(جیو نیوز)
میں عموماً ہندی فلمیں نہیں دیکھتی اس لئے اکثر ان کا کوئی مشہور گانا سننے کا موقعہ تب ملتا ہے جب وہ دوسروں کے لئے پرانا ہو جاتا ہے۔۔وہ بھی اتفاق سے گاڑی میں یا جب کسی کو گنگناتے سنوں۔۔ورنہ میری سوئی پاکستانی راک بینڈز پر ہی اٹکی رہتی ہے۔۔ :D
غالباً 2006 میں 'وہ لمحے' ریلیز ہوئی تھی اور اس کے بعد میری ایک کزن نے میری مت مار دی تھی۔۔یہ کہہ کہہ کر کہ آپی اس فلم کا گانا 'تُو جو نہیں ہے' ضرور سنیں۔۔جو کہ کافی عرصے بعد میں نے سن ہی لیا اور اچھا بھی لگا۔۔۔لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ کسی پرانے پاکستانی گانے کا نیا ورژن ہے۔۔ اس دفعہ گھر گئی تو ایف ایم پر 'ایس۔بی۔جون کا گایا ہوا یہی گانا سنا جو مجھے نئے والے سے زیادہ اچھا لگا۔۔ یو ٹیوب پر ڈھونڈا تو انہی گلوکار کا کم از کم تین مختلف مواقع پر گائے ہوئے اسی گانے کی ویڈیوز ملیں۔۔ 1959، 1972 اور شاید 1980s میں گایا ہوا ۔۔۔پہلی دو تو مجھ سے بھی پرانی نکلیں :D
مجھے نئی بات یہ معلوم ہوئی کہ 'وہ لمحے' میں یہ گانا ایس ۔بی جون کے بیٹے 'گلن جون(GLENN JOHN)' نے گایا ہے۔۔ ویسے نئے گانے
کے بول پرانے سے مختلف ہیں ۔۔۔بہرحال مجھے تو اب نئے گانے کے مقابلے میں پرانا والا زیادہ اچھا لگتا ہے۔
تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے
تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے
نگاہوں میں تُو ہے یہ دل جھومتا ہے
نگاہوں میں تُو ہے
نہ جانے محبت کی راہوں میں کیا ہے
نہ جانے محبت کی راہوں میں کیا ہے
راہوں میں کیا ہے
جو تُو ہمسفر ہے تو کچھ غم نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے
وہ آئیں نہ آئیں جمی ہیں نگاہیں
وہ آئیں نہ آئیں جمی ہیں نگاہیں
ستاروں نے دیکھی ہیں جھک جھک کے راہیں
ستاروں نے دیکھی ہیں جھک جھک کے راہیں
جھک جھک کے راہیں
یہ دل بدگماں ہے نظر کو یقیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے
آنکھوں میں، نہ زلفوں میں، نہ رخسار میں دیکھیں
مجھ کو مری دانش، مرے افکار میں دیکھیں
ملبوس بدن دیکھے ہیں رنگین قبا میں
اب پیرہنِ ذات کو اظہار میں دیکھیں
سو رنگِ مضامین ہیں، جب لکھنے پہ آؤں
گلدستہءمعنی ، مرے اشعار میں دیکھیں
پوری نہ ادھوری ہوں نہ کمتر نہ برتر
انسان ہوں انسان کے معیار میں دیکھیں
رکھے ہیں قدم میں نے بھی تاروں کی زمیں پر
پیچھے ہوں کہاں آپ سے، رفتار میں دیکھیں
منسوب ہیں انسان سے جتنے بھی فضائل
اپنے ہی نہیں میرے بھی اطوار میں دیکھیں
کب چاہا کہ سامانِ تجارت ہمیں سمجھیں
لائے تھے ہمیں آپ ہی بازار میں دیکھیں
اُس قادرِ مطلق نے بنایا ہے ہمیں بھی
تعمیر کی خوبی اس معمار میں دیکھیں
ڈاکٹر فاطمہ حسن
مجھےسب سے زیادہ مزہ میسنجر پر دوسروں کے 'نک' پڑھ کر آتا ہے۔ کیونکہ اس سے 'آج کا دن کیسا گزرا' یا آجکل کس نئی 'افتاد' کا سامنا ہے، کا اندازہ بڑی آسانی سے ہو جاتا ہے :)۔۔۔ بہت دنوں بعد اپنی ایک کولیگ سے بات ہوئی تو ان کے 'نک' سے صاف ظاہر تھا کہ بیچاری اس بار اسائنمنٹ کے چکر میں بہت بری پھنسی ہیں چنانچہ ابھی انہوں نے میرے 'کیا ہو رہا ہے آجکل؟" کے جواب میں ابھی 'کچھ نہ پوچھو' ہی کہا تھا کہ باقی کہانی میں نے مکمل کر دی۔۔۔کیونکہ ان کا نک پکار پکار کر ان کا حال بتا رہا تھا۔۔ ' Life ain't worth scanning piles of papers only :( '
یہی بات کرتے ہوئے ہمیں خیال آیا کہ ذرا دوسروں کے بارے میں بھی اندازہ لگائیں۔۔چنانچہ ہم دونوں نے مل کر کچھ 'نکس' پر تکے لگائے۔۔۔جن میں سے 'درج ذیل' تکوں کی تصدیق ہو بھی گئی :)
۔۔۔۔۔ (نام)۔۔هو علم بعودة انعدام الفاءده من ايام وليال من الأرق' ۔ ('امتحانات ، اسائنمنٹس اور پریذینٹیشز' کے تابڑ توڑ حملوں میں ایسا ہی لگتا ہے )
۔۔۔No Buddy No Tension ۔۔۔( لگتا ہے آج کل مصروفیت میں دوستوں سے رابطے منقطع ہیں )
۔۔۔ ""Some Spread Hapines Wherevr Dey Go;;Others Wenevr Dey Go*** ۔۔( ہمممم ۔۔بات تو سچ ہے مگر۔۔۔)
۔۔۔ 'یہ میری لائف ہے'۔۔۔(ٹین ایج اور سونی ٹی وی ڈراموں کا امتزاج )
۔۔۔ the only way 2 hv friends is to be the 1. (یہ بچی ہمیشہ بہت زبردست بات کرتی ہے )
۔۔۔ Glamour sometimes overwhelms people (آج کل شاید کوئی نیا ٹرینڈ زیرِ بحث ہے ۔۔ویسے گلیمر تو ہمیشہ ہی ایسا کرتا ہے :))
۔۔۔ I hate knowing what I know (ہممممم۔۔۔یقیناً ایگزامز کی ڈیٹ شیٹ آ گئی ہے )
۔۔۔ I am a coooooooool gal ( یقیناً آجکل آپس میں کوئی مزے کی بحث چھڑی ہے۔۔ :) )
۔۔۔ Morning Prep, Evening Prep, Lights out :( ۔۔۔ (صاف ظاہر ہے کہ کیڈٹ کالج والے بچوں کی کس طرح مت مار دیتے ہیں )
۔۔۔ کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد۔۔۔(لگیاں دے دکھ وکھرے :P )
۔۔۔۔ Life is chilling ۔۔۔۔ (لگتا ہے ان دنوں باجی گھر آئی ہوئی ہیں اور راوی چین ہی چین لکھتا ہے )
۔۔ wanna go touch skies ۔۔۔(ہممممممم ۔۔۔کسی نئی مہم کا ارادہ ہے شاید )
۔۔ Hey Shona ۔۔۔۔ (میری انڈین دوست نے شاید اس فلم کے بعد کوئی نئی فلم نہیں دیکھی )
کل ڈاکٹر ارباب غلام رحیم اور آج ڈاکٹر شیر افگن نیازی پر تشدد۔ مقام اور تشدد کرنے والے مختلف لیکن واقعات دونوں یکساں۔ میری نظر میں یہ دونوں واقعات ہماری قومی سوچ میں بتدریج رونما ہونے والی تبدیلی کو ظاہر کر رہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے 'ذرائع ابلاغ' نے جس طرح حالات، واقعات اور شخصیات کو exploit کرنا شروع کیا ہے اسی نہج پر وکلاء نے چلنا شروع کر دیا ہے۔ یقیناً ذرائع ابلاغ اور وکلاء تحریک نے ملک پر طاری جمود کی کیفیت کو توڑنے اور حالات کو بدلنے میں اہم اور کسی حد تک مثبت کردار ادا کیا ہے لیکن اس مثبت کردار کو منفی ہونے میں چنداں دیر نہیں لگتی۔۔اور یہی اب پاکستان میں ہو رہا ہے۔ 'کچھ' ہونے کے زعم میں لوگ اور ادارے بعض اوقات اعتدال کی حدود کو پھلانگ کر ایسے راستے پر چل نکلتے ہیں جو مقصد کی تباہی کی طرف جاتا ہے۔ آج ڈاکٹر شیر افگن نیازی پر تشدد اسی طرف اشارہ ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ سارے کیے کرائے پر پانی پھرنا تو آج کا واقعہ اس کی درست عکاسی کرتا ہے۔ افسوس ہے میڈیا کے لوگوں پر جنھوں نے بیرسٹر اعتزاز احسن کی بار بار درخواست پر بھی کیمرے بند کرنے سے انکار کر دیا اور حیف ہے ملک کے 'دانشور' وکلاء پر جن کے خیال میں ایک بے بس اور بیمار انسان پر اس طرح کا حملہ ان کے سینے پر ایک 'تمغے' کی طرح سج جائے گا۔ افسوس صد افسوس۔ اگر قانون اور انصاف کے لئے لڑنے والوں کے نزدیک جزا و سزا کا پیمانہ یہ ہے تو پھر حالات میں بہتری اور عدل پسند معاشرے کا خواب کو اللہ حافظ
ارباب رحیم اور شیر افگن نیازی سمیت پچھلے دورِ حکومت کے تمام زعماء سزا کے قابل ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا سلوک ایک مہذب قوم کو زیب دیتا ہے؟
جملہ حقوق © دریچہ | تقویت یافتہ بلاگر | بلاگر اردو سانچہ| تدوین و اردو ترجمہ