مرد اور عورت کو جو کردار قدرت نے ودیعت کئے ہیں وہی ان کی اصل ہیں۔۔دونوں اپنی اپنی جگہ ایکدوسرے سے مختلف اور بہتر ہیں۔۔۔ اور زندگی کا حسن بھی اپنے مخصوص کردار میں رہ کر زندگی گزارنا ہے۔۔۔میں حقوقِ نسواں یا عورت مرد کی برابری کی علمبردار نہیں ہوں۔۔۔ لیکن روزمرہ زندگی میں بہت سے ایسے واقعات مشاہدے میں آتے ہیں جو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ عورت کو مظلوم طبقہ کہنے والے کچھ غلط نہیں ہیں۔۔۔ کہیں نہ کہیں ناانصافی کا سرا مرد سے جا ملتا ہے۔۔
روزی سے میری پہلی ملاقات لندن میں ہوئی تھی۔ ایک دن پہلے جب پہلی بار فون پر اس سے بات ہوئی تو اس کی آواز اور بڑوں کے سے انداز میں بات کرنے سے مجھے لگا کہ شاید یہ کوئی بڑی خاتون ہیں لیکن اگلے ہی دن جب مقررہ جگہ اور وقت پر ایک نازک سی لڑکی میرے پاس آ کھڑی ہوئی تو مجھے انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی۔ روزی کا تعلق انڈیا کی ریاست یو-پی سے ہے۔۔۔ گزشتہ دو سالوں میں میرا روزی کے ساتھ مستقل رابطہ ہے چاہے ہم دونوں یہاں ہوں یا پاکستان/انڈیا میں۔
تین برس بیشتر روزی کی شادی ملائیشیا میں رہنے والے ایک ہندوستانی خاندان میں ہوئی ۔ اور کچھ ہی عرصے بعد مخصوص سسرالی جھگڑوں کا آغاز ہوا۔ اچھا خاصا کاروبار ہونے کے باوجود روزی کی ساس کو لگنے لگا کہ ان کے بیٹے کو کاروبار پھیلانے کے لئے اس رقم کی ضرورت ہے جو روزی کے والدین نے جہیز کے متبادل روزی کے بنک اکاؤنٹ میں جمع کروائی تھی۔۔ رقم کاروبار میں لگا دی گئی۔ کچھ عرصے گزرا تو ان لوگوں کو لگا کہ کاروبار میں کچھ خاص فائدہ نہیں ہو رہا چنانچہ مزید رقم لگانی چاہئیے۔۔ جس کے لئے روزی کے والدین اپنی زمین میں سے اس کا حصہ الگ کریں۔ جب کہ روزی کے ساتھ ساتھ اس کے والدین کو بھی اعتراض تھا کہ ابھی ان کی تین اور بیٹیوں کی تعلیم اور شادیاں باقی ہیں۔۔ چنانچہ اس بار انکار کیا گیا اور یوں روزی کے برے دنوں کا آغاز ہوا۔۔۔ اس سارے جھگڑے میں اس کے شوہر کا کردار خاموش تماشائی کا سا تھا۔۔ جھگڑا بڑھتا گیا اور ایک دن شوہر کی غیر موجودگی میں روزی کو انڈیا کا ٹکٹ ہاتھ میں تھما دیا گیا کہ واپس تب آنا جب تمھارے پاس رقم ہو۔ انڈیا واپس آنے کے بعد کوشش کے باوجود کوئی سمجھوتا نہ ہو سکا ۔۔ اور پھر روزی نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔۔ پچھلے اڑھائی سالوں سے وہ انگلینڈ میں ہے اور چھوٹی موٹی جاب کر کے زندگی گزار رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے قریبی دوستوں میں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے جو ہر مشکل وقت میں اس کا حوصلہ بڑھاتے رہتے ہیں۔۔۔ اس سارے عرصے میں اس کا رابطہ اپنے شوہر سے قائم ہے۔۔لیکن اس طرح کہ جب کبھی روزی نے اس کو فون کیا۔۔اس نے بات کر لی۔۔ لیکن ان سالوں میں ایک دفعہ بھی اس شخص نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ تمھارا گزارا کیسے ہو رہا ہے؟
کچھ عرصہ پہلے میں اس سے پوچھا کہ تم وہیں رہتی۔۔اتنی مشکلیں تو نہ دیکھنا پڑتیں۔۔۔ والدین کو چھوڑ کر یہاں کیوں آ گئی ہو؟؟؟جواب میں اس کے چہرے کے چہرے پر ابھرنے والا کرب مجھے آج بھی یاد ہے۔۔۔اس نے کہا۔۔۔"میں کیا کرتی۔۔۔ انڈیا اور پاکستان میں اتنا فرق تو نہیں ہے۔۔تمہیں بھی معلوم ہی ہو گا کہ ہمارے معاشروں میں جب بیٹیاں اجڑ کر والدین کی دہلیز پر آتی ہیں تو پورے خاندان کو کس مشکل سے گزرنا پڑتا ہے۔۔۔ میری وجہ سے میری بہنوں کی زندگی متاثر ہو رہی تھی اور میں اس وقت کا انتظار نہیں کر سکتی تھی جب میری بہنیں مجھے الزام دینے لگیں۔۔۔۔۔۔ میں کیا کرتی۔۔نہ والدین کا گھر میرا۔۔نہ شوہر کا۔۔۔ "
شیلا کا تعلق بھی یو-پی ہی سے ہے لیکن روزی کے برعکس ان کا تعلق نسبتاً کم متمول خاندان سے ہے۔۔۔شیلا دی سے میرا تعارف اپنی بھابھی کے ذریعے برمنگھم میں ہوا تھا جہاں دونوں ایک ایشین سوسائٹی کی ممبرز ہیں۔۔۔ اور یوں جب بھی وہاں جانا ہو میری واحد مصروفیت شیلا سے گپ شپ ہوتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ میری طرف سے صرف شپ ہوتی ہے کیونکہ شیلا دی بلا مبالغہ 200 الفاظ فی منٹ بولتی ہیں۔۔۔جن میں کہیں کوئی فل اسٹاپ یا کومہ نہیں ہوتا۔۔۔ :) اور ایسی ہی گپ شپ میں مجھے ان کی کہانی معلوم ہوئی۔۔۔ شیلا کو یہاں آئے تقریباً چار سال ہو چکے ہیں۔۔۔ انڈیا میں جب ان کی شادی ہوئی تو ان کے شوہر ایک سرکاری محکمے میں کام کرتے تھے۔۔گھر کا نظام چلانے کے لئے شیلا کو بھی ملازمت کرنی پڑی۔۔۔کچھ عرصہ بعد ان کے شوہر نےساری جمع پونجی لگا کر انگلینڈ کا رخ کیا ۔۔کچھ ماہ بعد شیلا بھی یہاں آ گئیں۔۔۔ اور ایک بار پھر ویسے ہی ملازمت شروع کر دی۔۔۔ایک بار پھر ان کے شوہرِ نامدار کو محسوس ہوا کہ امریکہ ان کی منزل ہے۔۔جمع جتھا تو کچھ تھا نہیں سو شیلا نے اپنے والدین کے ذریعے کچھ انڈیا سے کچھ لوگوں سے قرض لیا اور یوں موصوف نے امریکہ کی راہ لی۔۔اور کافی مہینوں کے بعد پہلی بار رابطہ کرتے ہوئے بتایا کہ آتے ہی وہ کسی جرائم پیشہ گروپ کے ہاتھ چڑھ گیا اور انھوں نے سب کچھ لوٹ لیا۔۔۔ مزید کچھ مہینے گزرے اور معلوم ہوا کہ ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔۔اور کمانا تو درکنار ان کے پاس علاج کے لئے بھی رقم نہیں ہے۔۔۔یوں پچھلے تین سال سے شیلا دی یہاں کام کر رہی ہیں اور بری بھلی اپنی زندگی گزار رہی ہیں۔۔اگرچہ اب ان کو امریکہ میں اپنے شوہرِ نامدار کو خرچہ نہیں بھیجنا پڑتا لیکن جن یہاں آتے ہوئے اور آنے کے بعد جن لوگوں سے بڑی بڑی رقمیں ادھار لی تھیں وہ سب شیلا کو ہی واپس کرنی ہیں کہ جو شخص تین سال سے ان کو ایک پائی ذاتی خرچے کے لئے نہیں دے سکا اس سے کچھ کرنے کی توقع فضول ہے۔
اب باری آتی ہے پالین کی۔۔۔ پالا(پالین) کے ساتھ میری دوستی پہلی ہی ملاقات میں پکی ہو گئی تھی۔ حالانکہ وہ مجھ سے اتنی بڑی ہے کہ پاکستان میں ہوتی تو میں ادب کے مارے سلام کرنے سے آگے نہ جاتی لیکن یہاں تو ایسا نہیں ہے۔۔۔پالا سے بھی میں دو سال پہلے ملی تھی جب پہلی بار یہاں آنا ہوا تھا۔۔۔ اپنی باتوں اور سوچ کے انداز سے وہ مجھے کبھی بھی مغربی معاشرے کی نمائندہ نہیں لگی۔۔اور جب ایک بار میں نے اس سے یہ کہا تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا "تمہیں ایسا اس لئے محسوس ہوتا ہے کہ میری دادی ترکش تھیں۔۔۔اور میرا بچپن ان کے ساتھ ترکی میں ہی گزرا ہے۔۔۔مشرق بھی میری ذات کا حصہ ہے۔۔" پالا کے دو بچے ہیں اور وہ پچھلے سال تک وہ میٹروپولیس میں کام کر رہی تھی۔ اس کا شوہر کوکین لیتا تھا اور الکوحلک تھا۔۔ یہاں پر کہانی فرق ہے۔۔۔بجائے مزید مشکلوں کا شکار ہونے کے پالا نے اس کو اپنی زندگی سے نکال باہر کیا۔۔۔۔ اور اب وہ اپنے دونوں بچوں کی پرورش کر رہی ہے۔ لیکن اس کے احساسات اور مشکلیں بھی روزی اور شیلا دی جیسی ہی ہیں۔۔
آمنہ میری سہیلی کی کزن ہیں۔۔ ان کے والد اسلام آباد میں ایک اہم سرکاری عہدیدار ہیں۔۔۔تقریباً سات سال پہلے آمنہ کی شادی اپنے کزن سے ہوئی۔۔۔شادی کے بعد ان کےشوہر نے سول سروسز کا امتحان دیا اور ڈی ایم جی میں سیلیکٹ ہو گیا۔۔۔ بیٹے کے اکیڈمی جانے کے بعد آمنہ کے ساس اور سسر کو بیٹے کی شادی جلدی کرنے پر پچھتاوا ہونے لگا۔۔۔ حالانکہ دونوں گھرانوں کا شمار اسلام آباد کے متمول طبقے میں ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی انہیں لگا کہ سول سروسز میں جانے کے بعد ان کے بیٹے کی شادی کسی اعلیٰ بیوروکریٹ خاندان میں ہو سکتی تھی اور اس کے لئے مزید اوپر جانا بہت آسان ہو سکتا تھا۔۔۔یوں حالات خراب ہوتے چلے گئے اور ایک وقت ایسا آیا کہ آمنہ کو سسرال چھوڑ کر والدین کے گھر آنا پڑا۔۔کچھ دنوں بعد شوہر آ کر بیٹی کو ساتھ لے گیا۔۔۔ ڈپریشن کی شکار آمنہ کو والدین نے کچھ عرصہ کے لئے بڑی بہن کے پاس کینیڈا بھیج دیا۔۔جہاں انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا سے گریجویٹ آمنہ کو بہت اچھی نوکری مل گئی اور یوں آہستہ آہستہ اس کی زندگی معمول پر آ گئی لیکن پھر اچانک ان کے مجازی خدا کو نہ جانے کیاخیال آیا اور عین اس وقت جب آمنہ کی امیگریشن مکمل ہونے میں بہت تھوڑا وقت رہ گیا تھا ان کو واپس آنے کا حکم دیا گیا۔۔۔ بہن کے منع کرنے کے باوجود وہ واپس آ گئیں کہ شاید ان کے شوہر کو زیادتی کا احساس ہو گیا ہے حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ نئی بہو نے سوتیلی بیٹی کی پرورش اور جائنٹ فیملی سسٹم میں رہنے سے انکار کر دیا تھا۔ یوں آمنہ ایک بٹے ہوئے گھر میں زندگی گزار رہی ہیں۔۔
کردار اور جگہ مختلف سہی لیکن چاروں کہانیاں ایک سی ہیں۔۔۔ معاشرہ کوئی بھی ہو۔۔۔ مذہب کچھ بھی ہو۔۔۔ طبقہ کوئی بھی ہو۔۔۔ خسارہ عموماً عورت کے حصے آتا ہے۔۔۔
ایسے جھگڑوں میں دونوں میں سے کوئی بھی فریق مظلوم ہو سکتا ہے۔۔کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔۔۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عورت کے مظلوم ہونے کا تناسب ہمیشہ سے زیادہ ہے۔۔۔ پڑھی لکھی ہے تو اس کی تعلیم کو بھی طعنہ بنا لیا جاتا ہے اور ان پڑھ ہے تو جاہل کا نام دے دیا جاتا ہے۔۔۔معاشرے اور خاندان میں مرد کو اگر افضل درجہ ملا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرنے میں ناکام کیوں ثابت ہوتا ہے۔۔۔ یہ افضل درجہ اس کے عورت کی نسبت زیادہ باظرف ہونے کا متقاضی ہے۔۔ عورت ہر حال میں مرد کی ذمہ داری ہے اور اگر مرد اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی ادا کرے تو بہت سے جھگڑوں کا وجود آپ ہی آپ ختم ہو جائے گا۔۔۔