Tuesday 25 September 2007

جو ملے تھے راستے میں

2 comments

مجھے کہیں آنا جانا ہو تو گھر سے نکلتے ہی میرا پسندیدہ مشغلہ آس پاس کے لوگوں کا مشاہدہ کرنا ہے۔۔ اگر کوئی ساتھ ہو تو ہماری بحث شروع ہو جاتی ہے کہ فلاں بندہ اس وقت کیا سوچ رہا ہو گا۔۔یا اپنے حلیے سے کیسا لگتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔اگر تو میرا بھائی ساتھ ہو تو آخر میں ہم دونوں کی ایک نئی بحث شروع ہو جاتی ہے اور وجہ بحث کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔۔ :grin:
اور اگر میں اکیلی ہوں تو میں کسی ایک کے بارے میں ہی اندازہ لگاتی رہ جاتی ہوں اور سفر ختم بھی ہو جاتا ہے۔ :)کل بھی ایسا ہی ہوا۔۔میں لائبریری جا رہی تھی۔۔۔ کہ راستے میں کراسنگ پر ایک ٹین ایجر بچے کو بھاگتے دیکھا اور اس کے پیچھے ایک سیکوریٹی گارڈ بھی ٹریفک کی پروا کئے بغیر بھاگ رہا تھا۔۔سیکوریٹی گارڈ نے اس کو پکڑ لیا اور میں یہ سوچنے لگی اس نے کیا کیا ہوگا؟؟ اور کیوں کیا ہو گا؟؟یقیناً اس کے گھر کے حالات اچھے نہیں ہوں گے یا پھر یہ emotionally upset teenager گروپ میں سے ہو گا جس کے بارے میں برطانوی حکومت اور ذرائع ابلاغ اکثر پریشان ہوتے رہتے ہیں(میں نے دیکھا ہے کہ پریشان ہونا یہاں لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے) :grin: ۔۔۔ خیر یہ سوچتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ میں تو لائبریری پہنچنے والی ہوں ۔۔چنانچہ میں نے پھر آگے پیچھے نظر دوڑائی تو ایک انکل اور آنٹی شاپنگ سنٹر کی طرف جا رہے تھے۔۔ میں نے سوچا لگتا ہے آج آنٹی نے اپنے مجازی خدا کی جیب خالی کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔۔لیکن وہ دونوں اتنے مزے سے گپ شپ کر رہے تھے کہ مجھے اپنے خیال کی خود ہی تردید کرنی پڑی۔۔اس لئے کہ میں نے دیکھا ہے کہ عموماً بیگمات کے ساتھ شاپنگ کرنا شوہران کے لئے کافی بورنگ کام ہوتا ہے۔۔ ہو سکتا ہے وہ شاپنگ کرنے نہیں جا رہے ہوں۔خیر آگے آئی تو دو پاکستانی خواتین نظر آئیں۔۔ دونوں شاپنگ کر کے واپس جا رہی تھیں اور اتنے سارے بیگز اٹھائے بمشکل چل رہی تھیں۔۔میں نے سوچا پاکستان میں تو یہ کبھی بھی اتنی دور سے اتنا سامان اٹھا کر پیدل واپس نہ جاتی ہونگی۔۔ خیر اگلی آدھی ملاقات ایک بہت ہی معمر خاتون سے ہوئی جو آہتسہ روی سے بس سٹاپ کی طرف جا رہی تھیں۔۔ ہمارے یہاں ان کے ہمعمر لوگوں کو گھر بٹھا دیا جاتا ہے کہ یہ عمر آرام کرنے کی ہے باہر کے کام گھر والے اپنے ذمے لے لیتے ہیں۔۔ یہ سوچتےسوچتے میں لائبریری پہنچ گئی اور وہاں داخل ہوتے میرا سامنا ایک hoodie طالبعلم سے ہوا۔ پھر میری ذہنی رو بہک گئی کہ اگر حجاب اور ہُڈ دونوں کا مقصد سر ڈھانپنا ہے تو اول الذکر کے بارے میں اس قدر جانبداری کا رویہ کیوں؟؟؟ ابھی میں اس سوال کا جواب سوچ ہی رہی تھی کہ میری باری آ گئی اور ہمیشہ کی طرح میری اس سوچ کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔۔

Monday 17 September 2007

میڈیلین میکین

2 comments

برطانوی جوڑے جیری میکین اور کیٹ میکین کی تین سالہ بیٹی میڈلین میکین تین مئی 2007 کو پرتگال میں ان کے اپارٹمنٹ سے غائب ہوئی جہاں وہ اپنی چھٹیاں منا رہے تھے۔۔تب سے اب تک میڈلین کی گمشدگی اور اس کی تلاش کے لئے شروع کی گئی مہم بین الاقوامی شہرت حاصل کر چکی ہے۔ گزشتہ ایک سو سینتیس (137) دنوں سے دینا بھر میں میڈیا اس کیس کو بھرپور کوریج دے رہا ہے۔۔اس دوران کیس نے بہت سے رخ اختیارکئے جس میں سے تازہ ترین میڈلین کے والدین کو شاملِ تفتیش کرنا ہے۔ پرتگال کی پولیس نے دونوں کو اس وقت مشتبہ قرار دیا جب ان کی کرائے پر لی گئی کار میں پولیس کو خون کے نشانات ملے۔ اس بارے میں مزید تفصیل نہیبں بتائی گئی لیکن میکین فیملی کو جو برطانیہ واپس آ چکی ہے، کو پابند کیا گیا ہے کہ پرتگال پولیس ان کو کسی بھی وقت طلب کر سکتی ہے۔۔
اللہ کرے کہ میڈلین زندہ ہو اور اس کے والدین بے قصور ثابت ہوں ورنہ اس رشتے سے بھی اعتبار اٹھنا شروع ہو جائے گا۔۔
میڈلین  کے بارے میں تو جلد ہی کچھ معلوم ہو جائے گا لیکن میں جب بھی اس بارے میں کچھ سنتی یا دیکھتی ہوں تو مجھے ان گنت پاکستانی ماؤں کے ان جگر گوشوں کا خیال آ جاتا ہے جن کو اغواء کرنے والے سرِ عام دندناتے پھرتے ہیں۔۔جن کی فریاد ساری قوم سنتی ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں۔۔۔ کیا ان بچوں کی زندگیاں قیمتی نہیں ہیں؟؟یا بے حس حکمرانوں کے دور میں پیدا ہونا ان کا المیہ ہے؟؟