 2008

مسجدِ قرطبہ

3 comments

علامہ محمد اقبال کو میں نے سکول کے زمانے سے پڑھنا شروع کیا تھا۔ لیکن تب مجھے لگتا تھا کہ کیونکہ وہ ہمارے قومی شاعر ہیں اس لیے ان کے شعر پڑھنا اور یاد کرنا ہمارا قومی فرض ہے :D ۔ بہرحال جب الفاظ میں چھپے معانی سمجھ آنے لگے تو معلوم ہوا کہ اقبال کی شاعری اصل میں ہے کیا!

‘بالِ جبریل‘ میں شامل ‘مسجدِ قرطبہ‘ میری پسندیدہ نظم ہے۔ اس کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی ٹائم مشین مجھے بھی اسی دور میں لے گئی ہے جب اقبال نے مسجدِ قرطبہ دیکھی اور یہ شاہکار نظم تخلیق کیا۔

مسجدِ قرطبہ
(ہسپانيہ کي سرزمين ، بالخصوص قرطبہ ميں لکھي گئي)


سلسلہء روز و شب ، نقش گِر حادثات
سلسلہء روز و شب ، اصلِ حيات و ممات
سلسلہء روز و شب ، تارِ حريرِ دو رنگ
جس سے بناتي ہے ذات اپني قبائے صفات
سلسلہء روز و شب ، سازِ ازل کي فغاں
جس سے دکھاتي ہے ذات زيروبمِ ممکنات
تجھ کو پرکھتا ہے يہ ، مجھ کو پرکھتا ہے يہ
سلسلہء روز و شب ، صيرفي کائنات
تو ہو اگر کم عيار ، ميں ہوں اگر کم عيار
موت ہے تيري برات ، موت ہے ميري برات
تيرے شب وروز کي اور حقيقت ہے کيا
ايک زمانے کي رَو جس ميں نہ دن ہے نہ رات
آني و فاني تمام معجزہ ہائے ہنر
کارِ جہاں بے ثبات ، کارِ جہاں بے ثبات!
اول و آخر فنا ، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کُہن ہو کہ نَو ، منزلِ آخر فنا
ہے مگر اس نقش ميں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کيا ہو کسي مردِ خدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حيات ، موت ہے اس پر حرام
تند و سبک سير ہے گرچہ زمانے کي رَو
عشق خود اک سيل ہے ، سيل کو ليتاہے تھام
عشق کي تقويم ميں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھي ہيں جن کا نہيں کوئي نام
عشق دمِ جبرئيل ، عشق دلِ مصطفيٰ
عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام
عشق کي مستي سے ہے پيکرِ گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام ، عشق ہے کاس الکرام
عشق فقيہِ حرم ، عشق اميرِ جنود
عشق ہے ابنِ السبيل ، اس کے ہزاروں مقام
عشق کے مضراب سے نغمہء تارِ حيات
عشق سے نورِ حيات ، عشق سے نارِ حياتb
اے حرمِ قرطبہ! عشق سے تيرا وجود
عشق سراپا دوام ، جس ميں نہيں رفت و بود
رنگ ہو يا خِشت و سنگ ، چنگ ہو يا حرف و صوت
معجزہء فن کي ہے خونِ جگر سے نمود
قطرہء خونِ جگر ، سل کو بناتا ہے دل
خونِ جگر سے صدا سوز و سرور و سرود
تيري فضا دل فروز ، ميري نوا سينہ سوز
تجھ سے دلوں کا حضور ، مجھ سے دلوں کي کشود
عرشِ معليٰ سے کم سينہء آدم نہيں
گرچہ کفِ خاک کي حد ہے سپہرِ کبُود
پيکرِ نوري کو ہے سجدہ ميسر تو کيا
اس کو ميسر نہيں سوز و گدازِ سجود
کافرِ ہندي ہوں ميں ، ديکھ مرا ذوق و شوق
دل ميں صلٰوۃ و درُود ، لب پہ صلٰوۃ و درود
شوق مري لَے ميں ہے ، شوق مري نے ميں ہے
نغمہء 'اللہ ھُو' ميرے رَگ و پے ميں ہے
تيرا جلال و جمال ، مردِ خدا کي دليل
وہ بھي جليل و جميل ، تُو بھي جليل و جميل
تيري بِنا پائدار ، تيرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا ميں ہو جيسے ہجومِ نخيل
تيرے در و بام پر واديِ ايمن کا نور
تيرا منارِ بلند جلوہ گہِ جبرئيل
مٹ نہيں سکتا کبھي مرد مسلماں کہ ہے
اس کي اذانوں سے فاش سًرِ کليم و خليل
اس کي زميں بے حدود ، اس کا افق بے ثغور
اس کے سمندر کي موج ، دجلہ و دنيوب و نيل
اس کے زمانے عجيب ، اس کے فسانے غريب
عہدِ کہن کو ديا اس نے پيامِ رحيل
ساقيِ اربابِ ذوق ، فارسِ ميدانِ شوق
بادہ ہے اس کا رحيق ، تيغ ہے اس کي اصيل
مرد سپاہي ہے وہ اس کي زرہ 'لا اِلہ'
سايہء شمشير ميں اس کہ پنہ 'لا اِلہ'
تجھ سے ہوا آشکار بندہء مومن کا راز
اس کے دنوں کي تپش ، اس کي شبوں کا گداز
اس کا مقامِ بلند ، اس کا خيالِ عظيم
اس کا سرور اس کا شوق ، اس کا نياز اس کا ناز
ہاتھ ہے اللہ کا بندہء مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفريں ، کارکشا ، کارساز
خاکي و نوري نہاد ، بندہء مولا صفات
ہر دو جہاں سے غني اس کا دلِ بے نياز
اس کي اميديں قليل ، اس کے مقاصد جليل
اس کي ادا دل فريب ، اس کي نگہ دل نواز
نرم دمِ گفتگو ، گرم دمِ جستجو
رزم ہو يا بزم ہو ، پاک دل و پاک باز
نقطہء پرکارِ حق ، مردِ خدا کا يقيں
اور يہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
عقل کي منزل ہے وہ ، عشق کا حاصل ہے وہ
حلقہء آفاق ميں گرمي محفل ہے وہ
کعبہء اربابِ فن! سطوتِ دينِ مبيں
تجھ سے حرم مرتبت اندلسيوں کي زميں
ہے تہِ گردوں اگر حسن ميں تيري نظير
قلبِ مسلماں ميں ہے ، اور نہيں ہے کہيں
آہ وہ مردان حق! وہ عربي شہسوار
حاملِ ' خلقِ عظيم' ، صاحب صدقِ و يقيں
جن کي حکومت سے ہے فاش يہ رمزِ غريب
سلطنتِ اہلِ دل فقر ہے ، شاہي نہيں
جن کی نگاہوں نے کی تربیتِ شرق و غرب
جن کے لہو کے طفیل آج بھی ہیں اندلسی
خوش دل و گرم اختلاط، سادہ و روشن جبیں
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشمِ غزال
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں
بوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے
رنگِ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے
دیدہء انجم میں ہے تیری زمیں، آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے
عشقِ بلا خیز کا قافلہء سخت جاں!
دیکھ چکا المنی ، شورشِ اصلاحِ دیں
جس نے نہ چھوڑے کہیں نقشِ کہن کے نشاں
حرفِ غلط بن گئی عصمتِ پیر کنشت
اور ہوئی فکر کی کشتیء نازک رواں
چشمِ فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب
جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں
ملتِ رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر
لذتِ تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں
روحِ مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب
رازِ خدائی ہے یہ ، کہہ نہیں سکتی زباں
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا!
وادیِ کہسار میں غرقِ شفق ہے سحاب
لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
سادہ و پُرسوز ہے دخترِ دہقاں کا گیت
کشتیء دل کے لیے سیل ہے عہدِ شباب
آبِ روانِ کبیر!× تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالمِ نو ہے ابھی پردہء تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرہء افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
جس سے نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روحِ اُمم کی حیات کشمکشِ انقلاب
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
۔۔۔۔۔
× وادا الکبیر، قرطبہ کا مشہور دریا جس کے قریب ہی مسجدِ قرطبہ واقع ہے۔

(محمد اقبال)

مسجدِ قرطبہ: ملکہ پکھراج، طاہرہ سید



غلام علی نے بھی اس نظم کا کچھ حصہ گایا ہے ۔